نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نئے میثاق کا ایک اور صفحہ۔۔۔عاصمہ شیرازی

معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں۔۔۔ حزب اختلاف کے اس بھاری بھر کم مشترکہ بیانیے اور آنے والے میثاق کا بوجھ اپوزیشن جماعتیں کسی طور ایک ساتھ اٹھا پائیں گی؟

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ابھی کل کی ہی بات ہے کہ اُس ایک صفحے کا بہت چرچا تھا۔ ایک بیانیہ تھا کہ پہلی بار پنڈی اور اسلام آباد ایک صفحے پر ہیں۔ یہ بیانیہ بھی اہم رہا کہ فوج اور عدلیہ حکومت کی پُشت پر ہیں اور اس میں دو رائے بھی نہیں۔۔۔
مگر اب کیا اُس ایک صفحے کی تحریر کی روشنائی مدھم پڑتی دکھائی دے رہی ہے؟ اب ایک نئے صفحے کی تیاری ہے مگر اب کی بار یہ صفحہ حزب اختلاف کے ہاتھ ہے۔
پی ڈی ایم جلسوں کے بعد اپوزیشن کا بیانیہ ’نامی گرامی‘ شخصیات کو تو شاید اتنا ظاہری نقصان نہیں پہنچا سکا جتنا حکومت کی ساکھ کو پہنچایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کپتان کو پُرانے ساتھی کی یاد ستائی اور جہانگیر ترین چینی سے زیادہ میٹھے رشتے کا پاس رکھتے ہوئے ایک خوشگوار صبح وطن واپس تشریف لے آئے۔ ناں کوئی روک نا ٹوک۔
بہر حال جہانگیر ترین کو یہ کمال تو حاصل ہے کہ اُنھیں ہر مشکل سے کپتان کو نکالنے کا گُر آتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کپتان کو مشکل میں ڈالتے ہیں یا پنجاب کی سیاست میں چودھریوں کے ذریعے مشکل سے نکالتے ہیں۔
کیا عجیب بات ہے کہ ایک ایک کر کے اچانک تمام اتحادی حکومت کو آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ پنجاب کی سیاست کو بغور دیکھنے والے اچھے سے جانتے ہیں کہ گجرات کے چوہدری وضع داری میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اگر وہ بھی وزیراعظم کے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیں تو مراد کیا ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن کا وہ بیانیہ ہے جس میں میاں نواز شریف کی زبان سے ادا شدہ چند نام بیانیے سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ میاں صاحب نے نام کیوں لئے؟ یہ وہ سوال ہے جو نہ صرف اپوزیشن بلکہ ن لیگ کے رہنما بھی ایک دوسرے سے پوچھتے دکھائی دیتے ہیں۔
ناموں کا دھچکا صرف بلاول کو ہی نہیں لگا بلکہ مولانا بھی چونک اٹھے۔ خطرہ چار سو چالیس نے اپوزیشن کو بہر حال دہلا دیا ہے۔ یہ بحث اپنی جگہ کہ میاں صاحب کو نام لینے چاہیے تھے یا نہیں مگر اپوزیشن اب نقصان کی تلافی کی کوشش ضرور کر رہی ہے۔
رہی بات بیانیے کی تو پی ڈی ایم کے حالیہ سربراہی اجلاس میں سب پہلے سے طے شدہ اعلامیے پر متفق دکھائی دیے۔ بات جلسوں سے آگے بڑھتی اور لانگ مارچ تک جاتی دکھائی دے رہی ہے۔
اب کی بار اپوزیشن اعلامیے کو ایک نئے میثاق میں ڈھالنے میں مصروف ہے جس میں پہلے نمبر پر حکومت کی برطرفی اور دوسرے نمبر پر اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار کے خاتمے پر زور دیا گیا ہے۔ کشمیر پر سودا بازی کے خلاف اور سچائی کمیشن کی تشکیل جیسے مطالبات بھی سامنے لائے جاچکے ہیں۔
قابل عمل تجاویز پر مشتمل نئے میثاق کا یہ مسودہ آئندہ ہفتے منظر عام پر لائے جانے کی تیاری ہے۔اپوزیشن میثاق کے نئے صفحے میں عوام اور ریاست کے معاہدے کو بنیادی اہمیت دے رہی ہے۔ تبدیلی کی گونج میں حتمی تاریخیں بھی دی جا رہی ہیں اور دعوے بھی زور و شور سے جاری ہیں تاہم سیاسی ہنڈیا میں حتمی تڑکہ کون لگائے گا یہی دیکھنا اہم ہو گا۔
معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں۔۔۔ حزب اختلاف کے اس بھاری بھر کم مشترکہ بیانیے اور آنے والے میثاق کا بوجھ اپوزیشن جماعتیں کسی طور ایک ساتھ اٹھا پائیں گی؟ سوال یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کیسے اور کون کرے گا۔ماضی میں پاکستان میں جمہوریت کی بحالی میں عالمی طاقتوں کا ذکر موجود رہا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ مقامی طاقتیں بھی اس تبدیلی کا حصہ رہی ہیں۔ مگر اب کی بار کیا اپوزیشن جماعتیں محض عوامی طاقت پر ہی انحصار کریں گی؟

About The Author