حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئیے کچھ باتوں پر کھلے دل سے غور وفکر کرتے ہیں،
آقائے صادق وکریم حضرت محمد مصطفیٰۖ نے ارشاد فرمایا
” صفائی نصف ایمان ہے”
دل پر ہاتھ رکھئے، اپنے چار اور گلی محلوں، سڑکوں، پارکوں، بازاروں اور دیگر مقامات کا کھلی آنکھوں سے جائزہ لیجئے، نصف ایمان کی کیا صورت بن پائی؟۔
صفائی نصف ایمان ہے، حفظان صحت کے بنیادی اصول صفائی کو ذہن میں لائیے، آخر کیا وجہ ہے کہ ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کیلئے ہم نے اس ارشاد گرامی قدر سے رہنمائی نہیں لی۔
ایک ستم اور بھی ہے وہ یہ کہ بعض بڑے شہروں میں صفائی کیلئے جو ٹھیکے دئیے گئے ہیں وہ بھی کچھ بڑوں کی کمائی کا ذریعہ بن گئے، اچھا اگر گلیاں، سڑکیں، بازار، پارک اور دوسرے مراکز صاف ستھرے ہوں، عملہ صفائی اور ہر شہری انفرادی طور پر اپنی ذمہ داری ادا کرے تو سوچئے ایک صاف ستھرا ماحول جو حفظان صحت کے اولین اصول پر استوار ہو ہماری زندگی میں کیا تبدیلیاں لائے گا؟
معاف کیجئے گا! ارشادات نبویۖ پر سر دھننے اور وجد میں آنے کے ساتھ حق بلاشک کا نعرہ مارنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ عمل کا راستہ اختیار کیا جائے۔
باہر کا ماحول صاف ستھرا ہو تو انسان کا اندر بھی اس کا اثر قبول کرتا ہے، ظاہری اور باطنی صفائی ”طہارت” کا مرحلہ طے کر کے فرد اور سماج دونوں اپنے حصہ کی زمین کو جنت بنا سکتے ہیں۔ یہاں ہم ہیں کہ اپنی اپنی جنت کیلئے دوسروں کی زندگیاں جہنم بنانے پر ہمہ وقت تلے رہتے ہیں۔
آقائے صادق وکریم حضرت محمد مصطفیٰۖ ارشاد فرماتے ہیں
”علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر واجب ہے”۔
علم بہت آگے کا مرحلہ ہے، آئیے علم کے دروازے پر لیجا کر کھڑا کرنے والی تعلیم پر بات کر لیتے ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ تعلیم کی روشنی علم تک رہنمائی کرتی ہے۔
22 کروڑ کے سماج میں اگر ہم 20 کروڑ مسلمان بھی ہیں (یاد رکھئے ہم صرف پاکستان کی بات کر رہے ہیں نیل کے ساحل سے کاشغر تک کی نہیں)
تو ان 20 کروڑ میں شرح خواندگی کیا ہے، عالمی اداروں اور خود کو فریب مسلسل دینا ہے تو 50 فیصد ورنہ کڑوا سچ یہ ہے کہ مشکل سے 37 سے 40 فیصد
وہ بھی ہمارے اپنے اس اصول کے تحت کہ ناظرہ قرآن پڑھا اور کسی بھی طرح دستخط کرلینے والا خواندہ ہے۔ 37 سے40 فیصد کے درست اعداد وشمار ہوں بھی تو تعلیم نے ان کی زندگیوں میں کیا تبدیلی پیدا کی؟
سوال بہت اہم ہے چیں بجیں ہونے کی ضرورت نہیں۔
ہم دو طرح کی بدقسمتیوں سے دوچار ہیں
اولاً یہ کہ ہماری ریاست اور ریاست میں برسراقتدار آنے والی حکومتوں (ماسوائے ذوالفقار علی بھٹوکے) نے کبھی بھی تعلیم کو اولین ترجیح قرار نہیں دیا۔
ظاہری طور پر کئے جانے والے دعوے اور فروغ علم کے منصوبے سب کھوکھلے نکلے۔
حساب کرلیجئے کہ 22 کروڑ کی آبادی میں اگر واقعتا 40 فیصد افراد خواندہ ہیں تو کیا یہ قابل فخر بات ہے؟
آج بھی لاکھوں بچے تین مرحلوں پر سکول چھوڑ جاتے ہیں پانچویں سے دسویں تک کی تعلیم کے دوران سکول چھوڑ جانے والوں کا مشترکہ موقف ہے گھریلو حالات نے غم روزگار کا طوق گلے میں ڈال دیا۔
اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟
ضمنی بات ہمارے یہاں کے تعلیمی نصاب ہیں
نرم سے نرم الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ طبقاتی نصاب ہائے تعلیم ہیں جو صرف حاکم اور محکوم پیدا کرتے ہیں۔
فقیر راحموں کے بقول بند دماغ حاکم اور محکوم۔
ثانیاً یہ کہ پچھلے 40 برسوں سے ایک سازش کے تحت تعلیم یعنی آگہی کو تجارت بنا دیا گیا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سرکاری تعلیمی اداروں کو ہر سطح پر برباد کیا گیا۔
ان کی جگہ کھمبیوں کی طرح اُگ آئے نجی تعلیمی اداروں سکولوں سے یونیورسٹیوں تک نے لے لی۔
یہ کاروباری ادارے ہیں ان کے مالکان دوتین عشروں میں ارب پتی ہوگئے بعض نے اس تجارت کے پیسے سے دوسرے منفعت بخش ادارے بھی بنا لئے،
ذرا ان کاروباری تعلیمی اداروں کے ذہین طلباء وطالبات کی ذہانت اور حاصل کردہ تعلیم کا امتحان لے کر تجزیہ کیجئے اپنے پڑھے ہوئے مضمون پر ان کی گرفت چودہ طبق روشن کر دے گی۔
یہی عرض کرنا چاہ رہا ہوں جو تعلیم فقط آقا و محکوم اور لکیر کے فقیر پروان چڑھا کر معاشرے کو دے اس تعلیم کی بدولت کتنے طلباء طالبات درعلم تک پہنچیں گے؟
آسان لفظوں میں یہ کہ کسی بھی مضمون میں ایم اے کرنے والا طالب علم اپنی تعلیم اور شعور (اگر عطا ہوا ہو یا حصول کی کوشش کی ہو) کے ساتھ تحقیق وجستجو کے ذریعے علم حاصل کرتا ہے؟
یہ غور طلب امر ہے اور سچ یہ ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نصاب کے ذریعے موجودہ نظام کے کل پرزے تیار کرتے ہیں صاحبان علم نہیں۔
آقائے صادق وکریم حضرت محمد مصطفیٰۖ ارشاد فرماتے ہیں
”تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو اپنے لئے پسند کی گئی چیز اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرے”
ہم تو اپنے حصے کی روٹی میں مستحق بھائی کو شریک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے، بہنوں اور بیٹیوں کو ان کا شرعی حق دینے کی بجائے اسے معاف کروانے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔
دو باتیں ہمارے یہاں عام ہیں
اولاً یہ کہ بہنوں بیٹیوں کی تربیت اور شادی بیاہ پر اخراجات ہوئے اب جو باقی ہے وہ بھائیوں کا۔
ارے کیوں بھئی!
یہ بھائیوں کی تربیت اور شادی بیاہ کے اخراجات لاٹری میں نکلے تھے کیا
وہ بھی تو والدین نے ہی اُٹھائے تو پھر بہنوں بیٹیوں سے نامناسب برتاؤ کیوں۔
کیا ہم ایثار کا مطلب سمجھ پائے ہیں، پسند کے معاملے میں جو ذاتی خوشی ہم حاصل کرتے ہیں کیوں نہیں ویسی خوشی کے اپنے بھائی کیلئے طلبگار نہیں ہوتے؟
آقائے صادق وکریمۖ کے تین ارشادات گرامی جو بالائی سطور میں آپ کی خدمت میں عرض کئے چند ساعتیں نکال کر ان پر غور کیجئے اور پھر بتائیے کہ ہم بحیثیت مسلمان کہاں کھڑے ہیں؟
(عید میلاد النبیؐ کی مناسبت سے لکھی گئی ایک غیر روایتی تحریر )
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ