محمد شعیب عادل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سال 2008 کے امریکی انتخابات میں براک اوبامہ صدارتی امیدوار تھے۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں اعلان کیا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو افغانستان سے امریکی فوجی واپس بلالیں گے۔ ان دنوں میرا دفتر ٹمپل روڈ، لاہور کے علی پلازہ میں تھا جہاں میرے علاوہ ایک اور پبلشر اور کچھ وکیلوں کے دفتر تھے۔
جب اوبامہ صدر منتخب ہوگئے تو ساتھ والے دفتر میں ایک عثمان نامی وکیل تھے وہ میرے دفتر آئے ۔ نہایت خوش تھے اور پرجوش انداز میں بولے کہ اب اوبامہ جیت گیا ہے اور افغانستان سے امریکی فوجیں نکل جائیں گی۔ ایسا انھوں نے اس لیے کہا تھا کہ میں افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی کے حق میں تھا اور ہماری اکثر بحث ہوتی تھی اور میری رائے یہ تھی کہ اگر افغانستان سے امریکی دستے نکل گئے تو آئی ایس آئی طالبان کے ذریعے ایک بار پھر افغانستان پر قبضے کی جنگ لڑے گی ۔اس کے ہاتھ تو کچھ نہیں آئے گا مگر وہاں قتل و غارت کا ایک نیا بازار گرم ہوجائے گا ۔ انہی دنوں ڈرون حملے بھی جاری تھے اور میں ان حملوں کی حمایت کرتا تھا اور یہ سب کچھ نیا زمانہ کے اداریوں اور مضامین میں چھپتا بھی تھا۔
میں نے وکیل صاحب کو بتایا کہ گو وہ صدر منتخب ہوگئےہیں لیکن فوجیں نکالنا ان کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ پاکستان اپنی دفاعی گہرائی والی پالیسی تیاگنے کو تیار نہیں اور طالبان کے ذریعے وہاں مسلسل بدامنی پیدا کررہا ہے اور جب تک پاکستان کو لگام نہیں دی جائے گی ایسا ناممکن ہے۔ میں نے کہا کہ بھارت وہاں پر بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے وہاں اس نے مختلف پراجیکٹ شروع کر رکھے ہیں جبکہ پاکستان وہاں فساد کے علاوہ کچھ نہیں کرتا؟ وغیر ہ وغیرہ۔
وکیل صاحب ایک محب وطن شخص تھے، آئی ایس آئی اور پاکستان آرمی سے محبت کرتے تھے بلکہ وہ آئی ایس آئی کے لیے کام بھی کرتے تھے اور جب میں اس طرح کی گفتگو کرتا تو وہ غصے میں آجاتے تھے اور مجھے کہتے کہ باز آجاؤ وگرنہ وہ تمھیں اٹھا لیں گے ۔
سوال یہ ہے کہ وہ آئی آیس آئی کے لیے کیسے کام کرتے تھے؟
ایک دن سہ پہر کو تھکے ہارے دفتر آئے اور اپنے کمرے میں جانے کی بجائے میرے دفتر بیٹھ گئے۔ میں نے پوچھا خیر ہے آج اتنی دیر سے تو کہنے لگے کہ سارا دن نادرا کے دفتر میں لگ گیا ہے۔ میں نے کہا خیر تھی تو بولے یار دو، سرداروں (یعنی سکھوں کے) شناختی کارڈ بنوانے تھے، اوپر سے آرڈر تھا کہ ایک ہی دن میں سب کام مکمل ہونا چاہیے۔ پہلے ان کا یونین کونسل سے برتھ سرٹیفیکٹ بنوایا اور بڑی مشکلوں سے نادرا میں انٹری کروائی اور شناختی کارڈ بنوایا جو کل یا پرسوں ملے گا۔ میں نے کہا سردار کہاں سے آئے ہیں تو بولے مجھے پتہ نہیں لیکن میرے ذمہ انھوں نے کام لگایا تھا وہ کر دیا ہے۔
میں نے پوچھا کہ آپ کا تعلق آئی ایس آئی سے ہے تو کہنے لگے وہاں میرے دوست ہیں اور وہ مجھے کام دیتے رہتے ہیں ۔میں بھی پاگل تھا اور اسے چڑانے کے لیے پھر آئی ایس آئی کی حرامزدگیوں کی باتیں شروع کردیتا اور وہ غصے میں اپنے دفتر چلے جاتے۔
اور پھر ایک دن انھوں نے اپنا انتقام لے لیا۔۔۔۔ اس کی تفصیل پھر کبھی سہی
نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے پاکستان کو کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آپ ہمارے ساتھ ہیں یا مخالف تو جنرل مشرف نےکہا کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ کریں گے۔۔۔۔ یہ تو تھا سرکاری بیان ۔
جنرل مشرف تو حامی تھے مگر پاکستان آرمی کے جرنیل جو مکمل جہادی ہوچکے تھے وہ اس کے قائل نہیں تھے اور پاکستان نےامریکہ سے امداد لینے کے لیے دوغلی پالیسی بنا لی۔۔۔ کچھ طالبان کو پکڑوا دیتے اور کچھ کی پشت پناہی کرتے۔۔۔۔ بلکہ جنرل مشرف کے دور میں ہی فوج دو گروہوں میں بٹ گئی تھی ایک دہشت گردی کے خلاف تھا اور ایک حامی ۔۔۔۔ اس کا مظاہرہ ہم نے لال مسجد آپریشن کے موقع پر دیکھا۔۔۔۔
برطانیہ کی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی سکس نے جنرل مشرف کو کہا کہ لندن انڈر گروانڈ ریلوے میں بم دھماکے کرنے والے لال مسجد میں بیٹھے ہیں انہیں ہمارے حوالے کیا جائے۔ جنرل مشرف انہیں برطانیہ کے حوالے کرنا چاہتے تھے مگر آئی آیس آئی مخالف تھی۔آئی ایس آئی کو پہلے ہی جنرل مشرف پر بہت غصہ تھا جس میں اس نے طالبان کے اہم رہنما امریکہ کے حوالے کر دیے تھے۔ اور یہ کام ایم آئی یعنی ملٹری انٹیلی جنس کرتی تھی۔
لال مسجد کے موقع پر پہلی دفعہ ایم آئی اور آئی ایس آئی آمنے سامنے آئے۔ کئی دن تک مذاکرات ہوئے اور آئی ایس آئی کے نمائندے طالبان کے حمایتی تھے جن میں صحافی بھی شامل تھے ۔ جنرل مشرف کا کہنا تھا کہ لندن بم دھماکوں کے مجرم حوالے کردو باقی آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا ۔۔۔ لیکن آئی آیس آئی اڑی رہی۔۔۔ کارروائی کرنے سے پہلے طالب علموں بمعہ خواتین طالب علموں کو باہر نکلنے کو کہا گیا اور پھر ایک بڑی تعداد باہر نکل آئی۔ یاد رہے کہ مولانا عبدالعزیز برقعہ پہن کر باہر نکلے تھے اور نہیں نکلے تو دہشت گرد نہیں نکلے تھے اور پھر ایک خوفناک آپریشن ہوا۔۔۔۔۔ جس کےردعمل میں ملک میں بم دھماکوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ