نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خبریں تبصرے اور ایک درخواست۔۔۔حیدر جاوید سید

اچھا ویسے یہ این آر او مانگا کس نے چند حکومتی ذمہ داران جو کاغذ لہراتے دکھائی دیتے ہیں اس پر لکھا کیا ہے؟

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزارت خارجہ نے ایف اے ٹی ایف میں سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کے خلاف ووٹ دینے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک سعودیہ تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں دونوں ملکوں نے ہمیشہ علاقائی اور بین الاقوامی معاملات میں ایک دوسرے کی حمایت کی ہے۔

وزارت خارجہ کا اعلامیہ محض تردید تک محدود ہے۔

زیادہ بہتر ہوتا کہ معاملے کی تفصیل کے ساتھ وضاحت کی جاتی۔

مضبوط برادرانہ تعلقات سے کسی کو انکار ہے نا اس پر دو آراء ممکن ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وزارت خارجہ ان غیر ملکی اخبارات اور نیوز ایجنسیوں کو خط لکھ کر ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس میں سعودیہ کے پاکستان مخالف ووٹ کی خبر پر احتجاج ریکارڈ کروائے

اس کے ساتھ ساتھ قوم کو ان6نکات سے بھی آگاہ کرے جن پر عمل نہیں ہوسکا۔

وزارت خارجہ اور حکومت سمجھتی ہے کہ اس معاملے میں معلومات پبلک نہیں کی جاسکتیں تو قومی اسمبلی اور سینیٹ کو اعتماد میں لیا جائے وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان نے27 میں سے 6 نکات پر ابھی تک عمل نہیں کیا اور یہ کہ یہی 6 نکات سب سے اہم ہیں۔

یہاں یہ عرض کردینا بھی از بس ضروری ہے کہ محض حکومت کا نا قد ہونے کے شوق میں عالمی ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے شائع ہونے والی خبروں اور رپورٹروں کے چسکے دار جملے ان سطور میں لکھنا مناسب نہیں سمجھتا البتہ یہ ضروری ہے کہ وزارت خارجہ اس معاملہ میں پارلیمان کو بریف کرے تاکہ عوام کے منتخب نمائندے

بین الاقوامی میڈیا کے پروپیگنڈے سے بھی پیدا شدہ صورتحال میں عوام کی رہنمائی کرسکیں۔

ہماری دانست میں پارلیمان کو اعتماد میں لینے میں تاخیر نہیں برتی جانی چاہیئے۔

وزیراعظم عمران خان اور دیگر اہم شخصیات تواتر کے ساتھ مہنگائی کی بدترین لہر پر قابو پانے کے لئے مئوثر اقدامات کی یقین دہانی کروارہی ہیں مگر مہنگائی کا طوفان ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا

اس پر ستم یہ ہے کہ ایک ہی چیز کی مختلف دکانوں اور ٹھیلوں پر مختلف قیمتیں ہیں۔

بڑے شہروں میں تو خیر اب چند آن لائن خریداری کی ایپس نے کچھ سہولت دی ہے مگر ضروری نہیں کہ ہر شخص انٹرنیٹ استعمال کرتا ہو یا اس کی ان ایپس تک رسائی ہو البتہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اشیائے خوردونوش کی مارکیٹ قیمتوں اور ان ایپس کی قیمتوں میں بہت فرق ہے مثال کے طور پر پیاز مارکیٹ میں70 سے 80 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے مگر یہ آن لائن ایپس 40 سے 45 روپے کلو فراہم کرتی ہیں اور نمائندہ خریدا ہوا سامان گھر پہنچا کر جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر کیسے بازار سے نصف قیمت پر اور صارف کی دہلیز تک خریدا ہوا سامان فراہم کرنا ممکن ہے؟

اصولی طور پر جواب یہی ہوسکتا ہے کہ مہنگائی کی اس بد ترین لہر کی اصل ذمہ داری پرچون فروش پر عائد ہوتی ہے جو کم از کم سو فیصد شرح منافع اپنا حق سمجھتا ہے اور جو ابی طور پر مہنگائی کا رونا روتا ہے

وفاقی حکومت کو کسی تاخیر کے بغیر چاروں صوبائی حکومتوں سے ملکر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن سے منافع خوری کی بناپر ہوئی مہنگائی کا خاتمہ ہو اور شہری سُکھ کا سانس لے سکیں۔

وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید بھی وزیر ریلوے شیخ رشید کی طرح اپنی وزارت اور ذمہ داریوں پر توجہ دینے کی بجائے جذباتی انداز میں دنیا جہان کے موضوعات خصوصاً حزب اختلاف کو رگیدنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

اگلے روز انہوں نے شہزاد اکبر اور دوسروں کی طرح ایک کاغذ لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ

”اپوزیشن ان کی حکومت سے تحریری این آر او مانگ رہی تھی جو ہم نے نہیں دیا”۔

شیخ رشید تو خیر لمبے لمبے بیانات کے بعد اب یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ میں نے تو عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ این آر او دے دو اور جان چھڑاو تاکہ یکسوئی کے ساتھ عوام کی خدمت کی جاسکے۔

اچھا ویسے یہ این آر او مانگا کس نے چند حکومتی ذمہ داران جو کاغذ لہراتے دکھائی دیتے ہیں اس پر لکھا کیا ہے؟

کیا کوئی تحریری درخواست ہے برائے حصول این آر او؟

فقیر راحموں کا دعویٰ ہے کہ جو کاغذ لہرایا جارہا ہے وہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے قانون سازی کے دوران حزب اختلاف کی جانب سے پیش کی جانے والی ترامیم وتجاویز کے نکات ہیں۔

ہر دو موقف اپنی جگہ مگر یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا این آر او دینا حکومت کے بس میں ہے بھی؟

مطلب یہ کہ اپوزیشن کے جن رہنماوں کے خلاف مقدمات بنائے گئے ان میں سے زیادہ تر مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اورچند ایک ابھی تفتیش کے مرحلہ میں ایسے میں حکومت کیسے اور کس طرح این آر او دے پائے گی اور کیا اس سے یعنی این آراو دینے سے خود پی ٹی آئی کی 22 سالہ جدوجہد کی نفی نہیں ہوگی

اگر این آراو دے دیا جائے؟

اس ضمن میں آخری بات یہ ہے کہ وفاقی وزراء خصوصاً مراد سعید اور شیخ رشید کو اپنی اپنی وزارتوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے توجہ دینی چاہیئے۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیالانگونے دعویٰ کیا ہے کہ کوئٹہ میں پی ڈی ایم(اپوزیشن کے گیارہ جماعتی اتحاد) کے جلسہ کے حوالے سے تھریٹس ہیں

(ادھر اپوزیشن نے اپنے جلسہ کا مقام تبدیل کردیا ہے)

تھریٹس ہیں تو اس حوالے سے مئوثر اقدامات صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔بیان دینے سے تو تھریٹس ختم نہیں ہو جائیں گی بلکہ پی ڈی ایم کے اس الزام کو تقویت ملے گی کہ صوبائی حکومت اور خصوصاً وزیر داخلہ تھریٹس کے حوالے سے بیان دے کر پی ڈی ایم کے حامیوں اور عوام میں خوف وہراس پھیلانے کے مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔

زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت پی ڈی ایم کے جلسہ کے انعقاد میں اپوزیشن سے سیاسی واخلاقی تعاون کے ساتھ اس امر کو یقینی بنائے کہ سازشی عناصر اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکیں۔

یہاں موضوع سے ہٹ کر بلوچستان حکومت سے ایک درخواست ہے وہ یہ کہ پنجاب کی مختلف جامعات میں زیر تعلیم بلوچستان کے طلباء کو درپیش مسائل ومشکلات کے حوالے سے پنجاب حکومت سے براہ راست بات کرے تاکہ یہ طلباء وطالبات اپنی تعلیمی سرگرمیوں پر حقیقی معنوں میں توجہ دے سکیں۔

About The Author