عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مین سٹریم میڈیا(نام نہاد) اور سوشل میڈیا کا ایک سیکشن جو نواز شریف کو ماڈل اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست دان قرار دینے اور اُن کے سیاسی موقف کو عظیم تر انقلابی اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا آیا ہے، وہ اس مشن میں اپوزیشن اتحاد کی قربانی دینے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش کرتا پایا جاتا ہے-
اُسے پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کا سیاسی موقف "غیرواضح” لگتا ہے جب وہ یہ کہتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اس لیے بالادست ڈسکورس /کلامیہ نہیں ہے کیونکہ اسٹبلشمنٹ اس میں روکاوٹ ہے- اور پی پی پی کا یہ موقف بھی ہے کہ اسٹبلشمنٹ جمہوریت کے راستے کی روکاوٹ محض 1958ء، 1969ء کو ایوب و یحیی دور میں ہی نہیں بنی بلکہ 1977ء اور پھر پورے 11 سال اور ایسے ہی 1988ء سے 199ء تک اور پھر 2008ء سے 2013ء تک اور پھر 2013ء سے 2018 اور ایسے ہی آج وہ جمہوریت کی بالادستی میں روکاوٹ ہے-
یہ روکاوٹ اسٹبلشمنٹ جن سے مل کر بنتی ہےاُن میں بیٹھے غالب کرداروں کی جمہوریت دشمنی کے سبب ہے اور اسٹبلشمنٹ فوج سمیت دیگر ادارے جو سیکورٹی اور انٹیلی جنس ہیں، ایسے ہی سویلین انتظامی ادارے اور اسی طرح عدالتی اسٹبلشمنٹ… پھر اس اسٹبلشمنٹ کے معاون و مددگار "سول سوسائٹی” کا حصہ ہیں جن میں صحافی، وکیل، تاجر، ٹریڈ یونین پرت، ملاں، سماجی ایکٹوسٹ، سیاسی کارکن شامل ہیں…..
پی پی پی کا موقف کیا ہے؟
اسٹبلشمنٹ کو سیاسی پروسس میں مداخلت سے باز رکھنا
تو کیا یہی پی ڈی ایم کا سیاسی موقف اور بیانیہ نہیں ہے؟
نواز شریف کی تنخواہ اور مراعات سے سول سوسائٹی کا ایک اشراف سیکشن جن میں زیادہ تر تعداد اربن چیٹرنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے میڈیا مالکان، اُن مالکان کے مصاحب صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی ہے، وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں، وہ پاکستان پیپلزپارٹی کی تین نسلوں پر مشتمل اینٹی اسٹبلشمنٹ جدوجہد کو کمتر بناکر دکھاتے ہیں تاکہ نواز شریف کی سیاست کو تاریخ کا انوکھا واقعہ بناکر دکھایا جاسکے اور یہ ثابت کیا جاسکے کہ نواز شریف جیسا جمہوریت پسند پاکستان میں ڈھونڈے سے نہیں ملے گا اور اس کے لیے لازم ہے پی پی پی کی قیادت اور اُس کے سیاسی موقف کو کمپرومائزڈ بناکر دکھایا جائے-
پاکستان مسلم لیگ نواز پنجاب کے شہری علاقوں کی اس وقت سب سے زیادہ حمایت رکھنے والی جماعت ہے جس کے سرپرست میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز اپنی پارٹی کے اندر مقبولیت کی انتہائی سرحدوں کو چھو رہے ہیں، وہ اگر خاموش رہیں، ٹوئٹر اکاؤنٹ سو جائے تب بھی اور نواز شریف و مریم نواز اپنے ایلچیوں کے زریعے سے فوج سے ملیں اور مذاکرات کریں تب بھی اپنی قیادت کے عظیم جمہوریت پسمد سیاست دان ہونے کے نظریے سے پیچھے نہیں ہٹتے…. یہ نواز شریف اور مریم نواز کے پرستاروں کا حق ہے لیکن اُن کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ پی پی پی کی قیادت اور پی پی پی کے سیاسی موقف کو اسٹبلشمنٹ نواز کہہ کر اُسے دوسروں پر مسلط کریں…….. پاکستان کا نواز شریف کیمپ کا اشراف صحافتی اور سوشل میڈیا سیکشن نواز شریف کا خیر خواہ ہرگز نہیں ہے اگر وہ نواز شریف کو پی پی پی اور اُس کی قیادت کے خلاف پروپیگنڈے کو نواز شریف کی پروجیکشن بطور اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست دان کے طور پر کرنے کے لیے لازم و ملزوم سمجھتا ہے- یہ روش پی ڈی ایم میں نقب لگانے اور اسٹبلشمنٹ کو مدد پہنچانے کے مترادف ہے-
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر