اشفاق نمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رکشہ گستاخی کے جرم میں جہنم واصل
وہ چارپائی پر لیٹا آسمان کو گھور رہا تھا اور اس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ اپنی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک اس کے بیٹے نے آواز دی
"بابا!”
باپ نے جواب میں کہا "جی بیٹا”
بیٹا: "آج کام پر نہیں جا رہے آپ ؟ اور آپکا رکشہ کدھر ہے؟”
باپ نے کوئی جواب نہ دیا تھوڑی دیر بعد بیگم کھانستی ہوئی آئی اور اس نے بھی یہی پوچھا تو شوہر نے کہا "بیگم تم آج پھر سے صاحب کے گھر میں جھاڑو دینا شروع کرو”
تو بیگم نے کہا "صاحب کے گھر میں پھر سے جھاڑو دوں؟ آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں میں بیمار ہوں اور ایسے کام نہیں کر سکتی اسی لیے آپ کو اپنے کنگن اور کچھ قرض لے کر رکشہ لا کر دیا تھا قسطوں پر”
شوہر نے الجھتے ہوۓ کہا ” بیگم بحث نا کرو جو کہا ہے وہ کرو”
بیگم نے قدرے پیار سے جواب دیا ” اچھا جی جو حکم اور ہاں منا سکول جانے کی تیاری کرو”
شوہر نے کہا "منا اب سکول نہیں جائےگا اس کے لئے ہوٹل میں بات کر لی ہے”
بیگم نے حیرانی سے کہا "مگررر…. ” شوہر اونچی آواز سے بولا” چپ بیگم کوئی اگر مگر نہیں چلے گی”
بیگم نے رکشے کے بارے تشویش کااظہار کرتے ہوۓ کہا "وہ رکشہ کہاں ہے ؟ اسکی تو کئی ساری قسطیں دینی باقی ہیں”
شوہر مایوسی سے بولا” وہ وہ وہ رکشہ کل جہنم جا چکا ہے”
بیوی حیرانی سے بولی "جہنم ؟؟؟؟؟ کیا مطلب آپ کا؟”
شوہر نے کہا "اسے کل گستاخی کے جرم میں آگ لگا دی گئی ہے”
بیگم کو حیرانی کا شدید جھٹکا لگا، "کیااااااااااا؟؟؟”
اور پھر اس کے بعد کافی دیر تک خاموشی کا راج رہا اس خاموشی میں ایک عورت کی سسکیوں اور بچے کے رونے کی دھیمی آواز ابھر رہی تھی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ