وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استاذی قیوم نظر نے ہمارا آشوب لکھا تھا، ’مجھ پہ آئی کہاں ٹلی ہے ابھی‘۔ اِدھر اْدھر سے اچھی خبروں کی لین ڈوری بندھی ہے۔ ’پھول کھلے ہیں گلشن گلشن، لیکن اپنا اپنا دامن‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ انتخاب ہار گئے۔ یہ ری پبلکن پارٹی کی ہار نہیں، طاقت، دھونس اور دھمکی کے بل پر اجتماعی اخلاقی ذمہ داری روندنے کی شکست ہے۔ ہمارے خطے میں افغانستان سے لداخ تک بچھی بساط پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ قلمروئے روس سے خبر ہے کہ اگلے اٹھارہ برس کے لئے جلوس شاہی کا سامان رکھنے والے ولادیمیر پیوٹن بھی شاید چند مہینوں کے مہمان ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کا آسمان بدل رہا ہے۔ بنیادی وجہ کسی جلالۃ الملک کا رفیع ارادہ نہیں، معدنی تیل کا عہد کنارے لگنے کو ہے۔ میر شکیل الرحمٰن کی ضمانت منظور کر لی گئی۔ جرم بے گنہی میں آٹھ ماہ کی اسارت ختم ہوئی۔ کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ قافلہ قلم یہاں سے پیش قدمی کرے گا یا مراجعت کی آزمائش درپیش ہو گی۔ اس دوران ایک خبر گلگت بلتستان سے آئی جہاں برطانوی نشریاتی ادارے کی صحافی فرحت جاوید کو عین انتخابی مہم کے ہنگام پیپلز پارٹی کے چیئرمین محترم بلاول بھٹو سے خصوصی انٹرویو کے لئے مدعو کیا گیا۔
18 اکتوبر 2014ء کو باغ جناح کراچی کے جلسے سے سیاسی سفر کا آغاز کرنے والے بلاول بھٹو نے تیزی سے سیاسی بلوغت کی منزلیں طے کی ہیں۔کسی منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح نعرے اور پالیسی کا فرق سمجھا ہے، موقف اور اشارے کی باریکیاں سیکھی ہیں۔ اپنی والدہ اور نانا کی اندوہ ناک شہادتوں کے سائے میں نمودار ہونے والے بلاول بھٹو کا حقیقی سرمایہ عوام دوست سیاست، جمہوری آدرش، وفاقی اکائیوں کے حقوق اور محروم عوام کے معیار زندگی میں بہتری کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا، بلاول بھٹو نے مشکل حالات کے باوجود ان خطوط ہی پر اپنی سیاست استوار کی ہے۔ بھٹو صاحب نے ایک مزے کا جملہ کہا تھا، ’ہم نے اپنے دریاؤں سے سیاست سیکھی ہے۔‘ مطلب یہ کہ لمحہ موجود کی رکاوٹ سے ہار نہیں ماننا، راستہ نکال کر آگے بڑھنا ہے حتیٰ کہ دریا کے بہاؤ میں اتنی قوت پیدا ہو جائے اور پاٹ میں ایسی وسعت آ جائے کہ موجودہ رکاوٹ بے معنی ہو کر رہ جائے۔ یہ سیاسی طریقہ کار کی ایک عمدہ وضاحت ہے لیکن راستہ بناتے ہوئے سمت کا ادراک قائم رکھنا ضروری ہے۔ بلاول بھٹو کے نسبتاً مختصر سیاسی سفر میں بھی ایسے منجدھاری مرحلے پیش آئے۔ کہیں انہوں نے خاموشی سے کام لیا اور کہیں چراغ کی لو نیچی کر دی۔ جون 2015 میں آصف علی زرداری کی اسلام آباد تقریر، مارچ 2018میں بلوچستان، اگست 2019میں سینیٹ کا عدم اعتماد اور پھر گزشتہ ماہ آئی جی سندھ کا مبینہ اغوا محض چند مثالیں ہیں۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ آصف علی زرداری بوجوہ پس منظر میں ہیں اور پیپلز پارٹی کی زمام کار بلاول بھٹو کے ہاتھ میں ہے۔ اب ان کے لئے مشکل مراحل پر پس قدمی کی جگہ کم ہے۔ مذکورہ انٹرویو میں ایک نکتہ تو ٹائمنگ کا ہے۔ گلگت بلتستان کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو قابل ذکر کامیابی ملی تو اس انٹرویو پر مزید انگلیاں اٹھیں گی۔ دوسرا نکتہ یہ کہ پی ڈی ایم کے اب تک ہونے والے جلسوں میں عوام کا موڈ واضح ہو چکا۔ محترم نواز شریف اپنے سیاسی سفر کے اس مقام پر ہیں جہاں قائد اعظم محمد علی جناح مئی 1947، شیخ مجیب فروری 1971، ذوالفقار علی بھٹو مارچ 1972 اور محترمہ بے نظیر بھٹو اکتوبر 2007میں تھیں۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی مرحلے کے خدوخال میاں نواز شریف کے لب و لہجے کے زیر وبم سے متعین ہوں گے۔ مسلم لیگ کی اپنی قیادت میں زیر لب پس و پیش کے باوجود کسی میں نواز شریف کے بیانیے سے اختلاف کی ہمت نہیں۔ عالمی سیاست، دستوری کیف و کم، ملکی معیشت اور چاروں صوبوں سے جمہوری قوتوں میں غیرمعمولی اتفاق رائے سے ایسا چومکھی محاذ تشکیل پا رہا ہے جو بریگیڈیئر (ر)اعجاز شاہ، جنرل(ر) قادر بلوچ، شبلی فراز اور کراچی کے مصطفیٰ کمال کی دستگاہ سے پرے کی چیز ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی قامت بحران کی شدت سے طے پاتی ہے۔ دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا / عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا۔
پیپلز پارٹی ہمارا اہم قومی اثاثہ ہے۔ حتمی تجزیے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ہی ہمارے جمہوری مکالمے کی بنیادی فریق ٹھہریں گی۔ سیاسی قیادت کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ موجودہ عوامی ابھار نوے کی دہائی میں حکومتوں کی تشکیل و تخریب کے داغدار کھیل کی توسیع نہیں ہے۔ ہمارا سفر میثاق جمہوریت اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے دو اہم سنگ میل پار کر چکا ہے۔ بے شک سیاسی سوالات کو کسی فرد کے نام سے منسوب کرنا ارفع سیاست نہیں لیکن آپ ہی بتائیے کہ بھٹو صاحب کی شہادت کا ذمہ دار ضیاالحق تھا یا سپریم کورٹ کے پا بہ گل منصف؟ اگر پاکستان کی مخصوص سیاسی صورت حال میں ثبوت کا سوال اٹھانا ایسا ہی normative معاملہ ہے تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے مارک سیگل (Mark Siegel) کے نام ای میل میں کس ثبوت کی بنا پر نام دیے تھے۔ خود بلاول بھٹو نے تین ہفتے قبل کس ثبوت پر ان واقعات کا معاملہ اٹھایا تھا جس کی انکوائری کا اب انہیں انتظار ہے۔ دیکھیے وزیر آغا کا شعر کس مشکل میں کام آ رہا ہے۔ ’دئیے بجھے تو ہوا کو کیا گیا بدنام / قصور ہم نے کیا، احتساب اس کا تھا‘۔ تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے والے نواز شریف کی سیاسی طاقت چالیس برس کے براہ راست تجربے سے کشید ہوئی ہے۔ بے شک بلاول بھٹو بھی اس منزل کو پہنچیں گے۔ اس وقت ان سے وسیع تر جمہوری فہم و فراست کی توقع کی جاتی ہے۔ کسی کا نام لینے یا نہ لینے سے اس تضاد کی حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی جس کی نشاندہی بیس ستمبر کے اعلامیے میں کی گئی تھی۔ بلاول بھٹو ظالم ہیں کہ گوجرانوالہ کے جلسے میں چونکتے ہیں اور گلگت بلتستان پہنچ کے اس کا اظہار فرماتے ہیں
لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے
ہے خیر میر صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر