سہیل وڑائچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج مکھی ہاؤس
ساگ نگر
جناب صدر امریکہ بہادر!
آپ کو صدر منتخب ہونے کی بہت بہت مبارکباد۔ آپ مجھے نہیں جانتے اِس لئے میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں افغانستان کے پڑوس میں واقع پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا ایک دیہاتی ہوں، دوسرے صوبوں کے لوگ میری سادگی کا مذاق اُڑاتے ہوئے مجھے ’’پنجابی ڈھگا‘‘ کا نام دیتے ہیں کیونکہ میں اپنی تاریخ میں زیادہ تر روایت پسندی اور غلامی میں زندگی گزارتا رہا ہوں، ہر حال میں مست رہتا ہوں، انقلاب یا مزاحمت کی بجائے ’’کھادا پیتا لاہے دا، باقی احمد شاہے دا‘‘ پر یقین رکھتا ہوں۔ آج کل ملک کی سیاست بڑی گرم ہے مگر پنجابی عام طور پر سست، ٹھنڈے اور سب سے آخر میں پہنچنے والے ہوتے ہیں۔ قومی اتحاد کی تحریک ہو یا پی ڈی ایم کی، یہاں کے لوگوں کو ابال سب سے آخر میں آتا ہے۔
آپ کو مبارک دینا دراصل اُس معمول کا حصہ ہے جس کے تحت ہر آنیوالے کو سلام کیا جاتا ہے۔ آپ تو خیر دنیا کی واحد سپر پاور کے طاقتور صدر منتخب ہوئے ہیں، میری حسرت ہے کہ آپ اِس ڈھگے کو اپنا دوست بنا لیں تو یہ آپ کو عقل کی ایسی ایسی بڑی باتیں بتائے گا کہ آپ کے ٹرمپ جیسے مخالف کبھی اٹھ نہیں سکیں گے۔ہمارے پاس تو الیکشن میں مخالف کو ہرانے اور مرضی کے امیدوار سیلیکٹ کرنے کے مجرب اور آزمودہ نسخے بھی موجود ہیں جوآپ کی نذر کر سکتا۔ امریکہ ہی کے ایک صدر جانسن نے کراچی کے اونٹ گاڑی بان بشیر کو اپنا دوست بنا لیا تھا، اب آپ کو اِسی روایت پر عمل کرتے ہوئے مجھے اپنا دوست بنا کر امریکہ بلانا چاہئے، اِس سے اس خطے سے آپ کی دوستی مضبوط ہو گی۔
جنابِ صدر!
مجھے حال ہی میں باب وڈزورڈ کی تازہ شائع ہونے والی کتاب "Rage” پڑھنے کا اتفاق ہوا، میں حیران ہوں کہ سابق صدر ٹرمپ نے کس طرح سے انتظامیہ کو چلایا اور کس طرح سے دنیا کے نظام کو چلانے کی کوشش کی۔ وڈزورڈ نے کوٹس اور جنرل میٹس کی گفتگو کے حوالے سے ٹرمپ کے بارے میں لکھا ہے کہ اُس کے لئے جھوٹ، جھوٹ نہیں ہے، وہ جو سوچتا ہے اُسے ہی درست سمجھتا ہے، اُسے سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کا علم ہی نہیں ہے۔
میرا اندازہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے بارے میں آپ ٹرمپ کی پالیسی کو تبدیل کریں گے، وزیراعظم مودی کے ساتھ ٹرمپ کی بڑھتی ہوئی دوستی نے اِس خطے میں عدم استحکام پیدا کر رکھا ہے، مودی نے اپنی فاشسٹ پالیسیوں سے ملک کی اقلیتوں اور اپنے پڑوسی ممالک کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ افغانستان کے معاملے میں صدر ٹرمپ جلد از جلد وہاں سے نکلنا چاہتے تھے لیکن پینٹاگان اور ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ اِس کے حامی نہیں تھے، وہ چاہتے ہیں کہ جب تک افغانستان کا مستقبل طے نہ ہو جائے امریکی دستوں کو وہیں مقیم رہنا چاہئے۔
میرے علم میں ہے کہ صدر ٹرمپ کے داماد جیراڈ کشنر کے ذریعے پاکستان کا بھی ٹرمپ سے رابطہ تھا۔ کشنر کے بارے میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر وہ اسرائیل اور عرب دنیا کا تنازع ختم نہیں کرا سکتا تو کوئی بھی نہیں کرا سکتا۔ متحدہ عرب امارات اور دیگر ملکوں کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے پیچھے کشنر کے ہی کرشمے ہیں۔ پاکستان کا رول طالبان اور افغان حکومت کے درمیان صلح کے مذاکرات کے حوالے سے دیکھا جا رہا تھا، تاحال صلح نہیں ہوئی مگر صدر ٹرمپ نے اِسی صلح کے انتظار میں پاکستان کے ساتھ معاملات کو مثبت انداز میں چلایا، اگرچہ نہ پاکستان کی امداد بحال کی اور نہ ہی بھارت کے ساتھ مزید دفاعی معاہدے کرنے سے رکے۔
جناب جوبائیڈن صاحب!
آپ ڈیمو کریٹک پارٹی سے سالہا سال سے وابستہ ہیں، ذاتی المیوں کے باوجود آپ نے اجتماعی کاز اور جمہوری سیاست میں اپنی دلچسپی برقرار رکھی ہے، امید ہے کہ آپ کے دورِ صدارت میں بھارت اور دنیا کے دوسرے ممالک میں غیرجمہوری اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیا جائے گا۔ دنیا میں جمہوری جماعتوں اور جمہوری آزادی کے علمبرداروں کے لئے امریکی حکومت کا نرم گوشہ ٹرمپ کے دور میں ختم ہو کر رہ گیا تھا، اُمید ہے آپ کے دورِ صدارت میں کلنٹن اور اوباما کے دور کی پالیسیوں کا ازسرنو اجرا کرکے دنیا بھر میں جمہوری پارٹیوں کی امداد اور آمرانہ حکومتوں کے خلاف اقدامات کئے جائیں گے۔
پاکستان میں امریکہ کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک زمانہ تھا، جب پاکستان میں حکومتوں کی آمد و رفت میں امریکہ کا کردار بنیادی سمجھا جاتا تھا، کسی لیڈر کی گرفتاری یا کسی اخبار کی بندش پر ایک امریکی بیان کافی سمجھا جاتا تھا، حکومت میں ہلچل مچ جایا کرتی تھی۔ اُس زمانے میں امریکی سفارتکاروں سے دوستی آپ کو مضبوط بناتی تھی اب امریکی سفارتکاروں سے دوستی ہو تو حب الوطنی پر شک شروع ہو جاتا ہے اور یہاں پرکھ پرچول کی جاتی ہے آپ سفارتکاروں سے کیا باتیں کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں وزیراعظم اور صدر کا دورۂ امریکہ اُنہیں مضبوط بنا دیا کرتا تھا، اب کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ کسی زمانے میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ممبران کی پاکستان کے سیاسی لیڈرز سے ذاتی شناسائی تھی، جوبائیڈن صاحب آپ بھی بےنظیر بھٹو، صدر مشرف اور بہت سے پاکستانی لیڈرز سے ذاتی طور پر واقف ہیں، اُن سے ملتے ملاتے رہے ہیں،ہمیں یاد ہے کہ صدر مشرف کو اقتدار سے رخصت کرنے میں آپ کا بھی بڑا کردار تھا۔ امید ہے آپ کے دور میں پاکستان کو دوبارہ سے اتنی اہمیت ملے گی جتنی پہلے ملتی تھی۔ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے فوجی، سیاسی، جمہوری اور ثقافتی رشتے دوبارہ سے استوار ہونے ضروری ہیں۔
جناب صدرِ امریکہ!
ٹرمپ کے زمانے میں میڈیا کا مذاق اُڑانا ایک عالمی روایت بن گئی تھی وگرنہ امریکہ کے صدور کا میڈیا سے احترام کا رشتہ ہوا کرتا تھا۔ ٹرمپ کبھی ایک صحافی سے لڑتے تھے اور کبھی دوسرے سے۔ ٹرمپ ہی کی طرح کی روایت پاکستان میں بھی آ گئی۔ صحافیوں کی ٹرولنگ ہوئی، اُن کو گالیاں دی گئیں۔ امید ہے آپ نہ صرف امریکہ میں میڈیا کو اِس کا جائز اور احترام والا مقام واپس دلائیں گے بلکہ باقی دنیا میں بھی آزاد میڈیا کے فروغ کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ دنیا بھر کو اندازہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں جو کانٹے دنیا میں بوئے ہیں، آپ کو وہ چننے میں وقت لگے گا۔ ہو سکتا ہے کہ شروع میں آپ کا عہد صدارت بھی متنازع بنانے کی کوشش کی جائے مگر مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی جمہوری تربیت اور طویل جدوجہد کے تجربے سے سارے ہتھکنڈوں کو ناکام بنا دیں گے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ خوف اور غصے کے بجائے دوسرے ممالک سے پیار اور دوستی کے نام پر تعلقات بنائے جائیں، نہ چین کو تجارت کی آڑ میں دبایا جائے، نہ جنوبی کوریا سے رعایات چھینی جائیں، نہ دفاعی معاہدوں پر انگلیاں اُٹھائی جائیں جس طرح کلنٹن اور اوباما اِس دنیا کو امن کی جگہ بنانا چاہتے تھے، جمہوریت کا فروغ چاہتے تھے، آزادیٔ اظہار کو عام کرنا چاہتے تھے، وہی کیا جائے وہی انٹرنیشنل ازم، وہی ہیومن رائٹس کا احترام، وہی قومی سرحدوں کا احترام۔ ٹرمپ کا دور ایک برا خواب تھا، اُمید ہے آپ اسے امیدِ سحر میں تبدیل کریں گے۔ والسلام
س۔ و عرف پنجابی ڈھگا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ