سہیل وڑائچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چودھری گندم: میاں گنّے!! تمہارا قد تو مجھ سے بڑا ہے ہی، تمہاری کلاس بھی مجھ سے مختلف ہے،میں کسانوں کی واحد کفیل ہوں، تم کارخانہ داروں کے محلوں اور اُن کی بالکونیوں کی آواز بن چکے ہو، تم کو اُگاتے تو غریب کسان ہی ہیں مگر تمہارا سارا فائدہ مل اونر اٹھاتے ہیں۔
میاں گنّا: چودھری غلام گندم! تمہاری سوچ پرانی ہے، مکھی پر مکھی مارنا تمہاری ریت بن چکی ہے، دنیا گندم سے آگے بہت آگے نکل چکی ہے، میں ماڈرن دور کی فصل ہوں، میں نقد آور جنس ہوں، تمہیں تو منڈیوں کے بیوپاری ادھار خریدتے ہیں اور پیسے بھی چھ ماہ بعد دیتے ہیں، میری ادائیگی فوراً ہو جاتی ہے۔ میں تو کسان کو خوشحال کرتا ہوں۔
چودھری گندم: تم ایک تو زمین کو خراب کرتے ہو، کسان کو لوٹتے ہو اور سارا مال مل اونر ہڑپ کر لیتا ہے، چینی بنانے والا بھی ’’عظیم ترین‘‘ چینی برآمد کرنے والا بھی ’’عظیم ترین‘‘ اور حتیٰ کہ چینی درآمد کرنے والا بھی ’’عظیم ترین‘‘ ٹھہرتا ہے۔
میاں گنّا: ہم ہیں تو ایک ہی جہان سے۔ ہم دونوں کے نام بھی گ سے شروع ہوتے ہیں مگر تم عام چیز ہو جبکہ میں خاص چیز۔ میں امراء اور ساہوکاروں سے کندھا ملا کر چلتا ہوں جبکہ تم غریبوں اور کسانوں کی پیٹ کی آگ بجھانے سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
چودھری گندم: میاں گنّے! تم مافیا بن چکے ہو۔ تحریک انصاف ہو یا ن لیگ ہر طرف تمہاری لابی غریب کسان کا استحصال کرکے کروڑوں کماتی ہے۔ تحریک انصاف کے دور میں تو وزیر ہوں یا ترین ہوں یا ہمایوں اختر ہوں، سب نے چینی کی برآمد سے کمایا، سبسڈی بھی لی اور پھر چینی بھی مہنگی کی۔
میاں گنّا: تم اتفاق والوں کو بھول گئے، وہ بھی شوگر مل اونر ہیں، وہ بھی چینی ہی کے کاروبار سے منسلک ہیں۔
چودھری گندم: اتفاق والوں کی شوگر ملیں تو عدالتی احکامات کے تحت دو سال سے بند پڑی ہیں، تحریک انصاف والے گنجائش سے زیادہ پر ملیں چلا رہے ہیں، اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، سارا احتساب ن لیگ کا ہی ہو رہا ہے۔
میاں گنّا: چودھری غلام گندم تمہاری عیاشی ہے، تمہارا نہ کبھی احتساب ہوا ہے نہ ہوگا، گنے اور چینی کا تو ہر سال احتساب ہوتا ہے، گندم اور کپاس نیویں نیویں ہو کر نکل جاتے ہیں، گندم والوں کا احتساب اور پرکھ پرچول ضروری ہے۔
چودھری گندم: میاں امیر گنّا!! یہ بھی تمہاری لابی ہی کی کارستانی لگتی ہے کہ یوکرائن کے کسان سے تو مہنگی گندم خرید کر پاکستان درآمد کی جارہی ہے جبکہ پاکستانی کسان کو گندم کی قیمت کا ریٹ بہت ہی کم مقرر کیا گیا ہے، یہ تو سراسر گندم اگانے والے کسانوں کا استحصال ہے۔
میاں گنّا: چودھری غلام گندم: 1600روپے فی 40کلو گرام کی سپورٹ قیمت درست ہے کیونکہ اگر یہ قیمت بڑھائی گئی تو پھر آٹا مہنگا ہوگا، مہنگائی ہوگی، سارے ملک کا نظام بگڑ جائے گا۔
چودھری گندم: سندھ کابینہ نے 2000روپے فی 40کلو گرام کی سپورٹ پرائس مقرر کی ہے، جو مناسب ہے۔ چینی کاریٹ تین گنا ہو گیا، کسی کارخانہ دار کے کان پر جوں نہیں رینگی، کسانوں کو گنے کی قیمت دینی ہو تو روتے ہیں، چینی بیچنی ہو تو مہنگی سے مہنگی کر دیتے ہیں۔ گندم ہر شخص کی ضرورت ہے، گندم اگانے والے کو فائدہ ہی نہ ہو تو وہ گندم کیوں اگائے گا۔ یوکرائن کے کسانوں سے مہنگی گندم کی خرید کیسے ٹھیک ہے؟ پاکستانی کسان کو اِس کی محنت کا عوضانہ کیوں نہیں دیا جاتا؟
میاں گنّا: چینی کی قیمت مارکیٹ ویلیو کے مطابق ہے، سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کے اصول کے مطابق چینی کی قیمت بڑھی ہے، اِس میں کارخانہ داروں نے کچھ بھی نہیں کیا۔
چودھری گندم: چلو اسی مارکیٹ اکانومی اصول پر چل لو۔ اِس وقت گندم کی مارکیٹ قیمت 2400روپے فی 40کلو گرام ہے، سپورٹ قیمت تو اِس کے مطابق مقرر ہونی چاہئے۔
میاں گنّا: پاگل ہو گئے ہو۔ ملک میں آگ لگ جائے گی، مہنگائی بڑھ جائے گی، آٹا مہنگا ہو جائے گا، ایسا نہیں کرنا چاہئے۔
چودھری گندم: تم تو ملک میں ویسے ہی آگ لگانا چاہتے ہو، آدھے ملک کو غدار قرار دے کر کیا فائدہ ملے گا؟ اگر اِس ملک کے بڑے بڑے لوگ غدار ہیں تو محبِ وطن کون ہے؟
میاں گنّا: ایاز صادق کو اپنی غلطی سرعام تسلیم کرنی چاہئے، اُس کا بیان اُس کی شخصیت کے شایانِ شان نہیں تھا، قومی سلامتی کی باتوں کو یوں سرعام کہنا مناسب نہیں، یہ غیر ذمہ داری کا ثبوت ہے۔
چودھری گندم: پاکستان میں غداری اور کفر کے فتوے ہر وقت تیار رہتے ہیں، زیادہ اہم یہ ہو اگر ہر بات کو جھوٹ اور سچ کے آئینے میں دیکھا جائے، دنیا کا سپریم اصول سچ ہے، دیکھنا یہ چاہئے کہ چاہے معاملہ کتنا ہی حساس کیوں نہ ہو، اِس معاملے میں سچ بولا گیا یا جھوٹ بولا گیا۔ ہمارے ہاں پیمانے ہی غلط بن گئے ہیں۔
میاں گنّا: تو کیا تمہارے خیال میں ایاز صادق جیسے غداروں سے کچھ نہ کہا جائے، اُنہیں کھلی چھوٹ مل گئی تو یہ تو ملک اور فوج کا وقار خاک میں ملا دیں گے، اُن کا احتساب ہونا چاہئے، اُن پر آرٹیکل 6کے تحت مقدمات چلنے چاہئیں۔
چودھری گندم: دنیا میں جب بھی اپنے ملک کے لوگوں کے خلاف غداری کے مقدمات بنائے گئے وہاں انارکی پھیلی، ویت نام کی جنگ کے دوران امریکہ میں میکارتھزم کے نام سے غداری کے تحت مقدمات چلائے گئے، آج تک اُس دور کو تاریک ترین دور سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں شیخ مجیب اور خان ولی خان کی پارٹیوں کو باقاعدہ قانونی طور پر غدار ٹھہرایا گیا، نتیجہ کیا نکلا؟ مشرقی پاکستان الگ ہو گیا اور ولی خان کے مطالبے پر صوبہ سرحد خیبر پختونخوا بن گیا۔
میاں گنّا: تم تو پاکستان کو غداروں کی سرزمین بنانا چاہتے ہو، پاکستان کا دفاع ہی اُس کا سب سے مضبوط شعبہ ہے، اِسی پر سوالات اُٹھائے جائیں گے تو لوگوں کے ذہنوں میں ملکی سلامتی کے بارے میں تشویش پیدا ہونا لازم ہے، اب غداروں اور محبِ وطن لوگوں کے درمیان لکیر کھنچ جانی چاہئے، غداروں کو سزا ملنی چاہئے۔
چودھری گندم: میں سمجھتا ہوں کہ کسی کو ریڈ لائن عبور نہیں کرنی چاہئے، اعتدال ہی بہترین پالیسی ہے، نہ ن لیگ ریڈ لائن عبور کرے اور نہ ہی پی ٹی آئی۔ انتظامیہ بھی غیرضروری طور پر لوگوں کو غدار نہ بنائے۔
میاں گنّا: جو لوگ ریڈ لائن عبور کر چکے ہیں اُنہیں تو سزا ملنی چاہئے۔
چودھری گندم: سزائیں دینے سے معاملہ رکتا نہیں بلکہ مزید آگے چلتا ہے، عمومی طور پر ایاز صادق کے بیان کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا لیکن اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اُسے غدار ہی قرار دے دیا جائے، وہ اسپیکر قومی اسمبلی رہا ہے، شائستہ اطوار ہے، اُس کی ماضی میں کوئی غلطی، کوئی ہلکی کوتاہی بھی پبلک ریکارڈ میں نہیں ہے، ایسے شخص کو یک دم ناپسندیدہ ترین قرار دینا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
میاں گنّا: ملک اِس طرح نہیں چلتے کہ ہر ایک کو عام معافی دے دی جائے، نہ ایاز صادق کو پوچھا جائے نہ نواز شریف کے بیانیے پر سوال کیا جائے؟ اِس طرح تو انارکی پھیل جائے گی۔
چودھری گندم: پکڑ دھکڑ والی انارکی چاہئے یا بیانات والی؟ پکڑ دھکڑ، گرفتاریاں، جیلیں زیادہ انارکی پھیلاتی ہیں، بیانیے سے سوال اٹھتے ہیں، پکڑ دھکڑ سے جذبات ابلتے ہیں، جذبات کا ابلنا خطرناک ہے۔
میاں گنّا: تم چاہتے ہو ملک اسی طرح پسنجر ٹرین کی طرح چلے، گندم اگائیں اور روٹی کھا کر سو جائیں۔ نئی سوچ اپنائو، غداروں کو سزا دو اور ملک کو آگے لے جائو
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ