نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پھر وہی ہو گا!۔۔۔ رسول بخش رئیس

گزشتہ چار برسوں سے ڈونلڈ ٹرمپ مجھ پر بھاری رہے ہیں کہ میری کم علمی سب کے سامنے کھل کر آ گئی۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا کسی کو معلوم نہیں کہ ریاست اور حکومت میں تمیز رکھی جاتی ہے؟ حکومت بدلتی رہتی ہے‘ آج کسی کی اور کل کسی اور کی۔ کتنی باریاں پاکستان پیپلز پارٹی لے چکی ہے۔ سندھ میں اس وقت اس کی چھٹی یا ساتویں حکومت ہے۔ وفاق میں اس نے چار بار حکومت بنائی۔ میاں نواز شریف اب چوتھی باری کے چکر میں چکرائے پھرتے ہیں۔ کتنی حکومتیں آئیں اور گئیں‘ اور نہ جانے کتنی آئیں گی اور جائیں گی۔ ریاست کے ساتھ یہ معاملہ نہیں۔

ریاست ایک مستقل ادارہ ہے۔ اس کی حفاظت ویسے تو سب کی ذمہ داری ہے‘ آپ کی بھی‘ میری بھی اور اقتدار کی باریاں لے کر ملک کو لوٹنے والوں کی بھی؛ تاہم عملی طور پر حفاظت‘ سلامتی اور امن ریاستی اداروں کے سپرد ہوتا ہے۔ فوج اس حوالے سے سرِ فہرست ہے اور اس سے جڑے دیگر سلامتی کے ادارے۔ حکومت اور ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی‘ قدم سے قدم ملا کر چلنا‘ مشترکہ حکمت عملی کی تیاری‘ مل کر قومی سلامتی و ترقی کے اہداف طے کرنا‘ ذرائع و وسائل کا اہتمام اور سمت کا تعین لازم ہوتا ہے۔ ریاستی اداروں کی بات چلی ہے تو یاد رہے کہ ان میں پارلیمان‘ عدلیہ اور بیوروکریسی بھی شامل ہیں۔

داخلی اور خارجی سطحوں پر اطلاعات جمع کر کے حکومت کو خطرے‘ اندیشوں‘ خدشات‘ امکانات‘ دوستوں اور دشمنوں کے بارے میں تجزیے پیش کرنے والے عسکری اور سول ادارے بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی فیصلہ سازی کسی ایک ادارے کے اندر کبھی نہیں ہوتی‘ سب متعلقہ ادارے بقدر اہمیت اور صلاحیت اس عمل میں حصہ لیتے ہیں۔ پیشِ نظر اور زیرِ غور امور کی اہمیت اور نوعیت کے اعتبار سے سب کا وزن کبھی برابر نہ ہوا ہے‘ نہ ہو سکتا ہے‘ اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔ باریاں لینے والوں کا ہدف ریاستی ادارے ہیں‘ وہ خود یہ کہتے ہیں۔

جب جمہوریت بحال ہونے کے بعد انتقام پر اتر آئی تو ریاستی اداروں کی فطری اور آئینی ترتیب میں بھی فرق پڑا‘ خصوصاً میاں محمد نواز شریف کا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ دیگر اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کر سکے۔ یوں تو دشتِ سیاست میں ساری عمر گزار دی‘ مگر دو تین بنیادی اصولوں کے پاس سے بھی نہیں گزرے۔ سیاست تم یا ہم کی گیم نہیں‘ یہ سب کی ہوتی ہے تو کھیل جاری رہتا ہے۔

دوسرے فریق کو ختم کرنے کی خواہش اور کوشش خود کو لے ڈوبتی ہے۔ ان کے سیاسی مخالفین بھی اس بارے میں کوئی دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔ وہ بھی تو اسی سیاسی مٹی کے بنے ہوئے تھے۔ صبر‘ برداشت‘ رواداری‘ تحمل نہ رہے تو انتقام ہی سیاسی میدان پر حاوی ہو جاتا ہے۔ ہمارے کرم فرمائوں میں سے کوئی بھی ملک‘ قوم‘ سیاست اور عوام کو تقسیم کرنے کے گھنائونے عمل میں معصوم نہیں۔ تاریخ اس بارے میں میاں صاحب کو ذمہ دار ٹھہرائے گی۔ یاد ہے کہ وہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی اور اس کے بعد ان کے اقتدار میں آنے پر کیا نعرے لگاتے تھے‘ کیا تقاریر فرماتے تھے اور اسی طرح ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں کرائے کے مشیروں سے کیسے کیچڑ اچھلواتے تھے۔ اس وقت وہ کسی کے کل پرزے تھے‘ اور جو کام ان کے ذمے لگایا گیا تھا‘ وہ کردار بڑی وفاداری سے انہوں نے نبھایا تھا‘ مگر اپنے اس گماشتی دور میں ایسی تقسیم کروا ڈالی‘ جس کے دھارے آج تک مدہم نہیں ہو سکے۔

یہ درست ہے کہ انہوں نے صدر غلام اسحاق کے سامنے ڈٹ جانے کو ترجیح دی اور ”آزادی‘‘ حاصل کر لی‘ اور مقام بھی بنا لیا‘ لیکن جنہوں نے یہ کھلونا بنایا تھا اور اس کو چلنا بھی سکھایا تھا‘ وہ اس کی ”بد چلنی‘‘ پر کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ ویسے کون سے ایسے معاملات تھے کہ میاں صاحب کے لئے تلوار اٹھا کر میدانِ جنگ میں اترنا ناگزیر ہو گیا تھا؟ جھوٹی انا کا معاملہ لگتا ہے‘ اقتدار کی رسہ کشی اور میاں صاحب کی ‘زیرو سم گیم‘ (zero-sum game) یعنی ہم ہوں گے تو تم نہیں ہو گے۔ یہ کھیل انہوں نے دوسری مرتبہ فاروق لغاری کے ساتھ کھیلا تھا۔

اس وقت وزیر اعظم کے پاس کون سے ایسے اختیارات نہیں تھے کہ جن کی وجہ سے وہ ملک کو سنوار نہیں سکتے تھے۔ ان کے دور میں محلاتی سازش صرف ایوان صدر میں نہیں ہو رہی تھی‘ ان کے قرب و جوار میں بھی تو سازشوں کے جال بنے جاتے رہے۔ کیا کسی کو معلوم نہیں کہ صندوقچیوں میں کیا کچھ بھر کر کون بلوچستان گیا تھا اور وہاں کے نظام عدل سے کیا فیصلہ صادر ہوا تھا اور پھر وہ شخص کس طرح نوازا گیا تھا کہ ایک اعلیٰ ترین مسند پر بٹھا دیا گیا۔ یہ سازش کامیاب ہو گئی اور پھر انہیں مزید پر لگ گئے‘ بس اڑنے ہی لگے۔

انہیں دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ اس کے باعث نشہ اور بھی بڑھ چکا تھا۔ اس خطرے کے پیشِ نظر کہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ انہیں نااہل قرار دے دیں گے‘حملہ کروایا‘ چلو حملہ نہ سہی لاہوریوں کا ایک بڑا جلوس نعرے لگاتا سپریم کورٹ کی عمارت میں داخل ہوا تھا۔ کدھر گیا عدالت کا تقدس؟ خوف و ہراس اتنا پھیلا کہ محترم جج صاحبان کرسیاں چھوڑ کر چلے گئے۔ حکومت اس وقت کس کی تھی؟ جی میاں صاحب کی تھی۔

پیپلز پارٹی تو راستے سے نکل چکی تھی‘ چیف جسٹس سجاد علی شاہ بھی نکالے گئے۔ وہاں پہنچے اور انہیں الٹی میٹم دے ڈالا‘ ہم اکٹھے نہیں چل سکتے‘ مستعفی ہو جائیں یا پھر مواخذے کا انتظار کریں۔ بلوچ سردار بھی میاں صاحب کے اقتدار کی تاب نہ لا سکے۔ شریف انسان تھے‘ میدان میں رہنے کے بجائے کنارا کشی اختیار کر لی۔ پھر میاں صاحب کے سامنے جو بھی آیا‘ انہوں نے حشر نشر کر دیا۔ دو سپہ سالاروں کے ساتھ جھڑپ ہوئی‘ ایک تو خاموشی سے گھر چلا گیا‘ دوسرے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ پرویز مشرف صاحب کا انتخاب بھی اسی طرح کیا جس طرح اپنے ارد گرد دربار میں نوکر شاہی کے کارندوں کا چنائو کرتے تھے۔ ان کی شرط ہمیشہ ”وفاداری‘‘ تھی‘ اور اب بھی ہے۔ راز یہ کھلا ہے کہ وفاداری عسکری قیادت کی ریاست کے ساتھ ہوتی ہے‘ حکومت کے ساتھ نہیں۔ بہرحال میاں صاحب کا فیصلہ آئینی طور پر درست تھا‘ مگر زمینی حقائق سے بالکل متصادم۔ پھر وہی ہوا‘ جو ہونا تھا۔

میں بھی میاں صاحب کی مظلومیت کا حامی تھا‘ اور بہت سے میرے جیسے جمہوریت پسند بھی۔ حالات بدلے تو مشرف کمزور ہوئے‘ اور ہوتے چلے گئے۔ ہماری جمہوریت کے بیرونی دوستوں نے مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے مابین صلح کرا دی تو میاں صاحب کے لئے بھی واپسی کے راستے ہموار ہو گئے۔ باقی تاریخ ہے۔
تیسری بار وزیر اعظم بن ہی گئے‘ مگر کپتان نے ”پنکچروں‘‘ کا واویلا ایسا کیا کہ سیاست کا رنگ ڈھنگ ہی بدل کر رکھ دیا۔ کرپشن‘ بد عنوانی اور حکمرانوں کے بیرونِ ملک دولت کے انباروں کے بارے میں سوالات نے انہیں لاجواب کر دیا۔ کبھی نہ مانتے‘ اور مانتے تو اب بھی نہیں ہیں‘ لیکن پانامہ پیپرز میں ان کا پول ایسا کھلا کہ کوئی جواب بن نہیں سکا۔ کم از کم میرا دل ان کو معصوم ماننے کے لئے تیار نہیں‘ کوشش کر کے دیکھ لی ہے۔

میاں نواز شریف ”مجھے کیوں نکالا‘‘ کا جوابی سوال داغ کر ملبہ ریاستی اداروں پر ڈالنے کی کوششوں میں ابھی تک مصروف ہیں۔ زبان اور لہجے میں تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔ حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ انقلابی اور نظریاتی لقب مل رہے ہیں۔ ”جمہوریت‘‘ کے لئے بہت بے چین ہیں‘ مگر دیوار کے ساتھ اور پھر بند گلی میں رواں دواں شاید آخری کھیل بھی نہ کھیل سکیں۔

About The Author