ناسا نے چاند پر پہلی بار پانی کے مالیکول دریافت کرلئے
کئی دن پہلے ہی ‘چاند سے متعلق ایک حیران کن نئی دریافت’ کے بارے میں اشارہ دینے کے بعد امریکی خلائی ادارے ناسا نے اعلان کیا ہے کہ اسے چاند پر پانی کی موجودگی کے فیصلہ کن ثبوت مل چکے ہیں۔
‘مالیکیولر پانی کی غیرمبہم دریافت’ سے چاند پر خلائی اڈہ بنانے کی ناسا کی امیدوں کو فروغ ملے گا۔
مقصد یہ ہے کہ چاند کے قدرتی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اس بیس کو قائم رکھا جا سکے۔
تحقیق کے نتائج دو مختلف ریسرچ پیپرز کی صورت میں جریدے ’نیچر ایسٹرونامی‘ میں شائع ہوئے ہیں۔
ویسے تو چاند کی سطح پر پہلے بھی پانی کی موجودگی کی علامات ملتی رہی ہیں، لیکن نئی دریافتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پچھلے تصورات سے کہیں زیادہ مقدار میں یہاں موجود ہے۔
ملٹن کینیس اوپن یونیورسٹی کی پلینٹری سائنسدان ہینا سارجنٹ نے بی بی سی نیوز کو بتایا
اس دریافت سے چاند پر پانی کے ممکنہ ذرائع کے بارے میں مزید آپشن دستیاب ہوئے ہیں۔
امریکی خلائی ادارے نے کہا ہے کہ وہ چاند کی سطح پر سنہ 2024 میں ایک مرد اور عورت کو بھیجے گا تاکہ ‘اگلی بڑی چھلانگ’
یعنی 2030 کی دہائی میں مِریخ پر انسان کو اتارنے کے لیے تیاری کی جا سکے۔
انھوں نے مزید کہا کہ چاند پر خلائی بیس کہاں بنانی ہے اس کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ چاند پر پانی کہاں ہے۔
ان نئی دریافتوں می دریافت صوفیہ ٹیلی سکوپ نامی رصدگاہ سے کی گئیں سے پہلی۔ یہ رصدگاہ ایک بوئنگ 747 طیارہ ہے
جو زمین کی 99.9 فیصد فضا سے اوپر پرواز کرتا ہے۔
انفراریڈ شعاعوں کو دیکھ پانے والی یہ ٹیلی سکوپ فضا سے اوپر ہونے کی وجہ سے نظامِ شمسی کا بلارکاوٹ مشاہدہ کر سکتی ہے۔
چاند کی سطح پر انفراریڈ شعاعیں پھینکنے اور ان کے منعکس ہونے کا مشاہدہ کر کے سائنسدان یہ پتہ لگا سکتے ہیں کہ
درحقیقت کیا چیز اس روشنی کو منعکس کر رہی ہے۔ مختلف مادے مختلف رنگوں کی صورت میں نظر آتے ہیں
اور اس کیس میں سائنسدانوں کو بالکل وہی رنگ ملے جو پانی کے مالیکیولز کی پہچان ہیں۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ سطح پر موجود ذرات کے اندر پھنسا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ سخت ماحول کے باوجود اب بھی موجود ہے۔
ایک دوسری تحقیق میں سائنسدانوں نے دائمی طور پر اندھیرے میں موجود علاقوں کا مشاہدہ کیا جنھیں کولڈ ٹریپ کہا جاتا ہے۔ کولڈ ٹریپس میں ہو سکتا ہے کہ پانی پھنس جائے اور ہمیشہ کے لیے موجود رہے۔
سائنسدانوں کو یہ کولڈ ٹریپس چاند کے دونوں قطبوں پر ملے اور انھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ‘چاند کی سطح کا تقریباً 40 ہزار مربع میٹر علاقہ پانی کو پھانسنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔’
ڈاکٹر سارجنٹ کہتی ہیں کہ اس سے ‘ان جگہوں کی فہرست وسیع ہوجائے گی جہاں ہم بیس بنانا چاہیں گے۔’
اگلے چند سالوں میں چاند کے قطبی خطوں میں کئی مشن بھیجنے کا منصوبہ ہے مگر طویل مدتی منصوبہ یہ ہے کہ چاند کی سطح پر ایک مستقل آبادی بنائی جائے۔
ڈاکٹر سارجنٹ کہتی ہیں کہ سائنسدان پہلے ہی چاند پر انسانوں کو دوبارہ بھیجنے والے تھے مگر تازہ دریافت سے انھیں مزید آپشن مل گئے ہیں کہ وہ چاند پر کہاں جا سکتے ہیں۔ اس سے چاند جانے کے لیے ایک مزید ولولہ انگیز جگہ بن گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس برفیلے پانی کو نکالنے سے مستقبل میں قمری معیشت فروغ پا سکتی ہے۔
مثال کے طور پر چاند پر راکٹ ایندھن بنانا سستا ہے، اسے زمین سے وہاں تک بھیجنا مہنگا ہے۔ چنانچہ جب مستقبل میں چاند سے لوگوں کو واپس آنا ہوگا یا وہاں سے کہیں اور جانا ہوگا تو وہ اس پانی سے ہائیڈروجن اور آکسیجن بنا سکتے ہیں جو عام طور پر راکٹ ایندھن بنانے میں استعمال ہوتے ہیں۔
چنانچہ چاند پر ہی ایندھن کی دوبارہ بھرائی سے خلائی سفر کی قیمت میں کمی ہو سکتی ہے اور چاند پر خلائی بیس مزید پائیدار ہو سکتا ہے۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ