اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ عرصہ سے یورپ کے اہم ملک فرانس میں توہین آمیز خاکو ں کی اشاعت کے ذریعے وہاں کی پیش پا افتادہ مسلمان آبادیوں میں جس طرح کا اضطراب ابھارا گیا ہے‘ اس سے فرانسیسی قوم کے مسائل تو حل نہیں ہو سکیں گے البتہ عالمی سطح پہ بین المذاہب تفریق کی خلیج مزید گہری ہوتی جائے گی۔ بظاہر یہ آزادیٔ اظہار کا مسئلہ بھی نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر بیان کیا جاتا ہے بلکہ اس کی جڑیں ہمیں فرانس کے اندر پنپنے والے سماجی و تہذیبی تغیرات اور معاشی بحران میں ملتی ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں فرانس نے صدر چارلس ڈیگال کی قیادت میں بے مثال ترقی کی جس نے مملکت کے انتظامی اور معاشی ڈھانچے کی تعمیرنو کے علاوہ قومی شناخت کی ازسر نو تشکیل کر کے روایتی سیاسی تمدن کے سارے مفاہیم بدل ڈالے؛ تاہم فرانسیسی سماج کی روح کے اندر موجزن مزاحمت کی آبائی جبلتیں اور وہ انقلابی رجحانات معدوم نہ ہو سکے جن کی آبیاری والٹیئر کی زدفہمی اور بعد ازاں نپولین کی بے باک فعالیت نے کی تھی۔ اسی لئے سیاسی، معاشی اور ثقافتی ارتقا کے باوجود وہاں وقفہ وقفہ سے فسادات سر اٹھا لیتے ہیں، جنہیں مناسب طریقہ سے مینج کرنے کی صلاحیت، انتظامی اہلکاروں میں اب گھٹتی جا رہی ہے یا پھر وہاں کی حکمران اشرافیہ کے سیاسی مفادات ایسے واقعات کو ایک خاص رنگ دینے پہ اکساتے رہتے ہیں۔ فرانس میں 1981ء کی مہیب بدامنی کا آغاز سرمایہ کاری اور صارفین میں عدم توازن، امریکا کے نفسیاتی غلبے کا استرداد اور روایتی اداروں کے خلاف طلبہ کے مظاہروں سے ہوا تھا، ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والے ان مظاہروں کے دوران ناراض طلبہ کے یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس سے متعدد بار تصادم ہوئے، ان فسادات کی اساس بھی مذہبی نہیں‘ اقتصادی تھی۔
اگرچہ اکیسویں صدی میں صورتحال میں کئی نئے عوامل بھی شامل ہو گئے ہیں لیکن مغرب کے لادین معاشروں میں آج بھی فسادات کا بنیادی محرک اقتصادی مسائل ہی بنتے ہیں؛ تاہم پہلی بار اکتوبر 2005ء کے فسادات اور مشتبہ مسلم عسکریت پسندوں کی گرفتاریوں کی مہم کے ساتھ اسلام کو فرانسیسی خدشات کا جُز بنایا گیا تھا۔ اگرچہ اس وقت بھی مغربی میڈیا کے اجتماعی شعور نے شورش کو سہولتوں سے محروم مخلوط آبادیوں کی سماجی و معاشی مشکلات اور سیاسی محرومیوں کا سبب بتایا تھا لیکن ریاستی مقتدرہ نے مخصوص حکمت عملی کے تحت فرانسیسی معاشرے میں ان فسادات کو ایک خاص مذہب سے منسلک خطرات کے ساتھ جوڑ کے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی تھی۔ امر واقعہ بھی یہی تھا کہ اُس وقت جن پُرتشدد مظاہروں کو ڈرامائی انداز میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں بدلا گیا تھا، اصل میں وہ ہائیڈرو کاربن ٹیکس کے نفاذ اور فرانسیسی حکومت کی ماحولیاتی پالیسیوں کا ردعمل تھے، جس سے ایندھن‘ خاص طور پر ڈیزل کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا تھا۔ اسی طرح 17 نومبر 2018ء کو فرانس کے طول وعرض میں اچانک بھڑک اٹھنے والے جن فسادات نے تین لاکھ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا تھا اور ہنگاموں کا مشاہدہ کرنے والے صحافی جان لیک فیلڈ نے جنہیں بغاوت قرار دیا تھا‘ وہ بھی معاشی مشکلات کی کوکھ سے پھوٹے تھے۔ ان پُرتشددکارروائیوں کی ابتدا پیرس میں شہری مزدوروں نے باسٹیل قلعے پر قبضے کے ذریعے کی تھی لیکن جب کسانوں نے یہ سنا تو وہ بھی دیہی علاقوں میں بغاوت پہ کمربستہ ہو گئے۔
میڈیا میں اس پیچیدہ تشدد کی وضاحت یوں کی گئی تھی کہ یہ نوجوان مسلمانوں کا فرقہ وارانہ بنیاد پرستی پہ مبنی رد عمل نہیں بلکہ سماجی بے انصافی کے خلاف بڑھتا ہوا انحراف ہے۔ رائٹرز کے ٹام ہنگان نے سوال اٹھایا تھا ” ہم یہ کیسے لکھیں کہ وہ مسلمان ہیں یا یہ مسلم فسادات ہیں؟ یا ”فرانسیسی انتفاضہ‘‘ جیسی اصطلاحات کو درست ثابت کرنے کیلئے حقائق کہاں سے لائیں؟کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ فسادات ”مسلم محلوں‘‘ میں ہوئے لیکن جب صحافی ان آبادیوں میں جاتے ہیں تو انہیں وہاں ایسے علاقے ملتے ہیں جو کثیر نسلی، کثیر ثقافتی، کثیر لسانی اور کثیر جہتی ہیں۔ سڑکوں پر نظر آنے والے چہروں میں عرب (زیادہ تر شمالی افریقہ سے) افریقہ اور کیریبین کے سیاہ فام، برصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھنے والے (اکثر سری لنکن) اور فرانس کے غریب گورے شامل ہیں۔ بلاشبہ ان ہنگاموں میں ایسے مسلمان ہوں گے جو مساجد میں نماز پڑھنے جاتے ہوں گے لیکن ان میں گرجا گھروں میں جانے والے عیسائی بھی ملوث دکھائی دیتے ہیں، جن میں افریقی انجیلی بشارت کی بڑھتی ہوئی تعداد نمایاں نظر آتی ہے بلکہ پیرس کے مضافاتی علاقوں میں ہمیں غریب یہودی بھی سرگرم ملتے ہیں جو شمالی افریقہ سے نقل مکانی کر کے فرانس چلے آئے تھے بلکہ یہ بھی مت بھولیں کہ ان فسادات میں بہت سارے ملحد بھی تھے، جنہیں مذہبی تعصبات سے کوئی سروکار نہیں تھا ان کے پیش نظر معاشی تقاضے تھے‘‘۔ 2005 میں جب فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی یہ کہانی بیچ رہے تھے کہ فسادات کے پیچھے مسلمان بنیاد پرست کارفرما ہیں تو اسے عوام کی اکثریت نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ عام طور پہ فرانسیسی دانشوروں کا خیال یہی تھا کہ فسادات کے خطرات کو کم کرنے کی کلید مسلمانوں اور مزدور طبقات کے علاقوںکے خلاف ہونے والے ریاستی تشدد کو روکنے میں مضمر ہے، انہیں قدم قدم پر قانونی رکاوٹوں، شناخت کرانے کی اذیت اور ٹیکسوں سے لتاڑنے کے بجائے‘ ان کی سیاسی امور میں شراکت کو فروغ دینا چاہیے لیکن بدقسمتی سے سیاسی طور پر ان آبادیوں کو منظم کرنے کی کوششیں ہمیشہ ناکام رہیں۔
اب فرانسیسی صدر میکرون کی حکومت نے ان سماجی و اقتصادی بے انصافیوں کے خلاف ابھرنے والے عمومی ردعمل کو مسلمانوں کے نظریاتی احساسات کے ساتھ جوڑنے کی خاطر پوری قوم کو صف آرا کرنے کی ٹھان لی ہے، جس کے ردعمل میں نئے عالمی منظرنامے پہ ابھرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے میکرون کے بیانات کو اشتعال انگیزی قرار دے کر فرانس سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ بلاشبہ یہ غیر معمولی واقعہ یورپ کو جنگ کے دہانے تک پہنچانا سکتا ہے۔ مسلم ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کے ساتھ ہی مسلم ریاستوں میں فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا دبائو بڑھ رہا ہے۔اب تازہ شورش میں بھی خاصی بڑی تعداد میں عام لوگ صدر میکرون کی متنازع پالیسیوں اور بڑھتی ہوئی معاشی زبوں حالی کے خلاف احتجاج کے طور پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں، لیکن کمال ہوشیاری کے ساتھ فرانسیسی حکومت اس احتجاج کا رخ پیغمبر اسلامﷺ کے حوالے سے مسلمانوں کے فطری ردعمل کی طرف موڑنے میں سرگرداں ہے۔ آزادیٔ اظہار کے ابہامات کی آڑ لے کر نہایت فریب کارانہ طریقوں سے عظیم ترین ہستی کی توہین کے ذریعے اربوں مسلمانوں کی دل شکنی کی دانستہ کوشش انسانیت کو کسی عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی نسبت چلنے والا ہیش ٹیگ ٹرینڈ دیگر مسلم ممالک کے علاوہ سعودی عرب میں بھی سوشل میڈیا پر پہلے درجے پہ پہنچ گیا ہے، معاشی بائیکاٹ کی اس پُرجوش مہم کو اگر شام، عراق، فلسطین اور لیبیا کی سلگتی ہوئی مزاحمتی تحریکوں سے توانائی ملی تو مسلم مملکتوں کے لئے یورپ کے ساتھ حتمی تصادم کو ٹالنا مشکل ہو جائے گا۔ اب تک اسلامی تحریکوں کی آڑ میں بلادِ اسلامیہ کے خلاف امریکی مہم جوئی کے دوران مسلم مملکتیں امریکی مہم کا حصہ بنیں یا پھر غیر جانبدار رہیں لیکن اب اگر ترکی کو ناموسِ پیغمبرﷺ کے دفاع کی خاطر مغرب کے ساتھ جنگ لڑنا پڑی تو کوئی بھی مسلم مملکت اس تنازع سے الگ نہیں رہ پائے گی۔ اگر کسی نے پس و پیش کی جسارت کی تو عوامی غیظ و غضب کا سیلاب اسے بہا لے جائے گا۔ بلاشبہ مغرب کی دم توڑتی تہذیب اورمعدوم ہوتی نسلیں اب جنگ کی متقاضی ہیں کیونکہ سفید فام نسلیں یونہی آسانی کے ساتھ اپنے مذہبی تعصب اور تہذیبی وراثت کو ایشیا اور افریقہ سے نقل مکانی کر کے آنے والے تارکین وطن کی اولادوں کے حوالے نہیں کریں گی۔ مشیتِ ایزدی سے روحِ محمدﷺ اس بکھری ہوئی امت کی وحدت کا وسیلہ بن سکتی ہے۔
اگرچہ اکیسویں صدی میں صورتحال میں کئی نئے عوامل بھی شامل ہو گئے ہیں لیکن مغرب کے لادین معاشروں میں آج بھی فسادات کا بنیادی محرک اقتصادی مسائل ہی بنتے ہیں؛ تاہم پہلی بار اکتوبر 2005ء کے فسادات اور مشتبہ مسلم عسکریت پسندوں کی گرفتاریوں کی مہم کے ساتھ اسلام کو فرانسیسی خدشات کا جُز بنایا گیا تھا۔ اگرچہ اس وقت بھی مغربی میڈیا کے اجتماعی شعور نے شورش کو سہولتوں سے محروم مخلوط آبادیوں کی سماجی و معاشی مشکلات اور سیاسی محرومیوں کا سبب بتایا تھا لیکن ریاستی مقتدرہ نے مخصوص حکمت عملی کے تحت فرانسیسی معاشرے میں ان فسادات کو ایک خاص مذہب سے منسلک خطرات کے ساتھ جوڑ کے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی تھی۔ امر واقعہ بھی یہی تھا کہ اُس وقت جن پُرتشدد مظاہروں کو ڈرامائی انداز میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں بدلا گیا تھا، اصل میں وہ ہائیڈرو کاربن ٹیکس کے نفاذ اور فرانسیسی حکومت کی ماحولیاتی پالیسیوں کا ردعمل تھے، جس سے ایندھن‘ خاص طور پر ڈیزل کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا تھا۔ اسی طرح 17 نومبر 2018ء کو فرانس کے طول وعرض میں اچانک بھڑک اٹھنے والے جن فسادات نے تین لاکھ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا تھا اور ہنگاموں کا مشاہدہ کرنے والے صحافی جان لیک فیلڈ نے جنہیں بغاوت قرار دیا تھا‘ وہ بھی معاشی مشکلات کی کوکھ سے پھوٹے تھے۔ ان پُرتشددکارروائیوں کی ابتدا پیرس میں شہری مزدوروں نے باسٹیل قلعے پر قبضے کے ذریعے کی تھی لیکن جب کسانوں نے یہ سنا تو وہ بھی دیہی علاقوں میں بغاوت پہ کمربستہ ہو گئے۔
میڈیا میں اس پیچیدہ تشدد کی وضاحت یوں کی گئی تھی کہ یہ نوجوان مسلمانوں کا فرقہ وارانہ بنیاد پرستی پہ مبنی رد عمل نہیں بلکہ سماجی بے انصافی کے خلاف بڑھتا ہوا انحراف ہے۔ رائٹرز کے ٹام ہنگان نے سوال اٹھایا تھا ” ہم یہ کیسے لکھیں کہ وہ مسلمان ہیں یا یہ مسلم فسادات ہیں؟ یا ”فرانسیسی انتفاضہ‘‘ جیسی اصطلاحات کو درست ثابت کرنے کیلئے حقائق کہاں سے لائیں؟کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ فسادات ”مسلم محلوں‘‘ میں ہوئے لیکن جب صحافی ان آبادیوں میں جاتے ہیں تو انہیں وہاں ایسے علاقے ملتے ہیں جو کثیر نسلی، کثیر ثقافتی، کثیر لسانی اور کثیر جہتی ہیں۔ سڑکوں پر نظر آنے والے چہروں میں عرب (زیادہ تر شمالی افریقہ سے) افریقہ اور کیریبین کے سیاہ فام، برصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھنے والے (اکثر سری لنکن) اور فرانس کے غریب گورے شامل ہیں۔ بلاشبہ ان ہنگاموں میں ایسے مسلمان ہوں گے جو مساجد میں نماز پڑھنے جاتے ہوں گے لیکن ان میں گرجا گھروں میں جانے والے عیسائی بھی ملوث دکھائی دیتے ہیں، جن میں افریقی انجیلی بشارت کی بڑھتی ہوئی تعداد نمایاں نظر آتی ہے بلکہ پیرس کے مضافاتی علاقوں میں ہمیں غریب یہودی بھی سرگرم ملتے ہیں جو شمالی افریقہ سے نقل مکانی کر کے فرانس چلے آئے تھے بلکہ یہ بھی مت بھولیں کہ ان فسادات میں بہت سارے ملحد بھی تھے، جنہیں مذہبی تعصبات سے کوئی سروکار نہیں تھا ان کے پیش نظر معاشی تقاضے تھے‘‘۔ 2005 میں جب فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی یہ کہانی بیچ رہے تھے کہ فسادات کے پیچھے مسلمان بنیاد پرست کارفرما ہیں تو اسے عوام کی اکثریت نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ عام طور پہ فرانسیسی دانشوروں کا خیال یہی تھا کہ فسادات کے خطرات کو کم کرنے کی کلید مسلمانوں اور مزدور طبقات کے علاقوںکے خلاف ہونے والے ریاستی تشدد کو روکنے میں مضمر ہے، انہیں قدم قدم پر قانونی رکاوٹوں، شناخت کرانے کی اذیت اور ٹیکسوں سے لتاڑنے کے بجائے‘ ان کی سیاسی امور میں شراکت کو فروغ دینا چاہیے لیکن بدقسمتی سے سیاسی طور پر ان آبادیوں کو منظم کرنے کی کوششیں ہمیشہ ناکام رہیں۔
اب فرانسیسی صدر میکرون کی حکومت نے ان سماجی و اقتصادی بے انصافیوں کے خلاف ابھرنے والے عمومی ردعمل کو مسلمانوں کے نظریاتی احساسات کے ساتھ جوڑنے کی خاطر پوری قوم کو صف آرا کرنے کی ٹھان لی ہے، جس کے ردعمل میں نئے عالمی منظرنامے پہ ابھرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے میکرون کے بیانات کو اشتعال انگیزی قرار دے کر فرانس سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ بلاشبہ یہ غیر معمولی واقعہ یورپ کو جنگ کے دہانے تک پہنچانا سکتا ہے۔ مسلم ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کے ساتھ ہی مسلم ریاستوں میں فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا دبائو بڑھ رہا ہے۔اب تازہ شورش میں بھی خاصی بڑی تعداد میں عام لوگ صدر میکرون کی متنازع پالیسیوں اور بڑھتی ہوئی معاشی زبوں حالی کے خلاف احتجاج کے طور پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں، لیکن کمال ہوشیاری کے ساتھ فرانسیسی حکومت اس احتجاج کا رخ پیغمبر اسلامﷺ کے حوالے سے مسلمانوں کے فطری ردعمل کی طرف موڑنے میں سرگرداں ہے۔ آزادیٔ اظہار کے ابہامات کی آڑ لے کر نہایت فریب کارانہ طریقوں سے عظیم ترین ہستی کی توہین کے ذریعے اربوں مسلمانوں کی دل شکنی کی دانستہ کوشش انسانیت کو کسی عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی نسبت چلنے والا ہیش ٹیگ ٹرینڈ دیگر مسلم ممالک کے علاوہ سعودی عرب میں بھی سوشل میڈیا پر پہلے درجے پہ پہنچ گیا ہے، معاشی بائیکاٹ کی اس پُرجوش مہم کو اگر شام، عراق، فلسطین اور لیبیا کی سلگتی ہوئی مزاحمتی تحریکوں سے توانائی ملی تو مسلم مملکتوں کے لئے یورپ کے ساتھ حتمی تصادم کو ٹالنا مشکل ہو جائے گا۔ اب تک اسلامی تحریکوں کی آڑ میں بلادِ اسلامیہ کے خلاف امریکی مہم جوئی کے دوران مسلم مملکتیں امریکی مہم کا حصہ بنیں یا پھر غیر جانبدار رہیں لیکن اب اگر ترکی کو ناموسِ پیغمبرﷺ کے دفاع کی خاطر مغرب کے ساتھ جنگ لڑنا پڑی تو کوئی بھی مسلم مملکت اس تنازع سے الگ نہیں رہ پائے گی۔ اگر کسی نے پس و پیش کی جسارت کی تو عوامی غیظ و غضب کا سیلاب اسے بہا لے جائے گا۔ بلاشبہ مغرب کی دم توڑتی تہذیب اورمعدوم ہوتی نسلیں اب جنگ کی متقاضی ہیں کیونکہ سفید فام نسلیں یونہی آسانی کے ساتھ اپنے مذہبی تعصب اور تہذیبی وراثت کو ایشیا اور افریقہ سے نقل مکانی کر کے آنے والے تارکین وطن کی اولادوں کے حوالے نہیں کریں گی۔ مشیتِ ایزدی سے روحِ محمدﷺ اس بکھری ہوئی امت کی وحدت کا وسیلہ بن سکتی ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ