نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوہدری پرویز الٰہی نے درست کہا ہے۔ عمران حکومت کی جانب سے گندم کی ’’امدادی‘‘ قیمت میں دو سو روپے فی من کا اضافہ ’’مذاق‘‘ ہی محسوس ہورہا ہے۔ذاتی طورپر اگرچہ میں اسے ’’مذاق‘‘ کے بجائے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تصور کروں گا۔ مذکورہ قیمت کو طے کرنے سے قبل حکومت ہرگز یہ کوشش کرتی نظر نہیں آئی جس کی بدولت اِن دِنوں بازار میں گندم کی فی من قیمت کا پتہ لگایا جاتا۔اس قیمت کاجائزہ لیتے ہوئے یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنا ضروری تھا کہ گندم کی فصل کٹے ابھی چھ ماہ ہی گزرے ہیں۔آنے والے دنوں میں آٹے کی قیمت میں مزید اضافہ ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔گندم کی بوائی کے سیزن سے چند ہی دن قبل حکومت نے معقول قیمت کے اعلان سے کسان کو زیادہ گندم اُگانے کی ترغیب نہ دی تو آئندہ برس آٹے کا بحران ناقابلِ برداشت حد تک گھمبیر تر ہوجائے گا۔
جرمن سفیر ایچ ای برن ہارڈ کا ایم این ایس زرعی یونیورسٹی کا دورہ
گزشتہ برس کے بحران سے گھبراکر حکومت نے رواں برس فصل کٹنے کے موسم میں ریاستی قوت کو بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ پنجاب کے کئی قصبوں میں علاقے کے ’’شرفا‘‘ اور بااثر شمار ہوتے ’’ڈیرے داروں‘‘ کے گھروں پر چھاپے پڑے۔کئی صورتوں میں انہیں ذاتی استعمال کے نام پر گندم کو بھڑولوں میں ذخیرہ کرنے کی روایتی سہولت سے بھی محروم کردیا گیا۔جن علاقوں میں ریاستی دبدبے کے بے دریغ استعمال سے گندم خریدی گئی وہاں سے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی اپنے حامیوں سے منہ چھپاتے رہے۔کئی ایک نے اُکتاکر قومی اسمبلی میں اس کی بابت دہائی بھی مچائی۔
سکولوں میں اساتذہ کی انکوائریوں کو مکمل کرنے کیلئے افسروں کو تربیت دینے کافیصلہ
شہروں میں مقیم مجھ ایسے کالم نگار گندم کی خریداری کی ضمن میں اختیار کردہ زورزبردستی والا رویہ یقینا نظرانداز کردیتے اگر ہمیں ان دنوں آٹا مناسب داموں مل رہا ہوتا۔ بازار میں گندم مگر ان دنوں ان داموں سے تقریباََ دوگنی قیمت پر میسر ہے جو حکومت نے کسان کو اس کی خریداری کے لئے ادا کئے تھے۔گندم فروخت کرنے والے اجارہ دار ہی موجودہ قیمت کی بدولت بے پناہ منافع کمارہے ہیں۔کاشت کار کو کئی صورتوں میں اتنی رقم بھی نہیں ملی جو اس سال گندم اُگانے میں خرچ ہوئی تھی۔
ان حقائق کے ہوتے ہوئے بھی حکومت ’’امدادی قیمت‘‘ میں اضافے کا اعلان کرنے سے گریز کرتی رہی۔وفاقی کابینہ میں ان افراد کی پالیسی سازی کے عمل پر کامل اجارہ داری ہے جو بنیادی طورپر بڑے سیٹھوں کے مفادات کے نگہبان ہیں۔راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر ٹی وی سکرینوں پر ’’غریب‘‘ کے دُکھوں کی بابت فلمی انداز والی دہائی مچاتے رہتے ہیں۔کسان کو ترغیب دینے والی قیمت کا تعین کرنے سے مگر وہ بھی گھبراتے رہے۔بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ اگر شہروں میں آٹے کے دام ناقابلِ برداشت ہوگئے تو حکومت کے خلاف غصہ بڑھے گا۔ نچلے متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوان احتجاجی ہجوم میں شامل ہونا شروع ہوجائیں گے۔ندیم افضل چن وہ واحد مشیر رہے جو کابینہ کے تقریباََ ہراجلاس میں گندم کی بابت دہائی مچاتے رہے۔وزیر اعظم کو اس کی وجہ سے اکثر ناراض بھی کیا۔
اغوائے برائے تاوان کے مختلف واقعات ‘ خاتون سمیت 3 مغوی بازیاب‘ 1ملزم گرفتار
آج کے Digitalدور میں یہ طے کرنے کے لئے کسی آئن سٹائن کی ضرورت نہیں کہ کاشت کار کو ایک من گندم اُگانے کے لئے کتنی رقم خرچ کرنا ہوتی ہے۔یہ رقم طے کرنے کے بعد اس میں مناسب منافع کو یقینی بنانے والی ’’امدادی قیمت‘‘ کے اعلان کی ضرورت تھی۔ سنجیدگی سے اس ضمن میں لیکن کام ہی نہیں ہوا۔اپنے تئیں ’’فیاضی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میں فقط دو سو روپے فی من اضافے کا اعلان کردیا گیا۔
ہماری حکومت بہت ’’باخبر‘‘ ہونے کی دعویدار ہے۔ وزیر اعظم کوبروقت ا ٓگاہ رکھا جارہا ہے کہ لندن میں مقیم نواز شریف مبینہ طورپر اسرائیل اور بھارت کے کس نمائندے سے گفتگو کے بعد PDMکے جلسوں سے ’’غداری‘ ‘والے خطاب فرمارہے ہیں۔ایسی ’’باخبر‘ ‘حکومت کو ہر صورت علم ہونا چاہیے تھا کہ وسطیٰ پنجاب کے اوکاڑہ اور پاک پتن جیسے علاقوں میں بھی گندم کی بوائی سے قبل آڑھتیوں کے نمائندے کاشت کاروں کو ’’پیشگی‘‘ کی صورت کتنی رقم ادا کررہے ہیں۔حکومت کی جانب سے ’’امدادی قیمت‘‘ کا تعین اس کے تناسب سے ہونا چاہیے تھا۔ یہ حقیقت دریافت کرنے کے لئے بھی کسی ’’جیمزبانڈ‘‘ کی ضرورت نہیں کہ پنجاب میں اُگائی گندم فقط پاکستان کے شہریوں کے استعمال کے لئے ہی نہیں بوئی جاتی۔خیبرپختونخواہ کے وسیع تر علاقوں کے علاوہ افغانستان بھی ہماری گندم اور آٹے کا خریدار ہے۔’’منڈی‘‘ کا بھرپور تجزیہ درکار تھا۔ انگریزی کا ایک محاورہ اصرار کرتا ہے کہ آپ ’’منڈی‘‘ سے جیت نہیں سکتے۔ ریاستی جبر کا بے دریغ استعمال بھی طلب ورسد پر منحصر Dynamicsکا توڑ فراہم نہیں کرتا۔
حضرت محمدؐ کی آمد سے دنیا سے کفر و شرک کے اندھیرے دور ہوئے: آر پی او
’’ذخیرہ اندوزی‘‘ کے خلاف دھواں دھار بیانات محض بڑھک بازی ہیں۔چینی سے وابستہ ’’مافیا‘‘ کے خلاف ’’جنگ‘‘ کی بدولت ایسی بڑھک بازی کی محدودات شرمناک حد تک بے نقاب ہوچکی ہیں۔حکومت جب سے ’’چینی مافیا‘‘ کے خلاف متحرک ہوئی تو چینی جن داموں پر بازا رمیں میسر تھی ان دنوں اس سے تقریباََ 40گنازیادہ رقم ادا کرنا ہوتی ہے۔آئندہ چند ہفتوں میں گنے کی فصل بھی تیار ہوجائے گی۔ چینی بنانے والے اجارہ دار اسے کسانوں سے خریدنے میں نخرے دکھائیں گے۔ ان کے خلاف لئے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی ’’مجبوریاں‘‘ گنواتے رہیں گے۔
بہتر وولٹیج کیساتھ بجلی فراہمی کیلئے نئے گرڈ سٹیشنز تعمیر کئے جا رہے ہیں : میپکو چیف
ہر فصل کو اُگانے کے لئے جو Inputلازمی ہیں انہیں نگاہ میں رکھنا ہوتا ہے۔معیاری بیج کی قیمت سے شروع ہوکر زمین کی تیاری کے اخراجات ہیں۔پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت اس میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔کھاد کی قیمت کے علاوہ پانی کی فراہمی کے لئے ٹیوب ویلوں کا خرچہ بھی ہے۔اس کے علاوہ فصل کی نگہداشت ہے اور اسے کیڑوں سے بچانے والی ادویات کا استعمال۔ ان حقائق کو ٹھوس اعدادوشمار سے جان لینے کے بعد ہی ’’امدادی قیمت‘‘ کا تعین ہونا چاہیے۔رزاق دائود،ندیم بابر،زلفی بخاری اور شہزاد اکبر جیسے تگڑے وزیر مگر ایسے حساب کتاب کے عادی نہیں۔ان کی ترجیحات قطعاََ مختلف ہیں۔ عمران خان صاحب کا اصل ’’جنون‘‘ بے رحم احتساب ہے۔ ’’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو NROنہ دینے کی ضد۔ایسے حالات میں گندم کی فصل سے متعلق Inputsکا حساب لگانے کی کسی تگڑے وزیر یا مشیر کو فرصت ہی میسر نہیں۔اسی باعث ’’امدادی قیمت‘‘ والے ’’مذاق‘‘ رونما ہوتے ہیں۔
دُنیا بھر کے کئی نامور ماہرین گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل دہائی مچارہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب ہم انسانی خوراک کے لئے بنیادی تصور ہوتے کاشت کاری کے جن Patternsکے عادی رہے ہیں وہ دورِ حاضر میں کارآمد نہیں رہے۔ ’’خوراک کا بحران‘‘خوفناک حدوں کی جانب بھاگ رہا ہے۔ تشویش کے جذبے سے مغلوب ہوکر جو تحقیق ہوئی وہ فریاد کررہی ہے کہ ممکنہ قحط سالی کے تدار ک کے لئے کسانوں کو کاشتکاری کے نئے طریقوں سے آگاہ رکھا جائے۔دنیا کے کئی ممالک میں یہ رحجان نمودار ہورہا ہے کہ کسان شہروں اور کاروباری حضرات کی کھپت کے لئے Mono Cropکی عادت ترک کردے۔
سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ ہر کسان کے پاس جو رقبہ ہے وہ اسے فقط ایک ہی فصل مثال کے طورپر گنا یا کپاس اُگانے کے لئے وقف نہ کرے جو ’’نقد آور‘‘ شمار ہوتے ہیں۔محض ایک ہی جنس اُگانے کے لئے رقبوں کو وقف کرنے کے بجائے ان رقبوں میں روزمرہّ ضرورت کی وہ تمام اشیاء اُگانے کی کاوش ہوجو ہر ملک میں روایتی کھانوں کے لئے لازمی ہوتی ہیں۔اس کی بدولت بالآخر کسی بھی گائوں کو سبزیاں،پیاز یا لہسن خریدنے کے لئے ’’دوسروں‘‘ پر ا نحصار کی ضرورت نہیں رہے گی۔ہر گائوں خوراک کے حوالے سے تقریباََ خود کفیل ہوجائے گا۔بازار کا محتاج نہیں رہے گا۔ اس تحریک کو Localismکا نام دیا گیا ہے اور یہ ہر صورت بالآخر دُنیا بھر میں حاوی ہوتی نظر آرہی ہے۔
’’مافیا‘‘ کو نیچا دکھانے کی جنگ سے فرصت ملے تو ہمارے حکمرانوں کو مذکورہ سوالات پر توجہ دینا ہوگی وگرنہ خوراک کے حوالے سے مختلف النوع بحران نمودار ہوتے رہیں گے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ