شکیل نتکانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹرمپ جب پچھلی دفعہ ری پبلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار بنا تو پارٹی کے پاس الیکشن لڑنے کے لئے اس کے سوا کوئی دوسرا موزوں امیدوار ہی نہیں تھا جبکہ دوسری طرف ڈیموکریٹس میں صدارتی امیدوار ہونے کے لئے عوامی مقبولیت رکھنے والے برنی سینڈرز اور سابق امریکی صدر کلنٹن کی اہلیہ اور اوبامہ حکومت کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے درمیان رسہ کشی جاری تھی۔
اس وقت یہی خیال کیا جا رہا تھا کہ ریپبلکن پارٹی کے پاس کوئی ڈھنگ کا امیدوار نہیں ہے اس لئے ڈیموکریٹ امیدوار کی کامیابی یقینی ہو گی اسی لئے امریکی ایسٹبلشمنٹ کسی صورت برنی سینڈرز جو کہ سوشلسٹ نظریات کا حامل تھا کو امیدوار نہیں دیکھنا چاہتی تھی اس لئے ہیلری کلنٹن ان کی منظور نظر ٹھہری۔ ٹرمپ اپنے خودسرانہ مزاج اور منہ پھٹ ہونے کی وجہ سے پہلے میڈیا اور بعد میں ایسٹبلشمنٹ کی ناپسندیدہ شخصیت بن گیا۔
ایک بزنس مین ہونے کے ناطتے اس کے فیصلے سیاسی اور سفارتی کم اور تجارتی زیادہ تھے یعنی دو جمع دو. یہی وجہ ہے وہ کسی معاملے کو نفع نقصان کی آنکھ سے دیکھتا تھا اور ایک جواری کی مانند اس پر سب کچھ لگا دیتا تھا۔ اسے جنگوں پر بے تحاشا فنڈز خرچ کرنے کی سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ سوچتا تھا کہ ہم ان فنڈز کو عوام کی بہتری کے منصوبوں پر خرچ کیوں نہیں کرتے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ان تمام محاذوں کو ٹھنڈا کرنا شروع کر دیا جہاں جہاں امریکہ کو بہت زیادہ اخراجات برداشت کرنے پڑ رہے تھے اور یہ بات امریکی ایسٹبلشمنٹ کے لئے کسی صورت قابل قبول نہ تھی۔ ایسٹبلشمنٹ کی مدد سے ہیلری کلنٹن ڈیموکریٹس کی جانب سے صدارتی امیدوار بن جاتی ہے۔
برنی سینڈرز کے سپورٹرز ہیلری کو ایسٹبلشمنٹ کا امیدوار قرار دیتے ہوئے یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ کسی صورت ہیلری کلنٹن کو ووٹ نہیں دیں گے اور برنی سینڈرز پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ ہر صورت صدارتی انتخابات میں حصہ لے۔
لیکن برنی سینڈرز کو صاف ڈکھائیں دے رہا تھا کہ اس صورتحال میں وہ صدراتی الیکشن نہیں جیت پائے گا اور ساتھ ساتھ ڈیموکریٹس بھی الیکشن ہار جائیں گے اب ڈیموکریٹس شکستہ دل برنی سینڈرز پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ ہیلری کلنٹن کی کمپئین میں حصہ لے تاکہ برنی سینڈرز کے سپورٹرز جنہوں نے ہیلری کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تھا کو قائل کیا جا سکے۔ آخرکار برنی سینڈرز، ہیلری کلنٹن کی کمپئین کو اٹھ کھڑا ہوا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی ٹرمپ اپنی کمپئین کو کہیں سے کہیں پہنچا چکا تھا۔ ٹرمپ کے گزشتہ چار سالوں کے رویوں سے نالاں ایسٹبلشمنٹ اب کی بار اس کی شکست کی زیادہ شدت سے خواہاں ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اب کی بار ٹرمپ زیادہ طاقتور ہو کر آئے گا اور انہیں مزید دبا کر رکھے گا۔
جنگوں پر نہ خرچ کرنے کی پالیسی کے نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی ایسٹبلشمنٹ دنیا کے مختلف خطوں میں اپنی حمایت یافتہ طاقتوں کو ویسے سہولت فراہم نہ کر سکی جیسی ماضی میں فراہم کرتی آئی ہے یہ سہولت مالی، اسلحے کی فراہمی، سیاسی حمایت اور مشترکہ فوجی مشقوں کی صورت میں فراہم کی جاتی تھی جس کی وجہ سے وہ قوتیں اپنے اپنے خطے میں کمزور ہونا شروع ہو گئیں۔ یہی وجہ ہے پاکستان جیسے ممالک میں ایسٹبلشمنٹ کے پاؤں اکھڑ رہے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر