نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امریکہ میں بھی ووٹ کو عزت دو کی دہائی۔۔۔امتیازعالم

بائیڈن کے صدر منتخب ہونے سے امریکہ اپنے روایتی عالمی امپیریل رول کی جانب پلٹ جائے گا، واشنگٹن اتفاق رائے پھر سے جھاڑ پھونک کر چمکایا جائے گا

امتیاز عالم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمائما گولڈ اسمتھ نے اپنی فلم وائٹ ہائوس کے اندر سے نکلتی چیخوں ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ کے ذریعے صدر ٹرمپ کا خوب تمسخر اڑایا ہے جو شکست کو قبول کرنے پر ابھی راضی نہیں، سوشل میڈیا پہ بڑے مزے مزے کے تبصرے چل رہے ہیں، کہیں ووٹ کو عزت نہ ملنے کا نوحہ ہے تو کہیں ووٹ چوری کرنے کے نسخے پاکستان سے منگوانے کے مشورے دیئے جارہے ہیں۔

غرض یہ کہ بی بی جمہوریت کا پُھلکا خوب اڑایا جارہا ہے، وہ بھی مغرب کی سب سے پرانی آئینی وفاقی جمہوریہ میں۔ ہم پاکستانی جمہوریت پسند تو منہ چھپائے پھرتے ہی تھے کہ اب امریکی بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ امریکہ میں کم از کم اس جمہوری روایت کا بڑا پاس کیا جاتا رہا ہے کہ جونہی کسی امیدوار کو شکست ہوئی، اس نے اگلے ہی لمحے اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے صدارت کے کامیاب امیدوار کو تہنیتی پیغام دینے میں کبھی تامل نہیں کیا۔ مجال ہے کہ ٹرمپ ٹس سے مس ہوئے ہوں، الٹا خم ٹھونک کر میدان میں ڈٹ گئے ہیں کہ وہ تو بھاری اکثریت سے جیت رہے تھے لیکن رات گئے جانے کیسے انتخابی نتائج چوری کرلیے گئے اور وہ حقِ رائے دہی پہ مارے گئے مبینہ ڈاکے اور انتخابی فراڈ کو رکوانے کے لیے ڈاک کے ذریعے ڈالے ووٹوں کی گنتی رکوانے کے لیے قانونی چارہ جوئی پہ اتر آئے۔

ان کی بے بنیاد الزام بازی اور شواہد کے بغیر مقدمہ بازی پہ عالمی میڈیا میں ان کا خوب مذاق اڑایا جارہا ہے۔ کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ کورونا وائرس کی نئی لہر کے باعث رائے عامہ تو تقسیم ہوئی ہی تھی، طریقۂ انتخاب بھی یوں تقسیم ہوجائے گا کہ ڈیموکریٹس نے ڈاک کے ذریعے یا پھر ووٹنگ کے دن سے پہلے ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کرلیا، جبکہ ٹرمپ اور ریپبلکن ووٹرز نے الیکشن کے روز دھوم دھام سے ووٹ ڈالے۔

یوں امریکہ کی تاریخ میں ریکارڈ ووٹنگ ہوئی اور تقریباً 16 کروڑ ووٹ ڈالے گئے اور ٹرن آئوٹ 66.6 فیصد رہا۔ لیکن کبھی اتنے زیادہ ووٹ ڈاک سے نہیں ڈالے گئے اور تقریباً 10 کروڑ لوگوں نے ڈاک کے ذریعے اپنے ووٹ ڈالے۔ اب ہوا یہ کہ پہلے پہل ووٹنگ کے روز ڈالے گئے ووٹ گنے گئے اور ٹرمپ چھلانگیں مارتے آگے نکل گئے لیکن جونہی ڈاک کے ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو بائیڈن بہت تیزی سے آگے نکلتے چلے گئے اور یوں ٹرمپ کا برج الٹ گیا۔ بائیڈن نے اب تک 68.6ملین اور ٹرمپ نے 65.9ملین ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اور ابھی 23ملین ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔

میرے اندازے کے مطابق بائیڈن کانٹے کے مقابلے کی باقی چار ریاستوں پینسلوینیا، جارجیا، ایریزونا اور نیواڈا تھوڑے بہت مارجن کے ساتھ جیت کر 300 کے قریب الیکٹورل کالج کے ووٹ حاصل کرکے اگلے امریکی صدر منتخب ہوجائیں گے، الیکٹورل کالج تو اسی لیے بنایا گیا تھا کہ 539 اضلاع کو نمائندگی دی جائے تاکہ وفاقیت کو تحفظ دیا جائے لیکن ساتھ ہی یہ توجیہہ دی گئی کہ رائے دہندگان کو کیا پتہ کہ کون سا صدارتی امیدوار کیسا ہے؟ لہٰذا، ان کی نمائندگی کیلئے انتخابی کالج بنایا گیا۔

ابھی بھی 13ریاستوں کے الیکٹورل کالج کے نمائندے اپنی مرضی سے صدر کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ ہر الیکٹورل کالج کا نمائندہ اپنی ریاست میں دیئے گئے عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتا ہے اور جنرل ایوب خان کے دور کے بی ڈی ممبروں کی طرح بکائو مال نہیں بنتا۔ لگتا ہے کہ سینیٹ ریپبلکنز کے ہاتھ میں رہے گی اور بائیڈن کے گلے کی چھچھوندرثابت ہو گی۔

کورونا وائرس کے مُدعے پہ لڑے گئے انتخاب میں ٹرمپ کی وبائی بلا سے نمٹنے کی غیرذمہ دارانہ حکمت عملی کے باعث جس دندان شکن شکست کی پیش گوئی کی جارہی تھی، نتائج اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ امریکی رائے دہندگان اس پہ منقسم نظرآئے۔ آدھے لاک ڈاؤن کے مخالف کہ بیروزگاری کا سانپ انہیں ہڑپ نہ کرجائے اوریوں زیادہ تر محنت کش اور چھوٹے کاروباری لوگ ٹرمپ کو ووٹ دیتے نظر آئے۔

اور آدھے سے زیادہ وہ جو وبا سے نمٹنے کے لیے سخت احتیاطی تدابیر کے داعی تھے، وہ بائیڈن کی حمایت پر تلے دکھائی دیئے، بڑے شہروں میں بالعموم بائیڈن کو اور نیم شہری و دیہی علاقوں میں ٹرمپ کو ووٹ پڑے۔ لیکن اگر کورونا سے آئی معاشی بدحالی بیچ میں نہ آن ٹپکتی تو ٹرمپ کو بائیڈن جیسا کمزور امیدوار شکست نہ دے پاتا۔ حلقہ ہائے انتخاب اور آبادی کے بدلتے طبقاتی اور نسلی رنگوں کا جائزہ لینے والے ماہرین امریکہ کے انتخابی نتائج پہ چکرا کر رہ گئے ہیں۔ جو ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیتے تھے، وہ ریپبلکن کو ووٹ دیتے پائے گئے اور جو سفید فام بزرگ ٹرمپ کو ووٹ دیتے تھے، ان کا انتخاب بائیڈن ٹھہرا۔ غرض یہ کہ ووٹنگ کا کوئی نظریاتی و معاشی اور طبقاتی ڈھب بن نہیں پا رہا۔

بس ایک کنزرویٹو اور لبرل کی عمومی تقسیم ہے اور دونوں بڑی جماعتیں ارب پتیوں اور بڑے مفادات کے گروہوں کی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ باندی بنی ہوئی ہیں۔ اور دونوں پارٹیوں کو ان کی مقتدر قوتیں کنٹرول کرتی ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے جس طرح سوشل ڈیموکریٹ برنی سینڈرز کو میدان سے نکلوایا اور بائیڈن کو آگے کیا، اس سے ظاہر ہے کہ نئی نسل کے ریڈیکل عناصر کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی میں گنجائش نہیں رہی۔

بائیڈن کے صدر منتخب ہونے سے امریکہ اپنے روایتی عالمی امپیریل رول کی جانب پلٹ جائے گا، واشنگٹن اتفاق رائے پھر سے جھاڑ پھونک کر چمکایا جائے گا۔ نیٹو، ڈبلیو ٹی او، ڈبلیو ایچ او اور یواین کے ادارے پھر سے رونق افروز ہوجائیں گے۔ امریکہ چین تجارتی جنگ ڈبلیو ٹی او کے قاعدے میں لڑی جائے گی۔ ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل بحال ہوگی، ٹرمپ کا فلسطین پر اسرائیلی عرب نسخہ پٹ جائے گا۔ افغانستان سے امریکی فوجی اچانک رفوچکر نہیں ہوں گے جبکہ انڈو پیسیفک (Indo-Pacific) ریجن میں امریکہ، بھارت، جاپان، آسٹریلیا مل کر چین مخالف محاذ کو مضبوط کریں گے اور سی پیک کی مخالفت بڑھ جائے گی۔ البتہ انسانی حقوق کے ایجنڈے کے پھر سے فعال کیے جانے پر کشمیر میں جاری بھارتی استبداد پر بائیڈن ضرور کچھ توجہ دیں گے۔

ٹرمپ کی شکست کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی کی جانب سے ٹرمپ کی کھلم کھلا حمایت کے باعث مودی کو حزیمت اٹھانا پڑی ہے۔ اب تک امریکی انتخاب کے نتائج تو سامنے آچکے ہوں گے اور بات اس پر ختم ہوتی ہے کہ امریکہ میں ووٹ کی عزت کا بھرم قائم رہا اور ٹرمپ کو نکالا ہے تو صرف امریکہ کے رائے دہندگان نے۔ میاں نواز شریف کو معلوم پڑے یا ناں پڑے، ٹرمپ ضرور جانتے ہیں کہ انہیں کس نے اور کیوں نکالا۔

About The Author