جام ایم ڈی گانگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم قارئین کرام،، میرا آج کا کالم خان پور ضلع رحیم یار خان کے ایک معروف، پختہ کار، دھرتی واس صحافی قمر اقبال جتوئی اور صوبائی وزیر خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جوان بخت کے درمیان ہونے والے سوال اور گفتگو پر متشمل ہے. قمر اقبال جتوئی اچھا بولنے اور اچھا لکھنے والے وسیبی سوچ کے حامل انسان ہیں.ان کے خواص سے مرئی اور غیر مرئی رابطے ضرور ہیں مگر یہ عوام سے ہیں اس لیے عوامی بات بھی کسی نہ کسی رنگ میں ضرور کرتے ہیں. آئیے قمر اقبال جتوئی کے سوال، جذبات و احساسات اور محسوسات کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں. اس کے ساتھ ساتھ تبدیلی سرکار کے ایک بااثر و طاقت ور صوبائی وزیر خزانہ کے جواب کو بھی سنتے اور پڑھتے ہیں. مخدوم کے فرمان اعلی میں کہاں، کس حد تک اور کسی قسم کی تبدیلی آئی ہے یا نہیں. قمر جتوئی لکھتے ہیں کہ
ُُ ُ ُ شاہد حبیب خاں جتوئی کے پاس تعزیت کرنے کے بعد صوبائی وزیر مخدوم ہاشم جواں بخت سردار مشرف خاں جتوئی کی رہائش گاہ پر گئے، جہاں مشرف خاں نے عمائدین علاقے کی ایک بہت بڑی تعداد کو اکٹھا کر رکھا تھا،جنہوں نے مخدوم ہاشم جواں بخت کو ویلکم کیا، جبکہ میں ذاتی طور پر یہ سمجھ رہا تھا کہ ان میں سے کچھ نہ کچھ لوگ ان سے اتنا طویل عرصے سے رابطہ نہ رکھنے پر کوئی شکوہ کریں گے ، مگر شاید ذہنی غلام لوگ ان کی ڈیڑھ سال بعد آمد کو بھی بہار کا جھونکا سمجھ کر انہیں خوش آمدید کہتے پائے گئے، شرکاء کی ایک بہت بڑی تعداد تھی، اس لئے نام نہیں لکھ رہا کیونکہ جس کا نام لکھوں گا اس نے کبھی بھی شکریہ ادا نہیں کرنا جس کا نام رہ جائیگا او قیامت والے ڈینہہ وی میکوں پکڑی کھڑا ہوسیا.
قمر اقبال جتوئی نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کمال معصومانہ انداز کی مہارت سے نام نہ لکھ کر پردہ داری کا خوب اہتمام کیا ہے. انہوں نے گھنٹی بجا تو دی لیکن گھنٹی باندھی نہیں ہے. کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ سوشل میڈیا کے اس تیز رفتار دور میں سب چہرے، تیل کی دھار کی طرح سب چہروں کی شکلیں اور ان کے تاثرات سامنے آ جائیں گے.اب تو لوکل سے قومی اور انٹر نیشنل سطح تک کی اندرونی اور خفیہ باتیں بھی وقت کے ساتھ ساتھ باہر آنا، نکلنا اور اگلنا شروع ہو چکی ہیں.الیکشن خریدنے،بیچنے، بکنے والوں اور دلالوں کی کہانیاں اور داستان ہرگز راز نہیں رہیں.صوبائی وزیر خزانہ کی جانب سے اپنے میزبان سے مذکورہ بالا پوسٹ میں ذہنی غلام کے الفاظ کی باقاعدہ تفتیش و تحقیق اور اسباب و وجوہات طلب کی گئیں ہیں اور قمر جتوئی کے پاس………. خیر چھوڑیں یہ والی تفصیل جاننے کے خواہش مند حضرات براہ راست رابطہ کرکے چسکا لے سکتے ہیں. اب ہم صحافی کے ایک اہم و مصومانہ سوال کی جانب آتے ہیں. سوال و جواب عام فہم و آسان سرائیکی زبان میں ہے. اس لیے اس کا اردو ترجمہ کرکے پیش کرنے کی بجائے اصل اصیل حالت میں پیش کر رہا ہوں تاکہ لفظوں کی معنویت، مفہوم، ترتیب، نزاکت و لطافت وغیرہ میں کوئی فرق نہ آئے. قمر اقبال جتوئی اپنی پوسٹ میں لکھتے ہیں
ُ ُ اج مورخہ 1نومبر کوں پنجاب دے وزیر خزانہ سئیں مخدوم ہاشم جواں بخت صاحب کوٹلہ پٹھان تشریف گھن آئے ، اُنہاں سردار حبیب خاں جتوئی صاحب مرحوم دی اہلیہ تے شاہد حبیب خاں جتوئی ، عارف خاں جتوئی دی والدہ مرحومہ دی وفات تے تعزیت کیتی، مرحومہ دی مغفرت کیتے دعا وی کیتو نیں ، ایں موقع تے اساں وی موجود ہاسے ، چپ کتھوں رہ سگدوں ،
میں اُنہاں کوں سوال کیتا کہ جڈوں اساں اصل پنجاب ویندوں تے اتھوں دے صحافیاں ، دانشوراں تے سیاسی کارکنیں نال ملاقات تھیندی اے تاں او ساکوں طعنہ ڈیندن جو ایں ملخ تے تہاڈے سرائیکی خطے دے لوک ہمیش توں اقتدار وچ رہ گن ، ول وی تُساں اگر محروم او تاں ساڈے پنجاب والیاں دا قصور نئیں ، اپنڑیاں محرومیاں دے تدارک کیتے اپنڑے انہاں وڈیریاں ، کنوں سوال کرو ،
میں اُنہاں کوں اے وی ڈسایا کہ پنجابی دانشور حضرات ، نواب آف کالا باغ کنوں شروع تھی کراہیں ، سید یوسف رضا گیلانی ، سردار فاروق لغاری، غلام مصطفیٰ کھر، میر بلخ شیر مزاری، مخدوم احمد محمود ، مخدوم شہاب الدین مخدوم الطاف حسین ، کنوں تھیندے ہوئیں پیرا تہاڈے گھر آن سٹیندن، یا اندر دا چور ڈے یا پیرا اگی تے ٹور !!
میڈے ایں سوال دے جواب وچ مخدوم ہاشم جواں بخت صاحب ، فرمایا کہ ، سئیں سوال تاں بڑا اچھا کیتے وے ، ہنڑ جواب ڈتیئیں بغیر کیویں ونج سگدوں ؟ ول اُنہاں کیا آکھیا، اے کجھ آپ وی سنڑو چا. ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، یہاں انہوں نے صوبائی وزیر کی گفتگو کے ویڈیو کلپس شیئر کیے ہیں.تخت لاہور کے ایک صوبائی وزیر کی سوچ اور گفتگو کیسی ہو سکتی ہے یا غاصبانہ و استحصالی نظام و سسٹم کا حصہ رہنے کے لیےکیسی ہونی چاہئیے.یہ حقیقت آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں.ستر سالوں سے سیاستدان ہر دور حکومت میں جو باتیں اور کہانیاں خطہ سرائیکستان کے لوگوں کو سناتے چلے آرہے ہیں.یقین کریں چند لفظوں اور انداز کے علاوہ سوچ و کرداروں میں قطعا کوئی تبدیلی نہیں آئی.بس یوں سمجھیں کہ صرف ٹائیٹل ہی بدلتے چلے آ رہے ہیں.
قمر اقبال جتوئی بھائی ہم سب تخت لاہور کے روبوٹ سیاستدانوں کے نرغے میں ہیں.ہم وسیب واسیوں کی اکثریت تخت لاہور کی خوبصورت کٹھ پتلیوں کے تماش بین لوگوں کی ہے. ذہنی غلام لوگوں کی سوچ کا المیہ آپ خود اوپر بیان کر چکے ہیں.عوام میں جب تک جھمری پن اور خوشامد موجود ہے. ووٹ بنک رکھنی والی بڑی بڑی برداریوں کے سردار جب تک ایک مخصوص و محدود طبقے کی محض سیاسی چوکیداری پر فخر کرتے نظر آئیں گے. کچھ در کے دربان بننے پر خوش ہوں گے تو ایسی سوچ اور ایسے ماحول میں حالات تبدیل نہیں ہوا کرتے.یاد رکھیں باضمیر اور زندہ لوگوں کے حالات عوام تبدیل کرتے ہیں.عوام کی جدوجہد سے تبدیل ہوتے ہیں. کٹھ پتلیوں اور تماش بینوں کا معاملہ بالکل الگ کھیل تماشہ ہے.تخت لاہور سے خطہ سرائیکستان کی واگزاری اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے سب سے پہلے خطے کے عوام کو تماش بینی چھوڑ کر اپنی اپنی انفرادی اور اجتماعی سوچ اور کردار بدلنا ہوگا.ذہنی غلامی کے کنواں سے باہر نکل کر اپنے آپ کو پاک صاف کرنا ہوگا.کوئی مانے یا نہ مانے یہ حقیقت بھی ہمارا بہت بڑا وسیبی مسئلہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے سیاست دانوں میں اکثریت سیاست دان کی نسبت سیاسی سوداگر زیادہ ہیں.اس فرق کو جان کر جینا سیکھنا ہوگا.
………………………….
مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ