نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امریکی الیکشن اورہمارے سیاستدانوں کی تربیت ! ۔۔۔ علی احمد ڈھلوں

انتخابات کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ دنیا کی واحد سپرپاورامریکہ کا الیکشن ہے جس کے اثرات دنیا کے ہرملک پرپڑتے ہیں۔

علی احمد ڈھلوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

الیکشن کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ دنیا کی واحد سپرپاورامریکہ کا الیکشن ہے جس کے اثرات دنیا کے ہرملک پرپڑتے ہیں۔

آج 3نومبر امریکی الیکشن کا دن ہے، دنیا بھرکی نظریں امریکا کے صدارتی انتخابات پر لگی ہیں جو امریکی آئین کے مطابق ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے منگل کو منعقد ہوتے ہیں۔ امریکی تاریخ کے یہ59 ویں صدارتی انتخابات ہیں۔

ان صدارتی انتخابات کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ دنیا کی واحد سپر پاور کا الیکشن ہے جس کے اثرات دنیا کے ہر ملک پر پڑتے ہیں۔ اسی عالمگیر اہمیت کی وجہ سے یہ انتخابات دنیا بھر کے سیاسی حلقوں اور حکومتوں کے لیے توجہ کا باعث ہیں۔ عالمی معیشت، معاشرت اور سیاست پر امریکا کے صدارتی الیکشن کے اثرات مرتب ہوتے ہیں یہاں تک ہوتے ہیں کہ دنیا کے200 ممالک میں بسنے والے 7 ارب سے زائد انسان کسی نہ کسی طرح اس سپرپاور کے صدارتی انتخابات سے متاثر ہوتے ہیں۔

نومبر کے پہلے منگل کو فتح یاب ہونے والا صدارتی امیدوار اگلے سال کے پہلے مہینے (جنوری) کی 20 تاریخ کو صدارتی عہدے کا حلف اٹھاتا ہے۔ اگر20 جنوری کو اتوار آجائے تو بھی حلف برداری کی تقریب اسی روز ہی منعقد ہو گی تاہم قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے گزشتہ روز دوبارہ حلف اٹھایا جائے گا۔ امریکی الیکشن (نومبر)سے صدر کے حلف اُٹھانے تک کاکم و بیش ڈھائی ماہ کے عرصے نو منتخب امریکی صدر کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔دیگر نو منتخب 538’’الیکٹر‘‘ کی تربیت کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔

3 نومبر کو ہونے والا امریکی الیکشن درحقیقت امریکا کی 50 ریاستوں کے 538 الیکٹورل کالج کے ممبران کا الیکشن ہوتا ہے جنھیں الیکٹر بھی کہا جاتا ہے جو منتخب ہونے کے بعد دسمبر میں امریکی صدر کے لیے ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔ امریکا میں دو بڑی سیاسی جماعتیں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن ہیں جن کے 538 سیٹوں پر الیکٹر کے اپنے اپنے امیدوار کھڑے ہوتے ہیں اور امریکی عوام اپنے ووٹ دیکر الیکٹر منتخب کرتے ہیں جس پارٹی کے زیادہ الیکٹر جیت جائیں اسی پارٹی کا صدر بننا یقینی ہو جاتا ہے۔بعد میں امریکی ایوان نمایندگان اور گورنر بھی انھی الیکٹورلز میں سے منتخب ہوتے ہیں۔

یہ سب کچھ ایک سسٹم کے تحت ہو رہا ہوتا ہے، ریپبلکن پارٹی کے18 نمایندے امریکا کے صدر رہ چکے ہیں جن میں سب سے پہلے ابراہم لنکن اور اب تک کے آخری صدر جارج بش ہیں۔ ان تمام صدور کا مجموعی دورِ حکومت 88سال بنتا ہے۔ ان میں سے چار کو دوبار صدارتی مدت مکمل کرنے کا اعزاز حاصل ہے جب کہ اس پارٹی کے پانچ صدور ایک دورانیہ صدارت مکمل کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔

دوسری طرف ڈیموکریٹک پارٹی کے 15 صدور تقریباً 85 سال تک امریکا پر برسرِاقتدار رہے جن میں سے پانچ صدور نے دومرتبہ مدت مکمل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے ممبر فرینکلن روزویلٹ چار مرتبہ امریکا کا صدارتی الیکشن جیتے۔ تین مرتبہ صدارتی انتخاب کا دورانیہ مکمل کیا جب کہ چوتھی مدت صدارت کے دوران خرابی صحت کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔

حالیہ الیکشن کی بات کریں تو تادم تحریر امریکی الیکشن کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں اور بعض ریاستوں میں ابھی تک جوبائیڈن آگے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیچھے نظر آرہے ہیں، خیر الیکشن میں جو بھی نتائج آئیں گے، اُس کے پوری دنیا پر اثرات ہوں گے، لیکن جس چیز کو آج ہم ڈسکس کر رہے ہیں وہ ہے وہاں کا الیکشن سسٹم اور نو منتخب صدور و نمایندگان (الیکٹرز) کی تربیت۔ ان نو منتخب اراکین کو ان کے عہدوں کی اہمیت بتائی جاتی ہے، پروٹوکول سمجھایا جاتا ہے۔

اُن کی ذاتی ای میل، سوشل میڈیا وغیرہ ، موبائل فون سے لے کر اُٹھنے بیٹھنے، عوامی اجتماعات میں بات کرنے، صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے، بڑے پن کا مظاہرہ کرنے، کسی آفت کی صورت میں عوام سے برتاؤ کرنے، کسی سرکاری تقریب کا اہتمام کرنے، کسی مخالف سے کس حد تک بات کرنے، کسی اپوزیشن اراکین سے ملاقات کرنے، کسی وفد سے ملاقات کرنے، کسی کاروباری شخصیت سے بات چیت کرنے، کسی بیرون ملک سے آئے وفد کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے، میڈیا کے سامنے بات کرنے، ان کی حدود کا تعین کرنے اور دیگر درجنوں اصول و ضوابط سکھانے کے لیے باقاعدہ ورکشاپس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

میٹنگز کا اہتمام کیا جاتا ہے، اور سب سے اہم یہ کہ ہر نو منتخب رکن کو اُس کا پروٹوکول سمجھایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ ۔ الغرض تمام نو منتخب اراکین کو ایک دائرے میں رہ کر اختیارات استعمال کرنے کی تربیت دی جا تی ہے۔ تاکہ وہ ملکی مفاد کے خلاف کام کرنا تو دور کی بات اس حوالے سے کبھی ایسی بات سوچ بھی نہ سکے۔

لیکن اس کے برعکس ہمارے سیاستدانوں کی تربیت صفر بٹا صفر ہے۔ انھیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ پبلک مقامات پر کس بات کو ڈسکس کرنا ہے اور کس کو نہیں! پھر ان چیزوں کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اسے دنیا بھر کا میڈیا بالخصوص بھارتی میڈیا پراپیگنڈہ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایاز صادق کو علم بھی نہیں ہوگا کہ اُس نے کیا کہہ دیا ہے اور اس کے آفٹر ایفیکٹس کیا ہوں گے، حالانکہ ایسی باتیں تو اسمبلی کی کارروائی سے حذف کر لینی چاہئیں ، باہر کیوں نکلیں؟ الغرض امریکا ہو یا برطانیہ، بھارت ہو یا بنگلہ دیش آج تک کسی سیاستدان نے ایسی باتیں نہیں کی جو پاکستانی سیاستدان کرتے ہیں۔

میرے ذاتی خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تربیت کی کمی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے 90 فیصد سیاستدان پاکستان سے زیادہ اپنے لیڈر اور اپنی پارٹی کے وفادار نظر آتے ہیں ۔ قصہ مختصر یہ کہ یہاں جو الیکشن جیت جاتا ہے، اُسے نہ تو عوام کی پروا ہوتی ہے، نہ پاکستان کی اور نہ ہی پاکستانی اداروں کی۔لہٰذاجب تربیت نہیں ہوتی تومعذرت کے ساتھ یہی ہمارے سیاستدان اقتدار کے بھوکے ہوتے ہیں ۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار بیس سال قبل امریکی الیکشن میں صدارتی امیدوار الگور نے جارج ڈبلیو بش سے پانچ لاکھ زائد عوامی ووٹ حاصل کیے تھے لیکن جارج ڈبلیو بش 271 الیکٹرز کے ووٹ سے صدر بن گئے تھے۔ اسے کئی حلقوں نے دھاندلی قرار دیا، پھر اس دھاندلی زدہ الیکشن کو الگور نے صرف اس لیے چیلنج نہیں کیا تھا، کہ وہ ’’امریکا‘‘ کو چیلنج نہیں کر سکتے۔ یہ ہوتی ہے سیاستدانوں کی تربیت! بہرکیف سیاسی حالات کے بگڑنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کہیں فیصلے کرنے والوں میں بھی کنفیوژن پائی جاتی ہے بقول حفیظ جالندھری

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

بہرحال کچھ بھی کہیں یہ ہماری ضرورت ہے کہ جو سیاستدان بھی قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے، یا جیتے، تو کم از کم اُسکی ایک آدھ تربیتی ورکشاپ ضرور ہونی چاہیے، باقی چیزوں پر ہم امریکا کو بہت زیادہ فالو کرتے ہیں، لیکن اس بات پر ہم اُسے فالو کیوں نہیں کرتے، اور اس میں سب سے زیادہ کردار وزیر اعظم عمران خان کو ادا کرنا چاہیے کیونکہ وزیراعظم اور حکومت تو گھر کے بڑے کا کردار ادا کرتی ہے جو ہر قسم کی شورش، لڑائی، جھگڑے کو ختم کرنے کی خواہاں ہوتی ہے کیونکہ اگر لڑائی جھگڑے ہوں گے، فتنہ فساد بڑھے گا تو گھر کیسے چلے گا؟

About The Author