مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سال عالمی، قومی، خاندان اور ذاتی، ہر حوالے سے امتحان ثابت ہوا ہے۔ ہورہا ہے۔
جولائی میں روزگار چھن گیا۔ تعصب کی بنیاد پر پہلے معطل اور پھر ٹرمنیٹ کیا گیا۔
ادھر ادھر دوستوں سے کام کے لیے رابطہ کیا۔ دو غیر ملکی ویب سائٹس نے لکھنے کو کہا۔ دونوں میں محبت کرنے والے دوست وسیلہ بنے۔
ان میں سے ایک ویب سائٹ نے تین بے ضرر مضامین چھاپنے کے بعد معذرت کرلی۔ تفصیل نہیں بتائی لیکن میں سمجھ گیا کہ دباؤ ہے۔
جب وہ ادارہ دباؤ برداشت نہیں کرسکا، جس سے میں اٹھارہ سال وابستہ رہا، تو کسی اور سے کیا شکوہ۔
البتہ اس ادارے کے لیے نام بدل لینا مناسب ہوگا کیونکہ اگر آپ آزاد نہ ہوں تو نام آزاد خان نہیں ہونا چاہیے۔
دوسری ویب سائٹ ایک بھی مضمون نہیں چھاپ سکی۔ معلوم نہیں کہ اندر کا دباؤ ہے یا باہر کا۔
بہرحال جو بات پچیس سال کی صحافت کے باوجود ٹھیک سے پتا نہیں تھی، وہ معلوم ہوگئی کہ میڈیا، عالمی میڈیا علاقائی تناظر میں کس حد تک آزاد ہوتا ہے۔
اس دوران ایک امریکی دوست نے مشورہ دیا کہ مجھے کمرشل بنیاد پر ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل بنانا چاہیے۔ انھوں نے پارٹنر بننا تھا۔ لیکن جب فزیبلٹی بنالی تو پیچھے ہٹ گئے۔ کرم یہ کیا کہ بطور ڈونر ہر ماہ کچھ رقم دینے کا وعدہ کیا۔
ان کی مہربانی کی وجہ سے میں اتنے دن سکون سے ویب سائٹ پر دھیان دے سکا۔
بدقسمتی سے وہ خود مالی مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں اور یہ سلسلہ بھی بند ہوا۔
ملازمت گئی۔ پاکستان میں نام چھپنے پر پابندی ہے۔ مالی مشکلات ہیں۔ لیکن سب کچھ قبول ہے، اس آزادی کے بدلے کہ میں سچ بول سکتا ہوں۔ لکھ سکتا ہوں۔ اور خوش ہوں۔
اچھا وقت نہیں رہا تو برا بھی نہیں رہے گا۔ مشکلات آتی ہیں، چلی جاتی ہیں۔ لیکن آزادی برقرار رہنی چاہیے۔ آزادی برقرار رہے گی۔
۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ