دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟۔۔۔ رسول بخش رئیس

یہ ایک لمبا موضوع ہے کہ داخلی سیاسی جنگیں کیوں جنم لیتی ہیں‘ اور کون یہ جنگیں کیوں لڑتا ہے؟ اس پر پھر کبھی بات کروں گا۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ کالم میں بات کچھ ادھوری رہ گئی تھی۔ نام اگر جمہوریت بحالی تحریک ہے تو پھر سبھی کے لئے یہ تسلیم کرنا لازم ہے کہ ملک میں عمران خان صاحب کی مطلق بادشاہی‘ آمریت کا راج ہے۔ دبے لفظوں میں نہیں کھلم کھلا‘ جلسوں میں خان صاحب کے جمہوری‘ آئینی جواز کو زمین بوس کرنے کیلئے زبان و کلام تلخ سے تلخ تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارے کچھ دانشور بھائی اور موروثی سیاسی جماعتوں سے وابستہ پیشہ ور وفادار خوش ہیں کہ پاکستان کی سیاست کا پہلا اور آخری تضاد میاں صاحب کی حالیہ ہفتوں میں ”انقلابی‘‘ تقریروں نے کھول کر رکھ دیا ہے۔ حقیقی‘ بے داغ اور عوامی جمہوریت کا کہیں بھی ظہور ہو‘ دل وہیں بسنے کیلئے بیتاب اور روح بے چین ہو گی‘ اور یہ معجزہ وطنِ عزیز میں ہماری زندگیوں میں ہی رونما ہو جائے‘ تو یقین جانئے‘ زندگی کے آخری سال بہت سکون سے گزریں گے۔

ہمارے قلم‘ ہماری زبانیں اور ہمارے مضامین و کالم اپنے جمہوریت پسند قومی رہنمائوں اور فرمانروائوں کی شان میں قصیدے لکھتے رہیں گے۔ موجودہ تحریک کے اتحادی نئے کھلاڑی نہیں ہیں۔ سندھ کا ایک خاندان تقریباً ساٹھ برسوں سے اقتدار میں ہے جبکہ پنجاب کا ایک خاندان چالیس برس برسر اقتدار رہا ہے۔ پہلا سندھ میں حکمران رہا اور اب بھی ہے جبکہ دوسرے کے حوالے پہلے تخت لاہور‘ پھر پورا ملک کیا گیا۔ دونوں کی جمہوریت سے نظریاتی وابستگی‘ عوام سے محبت اور وطن دوستی کے سارے قصے سب کو معلوم ہیں۔ سارا منظر شفاف‘ صاف اور سامنے ہے۔

جمہوریت تو ایک ارتقائی‘ سماجی اور سیاسی عمل ہے اور یہ ہر صورت میں جاری رہنا چاہئے۔ اس پودے کو اگر ہم لگاتے‘ اکھاڑتے‘ روندتے اور پھر نئے سرے سے لگاتے رہے تو کیسے اس کی بلوغت ہو گی‘ کیسے یہ نشوونما پائے گا؟ کیسے ہم اس کے گھنے اور سایہ دار درخت بننے کی تمنا کر سکتے ہیں؟ اس بارے میں حماقتیں اور ”مزید حماقتیں‘‘ ہمارے ارباب اختیار ہر روپ میں اور ہر دور میں کرتے رہے ہیں۔ جمہوریت‘ مذہب اور پاکستان کو لاحق خطرات کو سیاسی بازار میں نہ جانے کن کن لوگوں نے محدود اور ذاتی مفادات کیلئے بیچا۔

آج کل پھر جمہوریت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے۔ عرض کیا تھا‘ مسئلہ جمہوریت کا نہیں۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں‘ تحریک میں سرگرم کرداروں کے ماضی میں ذرا جھانکیں اور ان سیاسی محرکات کا جائزہ لیں‘ جن کو سامنے رکھ کر یہ تحریک برپا کی جا رہی ہے‘ تو معلوم ہو گا کہ خطرہ دو بڑے سیاسی خاندانوں کی سیاسی جاگیروں کو ہی ہے۔ لوٹ مار کا سرمایہ تو کئی آنے والی پشتوں کیلئے پہلے ہی ملک سے باہر جمع کیا جا چکا ہے‘ ملک کے اندر بھی نہ جانے کتنے خزانے چھپا رکھے ہیں‘ مگر کرپشن اور بدعنوانی کے کپتانی بیانیے نے ان کے تمام مضبوط قلعوں کی دیواروں میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔

کپتان کو مزید مہلت ملی تو ممکن ہے یہ شگاف اتنے بڑھ جائیں کہ کوئی بھی حصار انہیں محفوظ ٹھکانہ فراہم نہ کر سکے۔ ان کے خدشات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کوئی محفوظ راستہ انہیں نہیں مل رہا ہے۔ خصوصاً نون لیگ کی اعلیٰ قیادت‘ جو صرف ایک ہی خاندان تک محدود ہے‘ اس حوالے سے محرومیت کا شکار ہے۔ کہاں تخت لاہور‘ وفاق اور بلوچستان میں حکومتیں‘ اور کہاں ”خادمِ پنجاب‘‘ کی نیب جیل میں ‘مہمانیاں‘ اور میاں صاحب کی لندن میں جلا وطنی کی مایوس کن زندگی۔ بھٹو زرداری خاندان کے لئے سندھ کی بادشاہت موجود ہے‘ اور اس کے سہارے‘ ہر جگہ‘ وہ من مانیاں کرتے پھرتے ہیں۔

لاہوری خاندان کی فی الوقت بے بسی کا عالم یہ ہے کہ زرداری صاحب کو کرپشن کے الزام کی بنا پر سڑکوں پرگھسیٹنے والے ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ موجودہ تحریک میں بھی ترپ کا پتہ زرداری خاندان کے ہاتھ میں ہے‘ دیکھیں اس دفعہ وہ لاہوری خاندان کا سہارا بن کر دوبارہ ابھرنے میں کوئی کردار ادا کرتے ہیں‘ یا سندھ کے صوفیوں اور درویشوں والی خاموشی اختیار کرکے میاں صاحب کو اپنی جنگ خود لڑنے کیلئے میدان میں چھوڑ دیتے ہیں۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے بااثر سیاسی خاندان جمہوریت کے نام پر ہمیشہ جمہوریت کی تردید اور جمہوری نظام کی جڑیں کاٹنے میں مصروف رہے۔ جمہوریت تو دانشمندی‘ افہام و تفہیم سکھاتی ‘کچھ دیں اور کچھ لیں‘ جیسے درمیانی راستے پر چلنے کی راہ سجھاتی اور باہمی مقابلے سے آگے بڑھنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اپنے ملک میں اس کے برعکس ایوب خان کے زمانے سے لے کر موجودہ سیٹ اپ تک ہر دور میں سیاسی جنگیں ہی دیکھی ہیں۔ جتنا نقصان سیاسی جنگوں نے پاکستان کو پہنچایا وہ ہمارے بدترین بیرونی دشمن بھی ہمارا نہیں کر سکے۔

مشرقی پاکستان کا المیہ سیاسی جنگ کا نتیجہ تھا‘ متحارب فریق ایسی پوزیشنیں لے چکے تھے کہ کہیں لچک کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی تھی۔ ایوب خان کے خلاف سیاسی جنگ کا آغاز ہوا تو ایک فریق مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار نہ ہوا۔ جمہوری‘ عوامی حکومت نے انتخابات کروائے تو نتائج حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی توقعات کے بالکل برعکس تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک نئی سیاسی جنگ چھڑ گئی۔ کئی ماہ مذاکرات ہوتے رہے‘ سمجھوتہ باریک نکتوں پر اٹکا رہا۔ شریف اور بھٹو زرداری خاندان کی سیاسی جنگ بھی ملک کی طویل ترین سیاسی کشاکش رہی‘ اور خاکسار کے خیال میں ہمارے ملک سے جمہوریت کی جڑیں اسی جنگ اور اسی کشاکش نے اکھاڑی ہیں۔ اب دونوں مل کر عمران خان کے خلاف محاذ آرا ہیں۔

یہ ایک لمبا موضوع ہے کہ داخلی سیاسی جنگیں کیوں جنم لیتی ہیں‘ اور کون یہ جنگیں کیوں لڑتا ہے؟ اس پر پھر کبھی بات کروں گا۔ فی الوقت ایک بات پورے وثوق سے کر سکتا ہوں کہ سیاسی جنگیں ریاستوں اور ملکوں کو تباہ کر ڈالتی ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ ملکی تاریخ سے کچھ واقعات کا ذکر اختصار کے ساتھ کر دیتا ہوں۔ مشرقی پاکستان میں اقتدار عوامی لیگ کو منتقل ہونا ضروری تھا‘ لیکن کچھ کرداروں نے ایک محاذ بنا کر اقتدار کی منتقلی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں اور اس وقت کی آمرانہ حکومت کے اتحادی بن گئے۔ بعد میں جو کچھ ہوا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس تاریخی پس منظر میں معلوم یہی ہوتا ہے کہ اقتدار کی ہوس ہر فریق کے ذہن میں غالب تھی۔ اس جنگ کا نتیجہ تو وہ المیہ ہی تھا‘ جس پر اظہارِ افسوس ہم آج تک کرتے ہیں‘ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا؟

دوسری سیاسی جنگ کا حوالہ 1977 کے انتخابات کے حوالے سے دے چکا ہوں۔ اگر سمجھوتہ ہو جاتا اور نئے انتخابات کرا لئے جاتے تو پاکستان کی سیاسی تاریخ مختلف ہوتی۔ اس کے بعد جو حکومت وجود میں آئی‘ اور جو سلوک بھٹو صاحب کے ساتھ ہوا‘ اس سے ملک میں سیاسی‘ نظریاتی اور لسانی تقسیم مزید گہری ہو گئی۔ اس کے اثرات ہماری سیاست اور معاشرت سے ابھی تک زائل نہیں ہو سکے ہیں۔ نئی سیاسی جنگ کا ہدف عمران خان اور ان کی بدعنوانی کے خلاف سیاست اور احتساب کی زبان ہے۔ حقیقت میں تو یہاں کسی بڑے کا کبھی احتساب نہیں ہوا‘ سنتے رہتے ہیں کہ ”اب ہونے والا ہے‘‘۔

ہم تو چاہتے ہیں کہ جلدی ہو اور سب کا ہو۔ میاں صاحب کے ارد گرد موجود صلاح کاروں اور تزویرات کے ”ماہرین‘‘ نے نشانہ کہیں اور رکھنے کا اور جنگ کا آخری معرکہ لڑنے کا مشورہ دیا ہے۔ خود تو اپنے کئے کی بنا پر ڈوبے ہیں‘ ملک اور ہمیں تو نہ ڈبوئیں۔ آپ اور دیگر سیاسی خاندان تو باہر کی جاگیروں میں پناہ لے سکتے ہیں‘ ہم نے تو یہیں جینا‘ یہیں مرنا ہے۔ موروثی خاندانوں نے تو فیصلہ کر لیا ہے‘ اب ذمہ داری دوسری صف کی قیادت کی ہے کہ وہ کسی خاندان کی سیاسی جنگ کے پیادے بنتے ہیں یا ملک‘ اس کی سلامتی‘ استحکام‘ جمہوریت اور قوم کا سوچتے ہیں۔ جمہوریت جنگوں کا متبادل ہے۔ اگلے انتخابات میں فیصلہ ہو جائے گا۔ کچھ اور انتظار کر لیں‘ سوچیں کہ سیاسی جنگوں نے ہمیں کیا دیا ہے‘ اور اس خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال کے پیشِ نظر مزید سیاسی جنگیں تباہ کن ہو سکتی ہیں۔

About The Author