محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں سیاست ایسا موضوع ہے جس پر بہت زیادہ بحث ہوتی ہے۔ خواتین کے موضوعات مختلف ہوں گے، مگر جہاں چند مرد جمع ہوں ، وہاں سیاست لازمی زیربحث آئے گی۔ سیاست سے ہٹ کر دیگر شعبوں کے بارے میں بھی بات ہونی چاہیے۔ موروثیت کے حوالے سے گزشتہ کالم میں بات کی ، اس کا حوالہ سیاست اور سیاستدان تھے،مگرغیر سیاسی موروثیت یا اقرباپروری بھی کم نہیں۔ پاکستان کی بات کریں گے، اس سے پہلے انڈیا چلتے ہیں ، جہا ں معروف بھارتی اداکار سلمان خان بھی ایسی ہی مشکل سے دوچار ہیں۔ بھارت میں پچھلے کچھ عرصے کے دوران بالی وڈ سپرسٹاروں پر سخت تنقید ہوتی رہی۔ چند ایک بڑے ناموں پر الزام لگا کہ وہ اقرباپروری کو فروغ دیتے ہیں اور اپنے بھائی، بیٹوں،بھانجوں، بھتیجوں کو فلموں میں موقعہ دیتے ہیں جبکہ بہت سے ٹیلنٹیڈ نوجوان محروم رہ جاتے ہیں۔
بحث دراصل معروف بھارتی اداکار سوشانت راجپوت کی خودکشی سے شرو ع ہوئی۔ تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ سوشانت کو آج کل فلمیں کم مل رہی تھیں اور ان کے حصے کا کام بڑے فلمساز اداروں اور سپرسٹارز کے بچوں کو ملتا رہا، اسی وجہ سے ڈپریشن بڑھا اور پھر اس نے اپنی زندگی ختم کر لی۔بھارت میں اس پر دھواں دھاربحث چلی۔ معروف اداکارہ کنگنا رناوت جو بغیر کسی سہارے اور پہچان کے باہر سے آئیں اور بالی وڈمیں اپنی شناخت بنائی، وہ اس میں پیش پیش تھیں۔اپنی بدتمیزی اور جارحانہ انداز سے شہرت پانے والے اینکر ارناب گوسوامی نے موقعہ سے فائدہ اٹھایا اور یکے بعد دیگرے کئی سنسنی خیز پروگرام کئے، جن میں کنگنا کو اپنی شعلہ بیانی دکھانے کا خوب موقعہ ملا۔ ادھر سوشل میڈیا پر کرن جوہر، سلمان خان ، مہیش بھٹ، یش چوپڑا کے بیٹے ادیتیہ چوپڑا اور بعض دوسرے بڑے فلمسازوں پر سخت تنقید ہوتی رہی۔ ان کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلی ، مہیش بھٹ نے اپنی فلم سٹرک کا سیکوئل (دوسرا حصہ)سڑک ٹو بنایا توکچھ اور تکنیکی کمزوریوں کے ساتھ اس منفی مہم کی وجہ سے فلم ڈیڈ فلاپ رہی۔ سلمان خان پر تنقید اس لئے بھی ہوتی رہی کہ ان کے والد سلیم خان معروف فلم رائٹر رہے ہیں۔ سلمان خان کی وجہ سے اس کے دونوں چھوٹے بھائی ارباز خان اور سہیل خان بھی اداکار، ہدایت کار اور فلمساز ہیں۔ پچھلے سال سلمان خان نے اپنی لے پالک بہن کے خاوند یعنی اپنے بہنوئی کو ایک فلم میں ہیرو کاسٹ کیا اور اسے انڈسٹری میں متعارف کرانے کی کوشش کی، اگرچہ وہ فلم بری طرح ناکام ہوگئی۔ سلمان خان پر یہ بھی الزام ہے کہ کسی اداکار، گلوکار یا ہدایت کار(ڈائریکٹر)کا ان سے جھگڑا ہوجائے تو سلمان اس کے لئے انڈسٹری میں رہنا مشکل بنا دیتے ہیں۔ اپنے تعلقات کو استعمال کرا کر وہ اسے فلموں سے کٹ کراتے ، ڈراتے دھمکاتے اوربعض اوقات تو انڈسٹری سے آﺅٹ کرا دیتے ہیں۔
سلمان خان آج کل بھارت کے مقبول ترین ریئلٹی شو” بگ باس“کے میزبان ہیں۔ ایک قسط میں بگ باس کے شرکا میں سے ایک نے اپنے نوجوان ساتھی کے خلاف ووٹ کیا اور دلیل یہ دی کہ میں اقربا پروری کا سخت مخالف ہوں۔ اس کا اشارہ تھا کہ یہ نوجوان اپنے فنکار والد کے تعلقات کی وجہ سے شو میں آیا ہے۔ سلمان خان اس پر خاصے برہم ہوئے، ان کی دکھتی رگ پر ضرب لگی۔ سلمان نے اس پر ایک پورا بھاشن دیا اور اقرباپروری کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کی۔ پچھلے چند دنوں سے انڈین میڈیااور سوشل میڈیا میں وہی کلپ زیر بحث ہے۔ سلمان خان کا کہنا تھا کہ ہر باپ اپنے بچوں کی بہتری چاہتا ہے، اگر کوئی فنکار اپنے بچے کے لئے کچھ کرے تو اسے اقرباپروری کیوں کہا جائے ؟ایک گلوکار چاہے گا کہ اس کا بیٹا یا بیٹی گلوکار بنے۔ اس کوشش کو غلط کیوں کہا جائے؟سلمان خان کی دلیل یہ تھی کہ شوبز ایک ایسا میڈیم ہے جہاں لوگوں نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے، وہ جسے چاہیں گے وہ اداکار یا گلوکار ہٹ ہوجائے گا ورنہ فلاپ۔ انہوں نے شاہ رخ، اکشے کمار اور بعض دوسری مثالیں دیں جو باہر سے آئے اور آج سپرسٹار ہیں۔ ان کی طرف اشارہ کیا جنہوں نے اپنے بچے متعارف کرائے، مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک چانس دینے سے کچھ نہیں ہوتا، کسی میں دم ہوگا، تب ہی کامیاب ہوگا۔
سلمان خان بطور اداکار تو مجھے کبھی پسند نہیں رہا، اداکاری ان سے ہوتی بھی نہیں۔ بالی وڈ ہو یا ہالی وڈ، وہاں کے کچھ اداکار ایسے ہیں جو فلم شروع ہوتے ہی پہلے چند منٹوں میں اپنی شرٹ اتار پھینکیں گے اور پوری فلم بنیان نما ٹی شرٹ میں بھگتا دیں گے۔ مقصد اپنے کسرتی جسم اور مسلز کی نمائش کرنا ہوتا ہے۔سلمان خان بھی ایسے ہی فنکار ہیں، یہی وجہ ہے کہ درجنوں سپر ہٹ فلمیں دینے کے باوجود ایک آدھ ایوارڈ ہی لے پائے۔ اس کے باوجود سلمان خان کے لئے دو وجوہات کی بنا پر نرم گوشہ ہے۔ ایک تو اس کی فلموں میں فحش مناظر نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔اکثر فلمیں بھارتی سٹینڈرڈ سے فیملی فلم میں شمار ہوتی ہے۔ دوسرا سلمان خان ویسی گھٹیا، کمینی حرکتیں نہیں کرتا جو بالی وڈ کے بعض میگاسٹارز کرتے ہیں، جیسے پیسے لے کر کسی بڑے سرمایہ دار کے بچے کی شادی میں بطور میزبان شامل ہونا۔ پہلی بار یہ بات معلوم ہوئی تو یقین نہیں آیا کہ شاہ رخ خان جیسا سپرسٹار چند ملین لے کر کیسے یہ کر سکتا ہے؟کسی اور کی شادی میں آپ یہ ایکٹنگ کریں کہ ہمارا بہت قریبی تعلق ہے ، اپنے ہاتھ سے مہمانوں کو کھانا کھلائیں وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس کام کے باقاعدہ معاوضہ لیں۔ اداکار ہو، مگر بابا زندگی اور فلم میں فرق ہوتا ہے۔بات مگر وہی کہ گندا ہے پر دھندا ہے۔
سلمان خان سماجی کام بھی کرتا ہے اور عام طور سے ان کی زیادہ پبلسٹی نہیں کی جاتی۔ اس سب کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ سلمان خان کا موقف کمزور ہے۔ ہمارے روایتی سیاستدانوں کی طرح انہوں نے اقربا پروری اور موروثیت کا کمزور مقدمہ لڑا۔ بات یہ ہے کہ اداکار کا بیٹا ، بیٹی شوبز میں آئے، کس نے روکا ہے، سوال مگر یہ ہے کہ اسے کس طرح لایا جا رہا ہے؟طریقہ ہے کہ فلموں میں کاسٹ کے لئے آڈیشن لیا
جائے۔ اداکارسے فلم کے اسی کردار کے لئے اداکاری کرائی جاتی ہے، ڈائریکٹر تب اندازہ لگا پاتا ہے کہ یہ اس مخصوص کردار کوعمدگی سے ادا کر پائے گا یا نہیں؟ اس مقصد کے لئے کاسٹنگ کمپنیاں بنائی جاتی ہیں، جو سینکڑوں، ہزاروں فنکاروں کے آڈیشن لے کر موزوں اداکار منتخب کرتی ہیں۔اگر سپرسٹارز کے بچے بھی اسی روٹین کے پراسیس سے گزر کر آئیں، ان کے ساتھ جانبداری نہ برتی جائے تو ظاہر ہے کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔ ایسا مگر ہوتا نہیں۔ سپرسٹارز کے بچے براہ راست فلموں میں کاسٹ ہوجاتے ہیں۔جسے میرٹ پر ایک سین کا کردار بھی نہ دے، اسے ہیرویا ہیروئن بنا دیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں تو ملٹی سٹار کاسٹ میں انہیں فٹ کر دیتے ہیں۔ یوں نئے اور ریفرنس نہ رکھنے والے اہل فنکاروں کے لئے گنجائش نہیں رہتی۔ انہیں کام نہیں ملتااور وہ دھکے کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی بڑا فلمساز یا اداکار اپنے بچے کو متعارف کرانے والے ہدایت کار کو چند لاکھ روپے رشوت دے کر یا کسی اور مالی مفاد کا لالچ دے کر کام کرا لے۔ یہی وجہ ہے کہ جیتندر کا بیٹا تشار کپور درجنوں فلاپ فلموں کے باوجود اپنی بہن ایکتا کپور کے بڑے پروڈکشن ہاﺅس بالاجی کی بدولت ابھی تک فلموں میں آ رہا ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ یہ درست ہے کہ زیادہ نالائق لوگ ناکام ہوجاتے ہیں، آخر باہربھی ہوجاتے ہیں، مگر اقربا پروری کے زور سے اوسط درجے کے لوگ کھپے رہتے ہیں، ان کا کام چلتا رہتا ہے۔بس ان کی زندگی کا مقصد صرف ہر ٹیلنٹیڈ شخص کے خلاف سازش کرنا رہ جاتا ہے۔پاکستانی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کی کیابات کریں، ننھی منی سی تو ہے۔ بس آپ چند منٹوں کے لئے زحمت کر کے ایک فہرست بنا لیں کہ کون کس کا بیٹا اور بھائی ہے۔ اچھے خاصے لوگ نکل آئیں گے۔ فنکاروں کے صرف وہی بچے فنکار نہیں بنے، جنہیں اس طرف آنے کا شوق نہیںرہا، ورنہ ریفرنس کی بدولت ان کا چانس یقینی تھا۔
کھیلوں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔کسی کھلاڑی کا بیٹا، بھانجا، بھتیجا اگر پرفارم کر کے میرٹ پر آئے تو کوئی حرج نہیں۔ ایسا بہت بار نہیں ہوتا۔پرچی کرکٹر کی اصطلاح مشہور ہے۔ جنرل (ر)توقیر ضیا چیئرمین کرکٹ بورڈ تھے تو عامر سہیل جو اب صداقت کے چیمپین بنے پھرتے ہیں، انہوں نے توقیر ضیا کے بیٹے جنید ضیا کو قومی ٹیم کی طرف سے ون ڈے انٹرنیشنل کھلا دیا۔ اس کے بعد جنید ضیا کیوں نہیں کھیلا؟ اس لئے کہ وہ ایوریج کھلاڑی تھااور اپنے والد کی وجہ سے ون ڈے کھیل گیا۔ ڈسٹرکٹ، ڈویژن سطح پر ایسا بہت ہوتا ہے۔ بڑے غیر معمولی کھلاڑیوں کو آگے نہیں آنے دیا جاتا، وہ غریب کلب کرکٹ ہی میں فنا ہوجاتے ہیں یا دلبرداشتہ ہو کر کرکٹ چھوڑ جاتے ہیں۔ کرکٹ کیا، ہر کھیل میں ایسا ہی معاملہ ہے۔ بات وہی ہے کہ اقربا پروری اور موروثیت دراصل کرپشن کی ایک شکل ہے۔ افسوس کہ ہمارے سماج میں اسے اس نظر سے دیکھا نہیں جاتا۔
بحث دراصل معروف بھارتی اداکار سوشانت راجپوت کی خودکشی سے شرو ع ہوئی۔ تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ سوشانت کو آج کل فلمیں کم مل رہی تھیں اور ان کے حصے کا کام بڑے فلمساز اداروں اور سپرسٹارز کے بچوں کو ملتا رہا، اسی وجہ سے ڈپریشن بڑھا اور پھر اس نے اپنی زندگی ختم کر لی۔بھارت میں اس پر دھواں دھاربحث چلی۔ معروف اداکارہ کنگنا رناوت جو بغیر کسی سہارے اور پہچان کے باہر سے آئیں اور بالی وڈمیں اپنی شناخت بنائی، وہ اس میں پیش پیش تھیں۔اپنی بدتمیزی اور جارحانہ انداز سے شہرت پانے والے اینکر ارناب گوسوامی نے موقعہ سے فائدہ اٹھایا اور یکے بعد دیگرے کئی سنسنی خیز پروگرام کئے، جن میں کنگنا کو اپنی شعلہ بیانی دکھانے کا خوب موقعہ ملا۔ ادھر سوشل میڈیا پر کرن جوہر، سلمان خان ، مہیش بھٹ، یش چوپڑا کے بیٹے ادیتیہ چوپڑا اور بعض دوسرے بڑے فلمسازوں پر سخت تنقید ہوتی رہی۔ ان کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلی ، مہیش بھٹ نے اپنی فلم سٹرک کا سیکوئل (دوسرا حصہ)سڑک ٹو بنایا توکچھ اور تکنیکی کمزوریوں کے ساتھ اس منفی مہم کی وجہ سے فلم ڈیڈ فلاپ رہی۔ سلمان خان پر تنقید اس لئے بھی ہوتی رہی کہ ان کے والد سلیم خان معروف فلم رائٹر رہے ہیں۔ سلمان خان کی وجہ سے اس کے دونوں چھوٹے بھائی ارباز خان اور سہیل خان بھی اداکار، ہدایت کار اور فلمساز ہیں۔ پچھلے سال سلمان خان نے اپنی لے پالک بہن کے خاوند یعنی اپنے بہنوئی کو ایک فلم میں ہیرو کاسٹ کیا اور اسے انڈسٹری میں متعارف کرانے کی کوشش کی، اگرچہ وہ فلم بری طرح ناکام ہوگئی۔ سلمان خان پر یہ بھی الزام ہے کہ کسی اداکار، گلوکار یا ہدایت کار(ڈائریکٹر)کا ان سے جھگڑا ہوجائے تو سلمان اس کے لئے انڈسٹری میں رہنا مشکل بنا دیتے ہیں۔ اپنے تعلقات کو استعمال کرا کر وہ اسے فلموں سے کٹ کراتے ، ڈراتے دھمکاتے اوربعض اوقات تو انڈسٹری سے آﺅٹ کرا دیتے ہیں۔
سلمان خان آج کل بھارت کے مقبول ترین ریئلٹی شو” بگ باس“کے میزبان ہیں۔ ایک قسط میں بگ باس کے شرکا میں سے ایک نے اپنے نوجوان ساتھی کے خلاف ووٹ کیا اور دلیل یہ دی کہ میں اقربا پروری کا سخت مخالف ہوں۔ اس کا اشارہ تھا کہ یہ نوجوان اپنے فنکار والد کے تعلقات کی وجہ سے شو میں آیا ہے۔ سلمان خان اس پر خاصے برہم ہوئے، ان کی دکھتی رگ پر ضرب لگی۔ سلمان نے اس پر ایک پورا بھاشن دیا اور اقرباپروری کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کی۔ پچھلے چند دنوں سے انڈین میڈیااور سوشل میڈیا میں وہی کلپ زیر بحث ہے۔ سلمان خان کا کہنا تھا کہ ہر باپ اپنے بچوں کی بہتری چاہتا ہے، اگر کوئی فنکار اپنے بچے کے لئے کچھ کرے تو اسے اقرباپروری کیوں کہا جائے ؟ایک گلوکار چاہے گا کہ اس کا بیٹا یا بیٹی گلوکار بنے۔ اس کوشش کو غلط کیوں کہا جائے؟سلمان خان کی دلیل یہ تھی کہ شوبز ایک ایسا میڈیم ہے جہاں لوگوں نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے، وہ جسے چاہیں گے وہ اداکار یا گلوکار ہٹ ہوجائے گا ورنہ فلاپ۔ انہوں نے شاہ رخ، اکشے کمار اور بعض دوسری مثالیں دیں جو باہر سے آئے اور آج سپرسٹار ہیں۔ ان کی طرف اشارہ کیا جنہوں نے اپنے بچے متعارف کرائے، مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک چانس دینے سے کچھ نہیں ہوتا، کسی میں دم ہوگا، تب ہی کامیاب ہوگا۔
سلمان خان بطور اداکار تو مجھے کبھی پسند نہیں رہا، اداکاری ان سے ہوتی بھی نہیں۔ بالی وڈ ہو یا ہالی وڈ، وہاں کے کچھ اداکار ایسے ہیں جو فلم شروع ہوتے ہی پہلے چند منٹوں میں اپنی شرٹ اتار پھینکیں گے اور پوری فلم بنیان نما ٹی شرٹ میں بھگتا دیں گے۔ مقصد اپنے کسرتی جسم اور مسلز کی نمائش کرنا ہوتا ہے۔سلمان خان بھی ایسے ہی فنکار ہیں، یہی وجہ ہے کہ درجنوں سپر ہٹ فلمیں دینے کے باوجود ایک آدھ ایوارڈ ہی لے پائے۔ اس کے باوجود سلمان خان کے لئے دو وجوہات کی بنا پر نرم گوشہ ہے۔ ایک تو اس کی فلموں میں فحش مناظر نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔اکثر فلمیں بھارتی سٹینڈرڈ سے فیملی فلم میں شمار ہوتی ہے۔ دوسرا سلمان خان ویسی گھٹیا، کمینی حرکتیں نہیں کرتا جو بالی وڈ کے بعض میگاسٹارز کرتے ہیں، جیسے پیسے لے کر کسی بڑے سرمایہ دار کے بچے کی شادی میں بطور میزبان شامل ہونا۔ پہلی بار یہ بات معلوم ہوئی تو یقین نہیں آیا کہ شاہ رخ خان جیسا سپرسٹار چند ملین لے کر کیسے یہ کر سکتا ہے؟کسی اور کی شادی میں آپ یہ ایکٹنگ کریں کہ ہمارا بہت قریبی تعلق ہے ، اپنے ہاتھ سے مہمانوں کو کھانا کھلائیں وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس کام کے باقاعدہ معاوضہ لیں۔ اداکار ہو، مگر بابا زندگی اور فلم میں فرق ہوتا ہے۔بات مگر وہی کہ گندا ہے پر دھندا ہے۔
سلمان خان سماجی کام بھی کرتا ہے اور عام طور سے ان کی زیادہ پبلسٹی نہیں کی جاتی۔ اس سب کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ سلمان خان کا موقف کمزور ہے۔ ہمارے روایتی سیاستدانوں کی طرح انہوں نے اقربا پروری اور موروثیت کا کمزور مقدمہ لڑا۔ بات یہ ہے کہ اداکار کا بیٹا ، بیٹی شوبز میں آئے، کس نے روکا ہے، سوال مگر یہ ہے کہ اسے کس طرح لایا جا رہا ہے؟طریقہ ہے کہ فلموں میں کاسٹ کے لئے آڈیشن لیا
جائے۔ اداکارسے فلم کے اسی کردار کے لئے اداکاری کرائی جاتی ہے، ڈائریکٹر تب اندازہ لگا پاتا ہے کہ یہ اس مخصوص کردار کوعمدگی سے ادا کر پائے گا یا نہیں؟ اس مقصد کے لئے کاسٹنگ کمپنیاں بنائی جاتی ہیں، جو سینکڑوں، ہزاروں فنکاروں کے آڈیشن لے کر موزوں اداکار منتخب کرتی ہیں۔اگر سپرسٹارز کے بچے بھی اسی روٹین کے پراسیس سے گزر کر آئیں، ان کے ساتھ جانبداری نہ برتی جائے تو ظاہر ہے کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔ ایسا مگر ہوتا نہیں۔ سپرسٹارز کے بچے براہ راست فلموں میں کاسٹ ہوجاتے ہیں۔جسے میرٹ پر ایک سین کا کردار بھی نہ دے، اسے ہیرویا ہیروئن بنا دیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں تو ملٹی سٹار کاسٹ میں انہیں فٹ کر دیتے ہیں۔ یوں نئے اور ریفرنس نہ رکھنے والے اہل فنکاروں کے لئے گنجائش نہیں رہتی۔ انہیں کام نہیں ملتااور وہ دھکے کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی بڑا فلمساز یا اداکار اپنے بچے کو متعارف کرانے والے ہدایت کار کو چند لاکھ روپے رشوت دے کر یا کسی اور مالی مفاد کا لالچ دے کر کام کرا لے۔ یہی وجہ ہے کہ جیتندر کا بیٹا تشار کپور درجنوں فلاپ فلموں کے باوجود اپنی بہن ایکتا کپور کے بڑے پروڈکشن ہاﺅس بالاجی کی بدولت ابھی تک فلموں میں آ رہا ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ یہ درست ہے کہ زیادہ نالائق لوگ ناکام ہوجاتے ہیں، آخر باہربھی ہوجاتے ہیں، مگر اقربا پروری کے زور سے اوسط درجے کے لوگ کھپے رہتے ہیں، ان کا کام چلتا رہتا ہے۔بس ان کی زندگی کا مقصد صرف ہر ٹیلنٹیڈ شخص کے خلاف سازش کرنا رہ جاتا ہے۔پاکستانی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کی کیابات کریں، ننھی منی سی تو ہے۔ بس آپ چند منٹوں کے لئے زحمت کر کے ایک فہرست بنا لیں کہ کون کس کا بیٹا اور بھائی ہے۔ اچھے خاصے لوگ نکل آئیں گے۔ فنکاروں کے صرف وہی بچے فنکار نہیں بنے، جنہیں اس طرف آنے کا شوق نہیںرہا، ورنہ ریفرنس کی بدولت ان کا چانس یقینی تھا۔
کھیلوں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔کسی کھلاڑی کا بیٹا، بھانجا، بھتیجا اگر پرفارم کر کے میرٹ پر آئے تو کوئی حرج نہیں۔ ایسا بہت بار نہیں ہوتا۔پرچی کرکٹر کی اصطلاح مشہور ہے۔ جنرل (ر)توقیر ضیا چیئرمین کرکٹ بورڈ تھے تو عامر سہیل جو اب صداقت کے چیمپین بنے پھرتے ہیں، انہوں نے توقیر ضیا کے بیٹے جنید ضیا کو قومی ٹیم کی طرف سے ون ڈے انٹرنیشنل کھلا دیا۔ اس کے بعد جنید ضیا کیوں نہیں کھیلا؟ اس لئے کہ وہ ایوریج کھلاڑی تھااور اپنے والد کی وجہ سے ون ڈے کھیل گیا۔ ڈسٹرکٹ، ڈویژن سطح پر ایسا بہت ہوتا ہے۔ بڑے غیر معمولی کھلاڑیوں کو آگے نہیں آنے دیا جاتا، وہ غریب کلب کرکٹ ہی میں فنا ہوجاتے ہیں یا دلبرداشتہ ہو کر کرکٹ چھوڑ جاتے ہیں۔ کرکٹ کیا، ہر کھیل میں ایسا ہی معاملہ ہے۔ بات وہی ہے کہ اقربا پروری اور موروثیت دراصل کرپشن کی ایک شکل ہے۔ افسوس کہ ہمارے سماج میں اسے اس نظر سے دیکھا نہیں جاتا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ