ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ٹھیک ہے کہ ملازمت اور تبادلہ لازم و ملزوم ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تبادلے کے اثرات یقینا مرتب ہوتے ہیں ، کمشنر ڈویڑن کا سربراہ ہوتا ہے ، ڈویڑنل کے معاملات میں ان کی سوچ کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ آصف اقبال چوہدری پہلے کمشنر تھے جو غریب طبقے سے محبت کرتے تھے اور بہاولپور کی تہذیب ، ثقافت سے بہت متاثر تھے۔ انہوں نے اپنی تعیناتی کے دوران وسیب کے شاعروں ، ادیبوں ،دانشوروں اور فنکاروں کی بہت عزت افزائی اور دلجوئی کی ،چولستان کے فنکار آنجہانی کرشن لعل بھیل کی روح آج بھی گواہ ہے کہ کمشنر صاحب نے ان کیلئے بہت کچھ کہا۔
یہ ٹھیک ہے کہ نئے آنے والے کمشنر کیپٹن ظفر اقبال رحیم یارخان میں ڈی سی او تعینات رہے ہیں اور وہ بھی مقامی تہذیب و ثقافت سے محبت کرتے ہیں اور آئندہ بھی ان سے یہی توقع ہے کہ وہ وسیب سے محبت کے عمل کو آگے بڑھائیں گے کہ کسی بھی افسر کی تعیناتی کا مقصد خطے اور خطے میں بسنے والے لوگوں کی خدمت کے سوا کچھ نہیں۔ کمشنر بہاولپور کا تبادلہ کیوں ہوا؟
ہم جیسے بے خبر لوگوں کو ان معاملات کا علم نہیں ، وجہ یہ ہے کہ وسیب کے لوگوں کو نہ تو بادشاہوں کا قرب حاصل ہے اور نہ ہی عنانِ اقتدار میں موجود لوگوں تک کوئی رسائی ہے ، یہ بھی اپنی جگہ ایک المیہ ہے کہ بیورو کریسی کی اکثریت کا تعلق وسیب سے نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ باہر سے آنے والی بیورو کریسی نے وسیب کے لوگوں کے احساسات و جذبات ہی نہیں بلکہ انکی زبان و ثقافت کے ساتھ ساتھ معیشت کو بھی کچل کر رکھ دیا ہے۔ میں جو کچھ لکھ رہا ہوں یہ دل کی بات ہے اور ایمانداری سے لکھ رہا ہوں۔
حکمران یقینا میری بات سننے کی بجائے اسے پروپیگنڈے کا نام دیں گے مگر ایسا ہرگز نہیں ہے،ریاست مدینہ کے دعویداروں اور 100دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ کرنے والوں کو وسیب کی فریاد سننا ہوگی تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں۔ میری بات تھوڑی طویل ہوگئی ہے ، میں جو بات بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وسیب کی محرومی کا زخم اتنا گہرا بن چکا ہے کہ ذرا سا ہاتھ لگ جائے تو وہ رسنے لگتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ستم رسیدہ محروم اور دکھی لوگوں سے کوئی پیار کے دو بول بول دے تو وسیب کے لوگ اس کے دیوانے ہوجاتے ہیں ،
میں جو بات کرنے جا رہا ہوں وہ یہ ہے کہ آصف اقبال چوہدری نے یہی کام کیا تھا اور انکے تبادلے سے وسیب کے لوگوں کو دکھ ہوا ہے۔چند ایک باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں جس کی بناء پر وسیب کے لوگ تبدیل ہونے والے کمشنر صاحب سے محبت کرتے تھے۔ ٭آصف اقبال چوہدری نے بہاولپور آتے ہی نہ صرف سرائیکی زبان و ادب سے محبت کا اظہار کیا بلکہ عملی طور پر سرائیکی زبان و ادب کی ترقی کیلئے اقدامات کئے۔
٭چولستان میں سالانہ جیپ ریلی کا انعقاد ہوا تو ٹور ازم کارپوریشن نے کلچرل شو کا اہتمام کیا مگر بھاری معاوضے پر فنکار باہر سے منگوائے ، مقامی فنکاروں کو نظر انداز کیا ، کمشنر صاحب نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور مقامی فنکارون کی دل جوئی کیلئے بہاولپور آرٹس کونسل میں دو دن ادبی و ثقافتی شو کرایا اور سرکاری سطح پر پہلی مرتبہ دعوت نامے سرائیکی میں چھپوائے گئے اور مکمل کاروائی سرائیکی میں ہوئی۔
٭ ایک اور بہت بڑا سرائیکی پروگرام بہاولپور کلب میں کرایا گیا اور اس کی تمام کاروائی سرائیکی میں ہوئی۔ اس پروگرام کی کامیابی میں ڈائریکٹر آرٹس کونسل مرحوم رانا اعجاز محمود صاحب اور پروگرام آفیسر ملک ذکاء اللہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ٭ سرائیکی مجلس رجسٹرڈ بہاولپور میں سرائیکی زبان و ادب کا واحد ادارہ تھا جو کہ کئی سالوں سے مجلس کے عہدیداروں اور اراکین کی حماقتوں کی وجہ سے بند ہے ، کمشنر نے اسے کھولنے کے لئے اجلاس طلب کیا مگر کورونا کی وجہ سے تاخیر ہوئی ، البتہ ان کا پختہ ارادہ تھا کہ سرائیکی مجلس کو بحال کر کے بہاولپور کے سرائیکی ادیبوں کے حوالے کریں گے تاکہ پہلے کی طرح سرائیکی ادبی مجلس میں ادبی سرگرمیاں شروع ہو سکیں۔ ٭ کمشنر بہاولپور اس بات کے خواہش مند تھے کہ ایک ایسی کتاب شائع ہو جو کہ باہر سے آنے والوں کو بہاولپور کی حقیقی تصویر دکھا سکے۔ ٭
کمشنر بہاولپور اس بات کی کوشش کر رہے تھے کہ بہاولپور کو سی پیک سے لنک ملے ، اس مقصد کیلئے انہوں نے ایک روڈ کا منصوبہ بنوایا تھا ، جس کی غالباً 12 ارب روپے لاگت آنی تھی ، یہ منصوبہ بہاولپور کیلئے بہت اہم ہے ، خدا کرے یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچے۔ ٭
بدلتے ہوئے حالات کے مطابق سرکاری دفاتر کی نئی عمارتوں کیلئے کمشنر بہاولپوربہت فکر مند تھے اور یہ مقدمہ انہوں نے بہاولپور کے عوامی نمائندوں سے بڑھ کر لڑا۔ ٭چولستان سے بھی وہ محبت کرتے تھے ، غریب طبقات سے ان کو محبت تھی ، غریبوں کے لیے دروازے کھلے رکھتے تھے ، کہا جاتا ہے کہ بہاولنگر ،فورٹ عباس ، ہارون آباد اور صادق آباد،لیاقت پور، خان پور سے کوئی غریب سائل آیا تو مایوس ہو کر واپس نہ گیا ، یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کسی نے اگر کہہ دیا کہ میرے پاس واپسی کا کرایہ ہی نہیں تو کمشنر صاحب نے ہزار ، پانچ سو اس کی مٹھی میں تھما دیئے۔
یہ سب کچھ شاید اہل اقتدار کو پسند نہ تھا ، وہ سرائیکی وسیب کو اپنی کالونی ‘ اپنا بیگار کیمپ اور چراگاہ سمجھتے ہیں اور خطے کے انسانوں کو انسان نہیں بلکہ حیوان ۔ان سے کام لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ایک انتظامی افسراس سوچ کے بر عکس اگر انسانوں کو احترام دیتا ہے تو یقینا انکی نظروں میں وہ مجرم ٹھرے گا اور اسے اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں رہے گا۔ چونکہ ہم بے خبر لوگ ہیں ، ہمیں اصل معاملات کا علم نہیں ، مگر اخبارات میں آصف اقبال چوہدری کی یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ ابوظہبی کی ہوبارہ فائونڈیشن کو 99 سالہ لیز پر دی گئی 40 ہزار ایکڑ زمین کا قبضہ اس وقت نہیں دیں گے جب تک متاثرین کو اس کا متبادل نہ دے دیا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ کمشنر کا یہ بیان ان کا جرم ٹھہرا ہو۔ بہرحال کمشنر بہاولپور آصف اقبال چوہدری جہاں رہیں خوش رہیں ، وسیب کے لوگوں کی دعائیں ، ہمدردیاں اور محبتیں انکے سر پر سایہ فگن رہیں گی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر