میں کوئی روایتی تبصرے باز آدمی نہیں ہوں، جسے چار و ناچار ہر کتاب پر تبصرہ کرنا لازم ہوا کرتا ہے- نہ ہی میں عادی فلیپ باز ہوں جس نے نمونے کا ایک ہی فلیپ پہلے سے لکھ رکھا ہوتا ہے اور اسے بس مصنف کا نام اور کتاب کا عنوان لکھنا ہوتا ہے- میں ایسا کہانی باز بھی نہیں ہوں جسے اس مجبوری کے تحت لکھنا ہوتا ہے کہ اگر میں کسی کو مولوی لکھوں گا تو جواب میں مجھے اسے حاجی لکھنا ہوگا- ہاں جن سے محبت ہوتی ہے اور قربت و محبت کا دعوا ہوا کرتا ہے، ان سے میں بصد اصرار کہتا ہوں کہ میری کسی تصنیف پر لکھیں-
جیسے شاہ جی(حیدر جاوید سید) ہیں، ان سے بار بار کہتا ہوں کہ میرے ساری کے نام لکھے خطوط کے مجموعے پر کالم لکھیں- شاکر حسین شاکر کو کہتا رہتا ہوں کہ بھئی ہر کس و ناکس کی کتاب کے لیے وقت نکالا جاتا ہے لیکن میری کتاب پر آج تک کالم لکھا نہیں جاسکا- لیکن یہ بھی کہتا اگر طبعیت نہیں راغب ہوتی تو مت لکھیں، زبردستی لکھنا بھی کوئی لکھنا ہوتا ہے- اب ایسا بھئی نہیں کہ کسی نے اس کتاب پر لکھا نہیں – انجمن ترقی پسند مصنفین نے جب میری کتاب ساری کے نام کی تقریب پذیرائی منعقد کی تھی تو اس وقت پاک ٹی ہاؤس لاہور میں اس کتاب پر معروف افسانہ نگار،نقاد ڈاکٹر پروفیسر عالم، ڈاکٹر اسلم طارق، افسانہ نگار و نقاد مصباح رشید(افسوس وہ ہم میں نہیں رہے)،آدم شیر، بھائی وحید،شمس رانا اور خاص طور پر عابد حسین عابد نے یادگار مضامین پڑھے تھے- شاہ جی (حیدرجاوید سید) نے بھی اس دن ایک مضمون پڑھ کر ہماری بہت حوصلہ افزائی کی تھی- فہیم عامر کامریڈ نے بھی بہت اچھا مضمون پڑھا تھا- شہزاد نے تو باقاعدہ اس کا پوسٹ مارٹم کردیا تھا-
اس کے علاوہ ہماری بہت ہی عزیز دوست ام رباب نے ایک مضمون لکھا تھا تو اس دن ہمیں بہت خوشی ہوئی تھی- اب قیصر ساجد کہہ رہے ہیں، انھوں نے “ساری کے نام” پڑھ ڈالی ہے، “کتاب واقعی اچھی ہے”- یہ میرے وہ دوست احباب ہیں جو معیار کی پرکھ کرتے ہیں اور پھر فیصلہ کرتے وقت تعلق خاطر کو ایک طرف اٹھاکر رکھ دیتے ہیں- مجھے ان کی یہ ایماندارنہ سفاکیت اچھی لگتی ہے- کیونکہ میں خود بھی ایسی سفاکیت سے اپنی فیلڈ میں کام لیتے رہتا ہوں- میں اتنی لمبی چوڑی تمہید کس لیے باندھ رہا ہوں؟ اس لیے کہ میری بزرگ دوست سیدہ شہناز نقوی کی ادبی تحریروں کے مجموعے پر مشتمل کتاب “نیل گگن تلے” مجھے مل گئی ہے- کیا اتفاق ہے کہ ایک روز پہلے میری شہناز نقوی سے فیس بک پہ چیٹ ہوتی ہے-
ان سے معذرت کرتا ہوں کہ “نیل گگن تلے” پر لکھ اس لیے نہیں پایا کہ کتاب ملی نہیں ہے اور پڑھ بھی نہیں سکا- انہوں نے فوری پتا مانگا اور مجھے کہا کہ کل وہ یہ پوسٹ کردیں گی- جس دن انہوں نے کتاب پوسٹ کی، اس دن میں لاہور پہنچ چکا تھا اور ناول “کفار مکّہ” کے سلسلے میں ناشر محمد فہد سے ملنا تھا- میں نے گگن تلے ان سے نہیں مانگی تھی- انہوں نے مجھے منیر مومن کی بلوچی زبان میں لکھی نظموں کے مجموعے “گمشدہ سمندر کی آواز” بزبان اردو ادا کی- ان ترجموں کو احسان اصغر نے کیا جنھوں نے اس کے لیے باقاعدہ بلوچی زبان سیکھی- اور زبیر مرشد کی کہانیوں کا مجموعہ “دبی سانسوں کا شور” دیا – ان پر تبصرہ دونوں کتابوں کے پڑھنے کے بعد ہوگا-
لیکن جب میں ان سے رخصت ہونے کے لیے عکس پبلیکشنز کے باہر آیا تو فہد کہنے لگا، ایک لمحہ ٹھہریے گا حسینی صاحب! سیدہ شہناز نقوی صاحبہ کی نئی کتاب بھی لیتے جائیں- نیل گگن تلے —- میں نے وہ کتاب رکھ لی- اور میں ایک ٹیکسی میں بیٹھا تو وہیں تجسس سے مجبور ہوکر کتاب کو کھول کر پڑھنا شروع کردیا- میں اپنے دوست اور انتہائی زبردست استاد و سربراہ اردو ڈیپارٹمنٹ بی زیڈ یو ملتان قاضی عابد کے لکھے پیش لفظ جو انہوں نے شہناز نقوی کے ناولٹ پر لکھا اور علی اکبر ناطق کے لکھے تبصرے کو پڑھنے بغیر آگے بڑھ گیا کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ شہناز نقوی کی ادبی کاوش پر پڑھنے سے پہلے کوئی میری رائے پر اثر انداز ہو- ص اکیس سے ان کا یہ ناول شروع ہوا تو ٹیکسی ڈرائیور نے صفانوالہ چوک سے مزنگ روڈ پر ٹیکسی کو موڑ دیا اور ساتھ ہی مجھ سے پوچھا کہ میں نے کہاں جانا ہے- اسے بتایا کہ میں نے سنت نگر جانا ہے؟
ایک لمحے کے لیے نوجوان ڈرائیور میرا چہرہ دیکھنے لگا-“سنت نگر؟(نگر پر خوب زور دیا) میں ازاہ مذاق کہا،’سنت کا ہندوستانی مسلم ذہن کے تصور کے مطابق ترجمہ صوفی کرلو مطلب مجھے صوفی نگر پہنچادو”، کہنے لگا، سر! مذاق مت کریں،منزل بتادیں تاکہ میں ڈرائیو سٹارٹ کردوں- میں نے کہا کہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز سنت نگر محلہ جانا ہے- اس نے کہا کہ اب سمجھ میں آگیا- اس سے اندازہ ہوا کہ ٹیکسی ڈرائیو کالج سے اچھے سے واقف تھا- اس کے بعد میں شہناز نقوی کے ناولٹ کو پڑھنے میں مگن ہوگیا-
اور مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ صفانوالہ چوک سے لاہور سیکرٹریٹ تک ٹیکسی کب پہنچی اور کہاں کہاں ٹریفک جیم میں یہ پھنسی رہی- دلجسپ کہانی تھی، یہ جب اپنے کلائمکس کو پہنچی تو میرے اندر سے “ھل من مزید” کی صدا بلند ہورہی تھی تو ناولٹ اپنے اختتام کو پہنچ گیا- مجھے حسرت رہی کہ ناولٹ کی کہانی کچھ اور آگے چلتی- کہانی اس زمانے کی ہے جب کالونیل دور تھا اور انگریز کی قائم کی ہوئيں بہت ساری دیسی ریاستیں موجود تھیں- کہانی شروع ہوتی ہے راج نامی ایک نوجوان سے جو 24 سال کا تھا، جسے اس کی چچی نکھٹو پن کے سبب طعنے دیتی ہے- اور وہ تنگ آکر گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور ریلوے اسٹیشن سے دلّی جانے والی ٹرین پکڑلیتا ہے-
لیکن وہ دلّی سے پہلے ہی ایک چھوٹے سے اسٹیشن رام پور اترجاتا ہے- یوں کہانی آگے بڑھتی ہے- اور پھر اس میں دیومالائی رنگ داخل ہوتا ہے- ہندؤمت کا تصور کرما اور ایک جنم کے بعد دوسرے جنم کا عقیدہ اور اسی کا مجسم ہے ونود اور اس کی بیوی ریکھا- راکیش ونود کا کزن جس کے ماتا پتا ایک پراسرار ٹریفک حادثے میں چل بسے تھے- راکیش اپنے والدین کی پراسرار موت کو حادثہ تسلیم نہیں کرتا تھا- یہی یقین آخرکار اسے ونود اور ریکھا کی جان لینے کے منصوبے پر عمل کرنے پر آمادہ کردیا- تو راج اصل میں دوسرے جنم میں تھا اور پہلے جنم میں وہ ونود تھا ایک ریاست کا ولی عہد- جسے راج سنگھاسن سے کوئی دلچسپی نہیں تھی –لیکن اس کے پتا اسے راج گدی سنبھالنے کا کہتے تھے-
یہ کہانی جتنی تیزی سے چھوٹے چھوٹے فقروں سے کھیلتی ہوئی اختتام پذیر ہوتی ہے- اتنی تیزی کا ساتھ قاری نہیں دے پاتا- ٹیکسی ایک دم زور دار بریک سے رکی اور میں نے خود کو گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز سنت نگر میں اپنی منزل کے عین سامنے پایا- میں نے کرایہ ادا کیا اور ٹیکسی سے اتر گیا- میں پانچ فلور عبور کرکے تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھتا چلا گیا شہناز نقوی کے افسانوں کے کردار زیادہ تر وہ ہیں جو زرا غور کریں گے تو اپنے آس پاس بکھرے ایسے کئي کرداروں سے ملاقات ہوجائے گی- خالہ رجو ، ناہید اور دیگر ایسے کردار آپ کے ارد گرد موجود ہیں جنھیں شہناز نقوی کی ادیبانہ صلاحیتوں نے اور زیادہ چار جاند لگا دیے ہیں- ایک کے بعد ایک افسانہ آتا ہے اور آپ اسے ایسے پڑھ گئے ہوتے ہیں جیسے آئیندہ کبھی کوئی اس چوکھٹے پر ان کرداروں کے ساتھ نہیں آئے گا- –
ڈرامے “سوتے جاگتے” ،”زنجیر کرلیا تم نے” اور کیسی دیوانگی ” میں بھی شہناز نقوی کا ڈکشن وہی ہے جو ہم نے ان کے افسانوں میں دیکھا- سیدہ شہناز نقوی مبارکباد کی مستحق ہیں-
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر