نعیم مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہرِ اقتدار کا یہ رنگ ہے کہ وہ اپنی دھن میں مگن رہتا ہے اور ذکر زمانے کا چھیڑے رکھتا ہے۔ پارلیمانی لاجز سے نجی محفلوں تک اور حلقۂ یاراں سے سول سیکرٹریٹ تک‘ پی ڈی ایم کے تین جلسوں اور مستقبل کے قصے کہانیوں کے علاوہ گلگت بلتستان میں بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی و انتخابی محنت کے تذکرے اور مریم نواز شریف کے جلسوں کی بازگشت ہے جن کو ’’ٹرمپیانہ‘‘ حرکات و سکنات سے دلچسپی تھی‘ وہ اسلام آباد میں بیٹھ کر امریکی الیکشن کے مزے لے رہے تھے۔ ہم واپس لاہور پہنچے ہی تھے کہ پیچھے سے وزیراعظم کے ظہرانے کی سرگوشیاں بھی آپہنچیں۔ ظہرانے کی سرگوشیوں میں بہرحال کوئی خاص بات نہ تھی۔ صرف یہ تذکرہ ہی ہورہا ہے کہ حکومتی حلیف سنگ سنگ ہیں مگر اقتدار کے۔ سنا ہے ق لیگ اور تحریک انصاف کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اجی ہم مانتے ہیں یہ ’’جھولی‘‘ دامن کا ساتھ ہے۔ جب تک ’’دامن‘‘ کا دست شفقت ہے‘ جھولی میں خیر ہی خیر ہے، لہٰذا کمنٹیٹرزاس سنگت اور سنگھار پر اپنی کمنٹری ضائع نہ کریں۔
ایک حیرانی بہرحال اس بات پر ہے کہ گلگت بلتستان الیکشن پر تاحال پیش گوئیوں کا بازار گرم نہیں ہوا۔ اسلام آباد کی خاموشیوں کے بھی مطالب ہوا کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کوئٹہ جلسہ چھوڑ کر جی بی میں دما دم مست قلندر کرنے میں مصروف ہیں، مریم کی وہاں موجودگی سیاسی معنوں کو جنم دینے کے درپے ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیراعظم عمران خان بھی گلگت بلتستان کا چکر لگا آئے ہیں پھر بھی پیش گوئی کا کوئی دفتر نہیں کھلا تو ہم اسے بے یقینی اور اعتماد کی کمی کے علاوہ کچھ نہیں کہیں گے۔ سرگوشیاں بھی گر ’خاموش‘ ہیں تو اسے ’’اپنا وہم ہے درمیاں‘‘ یا کسی خوف نے کمنٹیٹرز کو ڈرا رکھا ہے ؟ پی ڈی ایم کی دھواں دھار بیٹنگ نے دوستوں کی بائولنگ کو محتاط کر رکھا ہے پھر بھی کسی کو الیکشن کمیشن کی خوبیوں پر ’’ بھروسا ‘‘کچھ کہنے نہیں دیتا تو ہم کیا کریں؟
یہ طے ہے کہ اقوام میں بھروسے ووٹ کو عزت دینے کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ امریکہ کے حالیہ الیکشن کا یہ نعرہ کہ”Count Every Vote’ and ‘Stop the Steal” ووٹ کو عزت دینے کے ارادے اور وعدے ہی کا نعم البدل ہے۔ ووٹ کو عزت دینے والے کون ہیں اور کیوں ہیں؟ یہ ایک الگ داستان ہے مگر یہ عزم اور خواہش صداقتِ عامہ ہے اور اس کے بغیر جمہوری سسٹم کھوکھلا ہے۔ ووٹ کو عزت دو کا سلسلہ گلگت بلتستان سے بلوچستان اور ملک کے ہر کوچہ و بازار میں برابر اہم ہے۔ ووٹ کو عزت دے کر جو بات کرے، سب سے پہلے اسے ہی ووٹ کو عزت دینا ہوگی۔ قول و فعل کے تضاد نے پہلے ہی ملت کی لٹیا ڈبو رکھی ہے۔
شہرِاقتدار میں اس بار ہمیں احتیاط کا دامن سب سے نمایاں نظر آیا جسے میں پھر سماجی اعتماد اور سیاسی اعتقاد کی کمی ہی گردانوں گا۔ نون لیگ کےپی کے جنرل سیکرٹری و ایم این اے اور سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی کا عشائیہ، پارلیمانی لاجز میں بلوچستان کے اہم ایم پی اے امیر امل کی باتوں میں شفافیت اور اعتماد بہرحال لگا ،وہ سربراہ بی این پی سردار اختر مینگل کے قریبی ساتھی ہیں۔ ان کے بقول، انہیں وقت کی تبدیلی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا، پھر بلاول بھٹو زرداری کی کوئٹہ جلسہ میں موجودگی نہ ہونے پر بھی انہیں کوئی شک و شبہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ امیر امل کے مطابق، جس دن کوئٹہ جلسہ تھا، وہ گواہ ہیں کہ بلاول بھٹو جی بی سے سردار اختر مینگل سے ہرپل رابطے میں تھے۔ یہ بات چلتے چلتے اس لئے بیچ میں آگئی کہ کئی لوگ سمجھ رہے تھے کہ بلاول پی ڈی ایم سے دوری اختیار کرنے کے درپے ہے اور اس کی وجہ نواز شریف کی تقاریر ہیں۔ ایسا ہرگز دکھائی نہیں دے رہا البتہ یہ ضرور ہے بلاول بھٹو نے جی بی الیکشن کو سب سے زیادہ سیریس لیا ہے اور اس سنجیدگی کا انہیں وہاں اچھا جواب بھی ملا ہے کیوں کہ لوگ بھی بلاول بھٹو کو اتنا ہی سیریس لے رہے ہیں۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم سے دوری کا معاملہ ہے، یہ سرگوشی ہی بےبنیاد ہے۔ پیپلزپارٹی تو اپنی میزبانی میں ہونے والی اے پی سی میں پی ڈی ایم کی بنیاد کا راستہ ہموار کرنے والی ہے جس کا وہ بدستور کریڈٹ لے بھی رہی ہے۔
شہرِ اقتدار میں سابق وزیر مملکت چوہدری جعفراقبال کے نومبر میں ماہِ اقبال کی مناسبت سےمنعقدہ تقریب’’اقبال اور قرآن‘‘ کے حوالے سے انیق احمد کی گفتگو اور عشائیے کا اہتمام بھی قابلِ ذکر ہے جس میں سیاسی و سماجی و تعلیمی رہنماؤں اور میڈیا کے دوستوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات احمد جواد سے ابصار عالم تک تو اقبالیات سے باہر نہیں نکلے ۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلرز ڈاکٹر ضیاءالقیوم و ڈاکٹر محمد علی ویسے ہی سیاسی گفتگو سے پرہیز کرتے ہیں تاہم ، لیگی سابق ایم این اے افتخار الدین (چترال) ، میڈیا احباب سمیت سبھی جی بی الیکشن اور پی ڈی ایم ایکشن کے تناظر میں حکومتی بوکھلاہٹ کو محسوس کررہے تھے۔ یہ بات بھی مدِنظر رہے کہ اس اثناء میں پنجاب کے تین وزراء کی ’’تبدیلی‘‘ کو شہر اقتدار کی سیاسی فضاؤں نے ایک پریکٹیکل جوک کے سوا کچھ نہیں سمجھا۔
شہرِ اقتدار کے وہ باسی جن کے ہاتھ میں عنانِ اقتدار ہے، وہ یہ نہ بھولیں کہ تبدیلی کے اپنے نعرے سے وہ تاحال کوسوں دور ہیں۔ شہر اقتدار کی قربتیں کافی نہیں ہوتیں جب تک وعدے کی پاسداریوں اور ترقی کی راہداریوں سے قربت نہ ہو۔ بیگانے ہی نہیں، اپنے بھی حکمرانوں سے مطمئن نہیں۔ نعروںکو عملی رنگ نہ دے پانے والوں کی بزم شہر اقتدارکو یوں حشر نشر کردیا کرتی ہے کہ سرگوشیاں اعلان کرنے لگتی ہیں :
بوئے گل نالۂ دل دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ