نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نیا روڈمیپ: دل کا بہلا وہ ۔۔۔ نصرت جاوید

میں یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہوں کہ عمران خان صاحب کو وزارتِ عظمیٰ سے موجودہ اسمبلی میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا جاسکتا ہے۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ملکی سیاست کے اسرار و رموز تک رسائی کے لئے 25 سے زیادہ برس دن رات ایک کئے تھے۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کی بدولت بالآخر دریافت کیا کہ ہمارے ہاں جس شے کو ’’صحافت‘‘ کہا جاتا ہے درحقیقت ’’چور اور لٹیرے‘‘ سیاست دانوں کے دئیے ’’لفافوں‘‘ کی محتاج ہے۔ ’’سچ‘‘‘ تو وہ ہے جو عمران خان صاحب بیان کرتے ہیں۔ اگست 2018 میں لیکن وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے بعد وہ اہم ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف ہوگئے۔ ہماری رہ نمائی اب ان کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج فرماتی ہے۔ ’’لفافہ صحافت‘‘ کے پھیلائے ’’جھوٹ‘‘ کے مقابلے میں ’’حقائق‘‘ کی تلاش میں یوٹیوب سے رجوع کرنا بھی ضروری ہے۔ میں بہت لگن سے اس App کے ذریعے بتائی ’’خبروں‘‘ کے ذریعے ملکی سیاست کے اُتار چڑھائو کو گرفت میں لانے کی کوشش کرتا ہوں۔

یوٹیوب پر مقبول ترین صحافیوں کی اکثریت جن کی دیانت اور حب الوطنی پر سوال اٹھانے کی گنجائش ہی موجود نہیں اصرار کر رہی ہے کہ اپوزیشن کا حال ہی میں قائم ہوا اتحاد PDM ’’اُڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے‘‘ والے عالم میں مبتلا ہوچکا ہے۔ نواز شریف کی مبینہ طور پر ’’وطن دشمن‘‘ تقاریر اس کا سبب بتائی جارہی ہیں۔ دعویٰ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی برطانیہ میں پناہ گزیں ہوئے ’’مجرم‘‘ کے مرتب کردہ بیانیے کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ اسفند یار ولی خان کی اے این پی کو بھی اس کے بارے میں ہزاروں تحفظات ہیں۔ حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت العلمائے اسلام میں بھی ’’بغاوت پھوٹ پڑی ہے‘‘۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ کے سنجیدہ اور تجربہ کار اراکین پارلیمان بھی ’’تاحیات قائد‘‘ کو اپنی جماعت پر ناقابلِ برداشت بوجھ شمار کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایسے حالات میں PDM ’’اگلا قدم‘‘ اٹھانے کے قابل نہیں رہی۔ عمران حکومت کے لئے لہٰذا ستے خیراں ہیں۔

’’ستے خیراں‘‘ کے اس ماحول میں لیکن ہمارے ایک بہت ہی نامور اور ’’اندر کی خبر‘‘ لانے میں لاثانی انصار عباسی صاحب نے اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے دو روز قبل اطلاع یہ دی ہے کہ اپوزیشن کی تینوں بڑی جماعتوں کے چند اہم افراد سے حال ہی میں چند ’’ملاقاتیں‘‘ ہوئی ہیں۔ نواز شریف کی حالیہ تقاریر اگرچہ ایسی ’’ملاقاتوں‘‘ سے اجتناب کی خواہاں تھیں۔ ’’ملاقاتیں‘‘ مگر جاری رہیں۔ ان ’’ملاقاتوں‘‘ کے نتیجے میں بالآخر ایک ’’روڈ میپ‘‘ تیار ہوا نظر آرہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو تقریباََ قائل کر دیا گیا ہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں جلسوں کے انعقاد کے بعد اسلام آباد کی جانب کسی مارچ کی صورت بڑھنے کے بجائے وہ پارلیمان ہی کے ذریعے ’’تبدیلی‘‘ کی راہ نکالیں۔ آغاز اس عمل کا پنجاب سے ہو۔ نواز شریف کی مسلم لیگ چوہدریوں کی ’’قاف‘‘ کے ساتھ مل جائے تو پیپلز پارٹی کی حمایت سے عثمان بزدار کو پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ کے منصب سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا جاسکتا ہے۔ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے صوبے پر اپنی گرفت کھودینے کے بعد وفاقی حکومت حواس باختہ ہوجائے گی۔ عمران خان صاحب کے خلاف اس کے بعد تحریک عدم اعتماد کو قومی اسمبلی سے منظور کروانا آسان ہوجائے گا۔

عملی صحافت سے ریٹائر ہوکر گوشہ نشین ہوا مجھ جیسا کالم نگار مذکورہ ’’روڈ میپ‘‘ پر تبصرہ آرائی کے قابل نہیں۔ متحرک اور باخبر صحافیوں کی بات کو مگر سنجیدگی سے لیتا ہوں۔ ٹھوس حقائق سے قطعی لاعلم اور ’’ذرائع‘‘ کی معاونت سے یکسر محروم ہونے کے باعث یہ جان ہی نہیں سکتا تھا کہ ’’کن لوگوں‘‘ کی کون سے سیاستدانوں کے ساتھ ’’ملاقاتوں‘‘ کے بعد ایک نیا ’’روڈ میپ‘‘ تیار ہوا ہے۔

مذکورہ ’’روڈ میپ‘‘ پر غور کرتے ہوئے مگر 2019 کی آخری سہ ماہی یاد آگئی۔ ان دنوں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں یعنی مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی نے یکجا ہوکر عمران حکومت کو وہ قانون تاریخی عجلت میں پاس کروانے کی سہولت فراہم کی جس نے ایک اہم ریاستی ادارے کے سربراہ کی میعادِ ملازمت میں توسیع کو قانونی چھتری فراہم کی۔ یوں اپنے تئیں ’’جمہوری نظام‘‘ کو بچالیا۔ پارلیمان کو ’’بچانے‘‘ کے بعد اس میں سے ’’تبدیلی‘‘ کی اُمید بھی باندھ لی گئی تھی۔ مسلم لیگ (نون) میں موجود میرے کئی ’’دوست‘‘ ان دنوں پارلیمان کی راہداریوں میں بقول غالبؔ ’’اِتراتے پھر‘‘ رہے ہوتے تھے۔ محض ایک رپورٹر کی حیثیت میں ان سے فقط یہ سوال کرتا کہ وہ عمرا ن خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے کیسے ہٹاسکتے ہیں تو ناراض ہوجاتے۔ مہاتما بدھ کی طرح ان کی خاموشی یہ بتاتی کہ ان کی آنکھ جو رونما ہوتا دیکھ رہی ہے مجھ جیسے ’’دوٹکے کے صحافی‘‘ سوچ بھی نہیں سکتے۔

میعادِ ملازمت والے قانون کے بعد اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی گرے لسٹ سے نکلوانے کیلئے بنائے قوانین کو بھی تاریخی عجلت میں منظور کروایا۔ پاکستان اس کے باوجود گرے لسٹ ہی میں موجود رہا۔ شہباز شریف اور ان کی اولاد البتہ نیب اور شہزاد اکبر صاحب کے غضب کی زد میں آگئے۔ اپوزیشن کو اپنے ساتھ ’’ہتھ‘‘ ہوا محسوس ہوا۔ PDM کی تشکیل اسی باعث ممکن ہوئی۔ نواز شریف کی جانب سے ہوئی دھواں دھار تقاریر اس تناظر میں ’’جوابی وار‘‘ سنائی دیں۔ پنجاب اور وفاق میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ’’تبدیلی‘‘ کی دوبارہ امید میری رائے میں قطعاََ وہی مقام ہے ’’گزرے تھے ہم جہاں سے‘‘۔

میں یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہوں کہ عمران خان صاحب کو وزارتِ عظمیٰ سے موجودہ اسمبلی میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا جاسکتا ہے۔ ستمبر 1989 میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے خلاف ایسی ہی ایک تحریک پیش ہوئی تھی۔ ان دنوں کے صدر غلام اسحاق خان جن کے پاس آٹھویں ترمیم کے ذریعے میسر قومی اسمبلی توڑنے والا اختیار بھی تھا دل وجان سے اس تحریک کے حامی تھے۔ جنرل اسلم بیگ نے بھی بطور آرمی چیف اس کو مناسب پشت پناہی فراہم کی۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے نواز شریف صاحب نے صوبائی حکومت کے تمام تر وسائل اس تحریک کی کامیابی کے لئے وقف کردئیے تھے۔ ان دنوں ’’فلورکراسنگ‘‘ کو مشکل ترین بنانے والا قانون بھی موجود نہیں تھا۔ ان تمام حقائق کے باوجود تحریک عدم اعتماد پر گنتی ہوئی تو اپوزیشن کے چار اراکینِ اسمبلی پیپلز پارٹی کے حامی ہوگئے۔ محترمہ سے ’’نجات‘‘ کے لئے بالآخر صدر اسحاق خان نے 6اگست 1990کے روز اسمبلی توڑنے والا اختیار استعمال کیا۔

عمران خان صاحب اگرنام نہاد “One Page” پر نہ رہے۔ پنجاب ان کے ہاتھ سے نکل گیا تب بھی وہ وفاقی حکومت کی Buy or Bully والی قوت کو بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اپنے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنادیں گے۔ اس تحریک کے پیش ہونے سے قبل اگر پنجاب بھی ان سے ’’چھین‘‘ لیا گیا تو خان پنجابی فلم والے جاٹ کی طرح ’’وحشی‘‘ ہوجائے گا۔ اپنے اختیارات کو حیران کن انداز میں ان افراد کے خلاف استعمال کرنے میں دیر نہیں لگائے گا جو ان کی دانست میں پنجاب میں لگائی ’’گیم‘‘ کو کامیاب کروانے کا سبب ہوئے۔ پنجاب ’’مافیا کی سازش‘‘ کی بدولت گنوا دینے کے بعد وہ جلسے جلوسوں میں خود کو ’’مظلوم‘‘ بناکرپیش کریں گے۔ اپنے حامیوں کی Core Constituency کو ہمہ وقت متحرک رکھنے میں جت جائیں گے۔ ’’سازشوں کا شکار ‘‘ ہونے کی دہائی انہیں یقینا ایک نیا جنم دے گی۔ اس ’’جنم‘‘ کی بدولت فرض کیا ان کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو خواجہ آصف یا احسن اقبال کی قیادت میں بنائی نئی حکومت کو وہ ایک دن بھی چین سے رہنے نہیں دیں گے۔ ان سے ’’بے وفائی‘‘ کرنے والے تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی بھی ’’نئے حاکموں‘‘ کی بدولت ’’سب کچھ لٹاکے …‘‘ والے غم اور احساسِ جرم میں مبتلا ہو جائیں گے۔ جس ’’روڈمیپ‘‘ کا چرچا ہورہا ہے وطنِ عزیز کو کسی صورت سیاسی استحکام کی جانب لے جاتا لہٰذا نظر نہیں آرہا۔ جی کو بہلانے والا کھلونا ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

About The Author