رضاعلی عابدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کہیں سنہ چونتیس پینتیس کے آس پاس پیدا ہوا تھا۔ آج اسّی پچاسی کی حدوں کو چھورہا ہوں۔ میں اکثر کہا کرتا ہوںکہ میرا تعلق اُس نسل سے ہے جس نے پینسلین سے کمپیوٹر کی ایجاد تک کیا نہیں دیکھا۔ بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ وقت سدا ایک سانہیں رہتا۔ بس اگر کسی چیز کو ثبات ہے تو وہ دنیا کے روز روز بدلنے کو ہے۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ کیا کیا بدلا۔ میں یہی کہوں گا کہ کیا نہیں بدلا۔
آئے دن ہونے والی تبدیلیوں کی بہت ہی طویل فہرست میں شاید ایک ہی تبدیلی باقی تھی سو وہ بھی ہوگئی۔ دنیا پر کورونا کی آفت نازل ہوگئی۔ کیسی بے بسی کا عالم ہے کہ دنیا بھر کے سائنس دان رات دن ایک کئے ہوئے ہیں کہ کورونا کی وبا کا کوئی علاج نکل آئے مگر سائنس ہانپ رہی ہے اور کامیابی کی منزل دور ہی سرکتی جا رہی ہے۔ مختصر یہ کہ دنیا بدل رہی ہے مگر کب نہیں بدلی لیکن اس بار کچھ ایسی ادا کے ساتھ بدل رہی ہے کہ کچھ عرصے بعد پہچانی نہیں جائے گی۔ لوگ بیمار پڑ رہے ہیں۔ اب تک بدن بیمار ہوا کرتے تھے۔اس مرتبہ نیا ہی غضب ہوا ہے۔ اس بار ذہن بیمار ہو رہے ہیں۔ آثار انفلوئنزا کے ہوتے ہیں لیکن اثر دماغ پر ہورہا ہے۔ اب فکر جسمانی مرض کی نہیں، اب سوچنے سمجھنے کی صلاحیت زد میں آرہی ہے۔ ملکوں کے سر براہ بیمار ہور ہے ہیں، حاکم اور بادشاہ بیمار ہو رہے ہیں۔ عام لوگ بیما رہوں۔ ہماری بلا سے لیکن ملکوں کو چلانے والے اگر ذہنی مریض ہونے لگیں تو پریشانی کی بات ہے۔ سچ ہے، دنیا بدل رہی ہے۔ یوں کیجئے۔ اس بدلتی دنیا کو میری نگاہ سے دیکھئے۔
دوبارہ کہتا ہوں۔ میرا تعلق اُس نسل سے ہے جس نے ایٹم بم سے نائن الیون تک کیا نہیں دیکھا۔ میں نےدوسری عالمی جنگ کے شعلوں کی تپش ہندوستان تک پہنچتے دیکھی۔ بمباری کی صورت میں خندقوں میں پناہ لینے کی تربیت حاصل کی۔ آزادی کی تحریک کو علیحدگی کی تحریک میں بدلتے دیکھا۔ ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگانے والے جلوسوں میں آگے آگے چلا۔دنیا بدل رہی تھی، سو زندگی گزارنے کا ٹھکانہ بدلا۔ اپنا گھر چھوڑا، اپنی سرزمین چھوڑی اور نئی زمینوںکو آباد کیا۔ دنیا بدلنے کا عمل تیز ہوگیا۔ پاکستان بنا، پاکستان ٹوٹا۔ یہی حال دل کا ہوا۔ اور دل کا معاملہ عجب ہے، جو اس پر گزرتی ہے وہی دماغ پر بھی گزرتی ہے۔
کتنے ہی سانحے دیکھے، کتنے ہی رنج اٹھائے مگر دنیا نے بدلنے کی روش نہ چھوڑی۔ یہ سنہ انیس سو ستاون کی بات ہے، جس روز انسان نے پہلی بار خلا میں دخل دیا اور جس شام ہم نے پہلی بار بیرونی خلا سے آنے والے اسپوتنک کے سگنل کی آواز سنی۔ اُسی روز میں نے اخبار کی دنیامیں قدم رکھا۔ وہ سنہ انیس سو ستاون تھا۔ اور پھر دنیا بدلتی ہی گئی اور دیوار پر سنہ دوہزار آٹھ کے کیلنڈر کو آویزاں ہوتے دیر نہیں لگی۔ اُس سال میں نے ریڈیو پر آخری بار خبریں پڑھیں۔پچاس اوپر ایک برس لگے مجھے اخباری اور ریڈیائی صحافت میں۔جب تک اخبار میں کاغذ سیاہ کئے میں دنیا کو دیکھا کرتا تھا۔ ریڈیو پر بولا تو دنیا نے مجھے دیکھا ’’یہ بی بی سی لندن ہے،اب آپ رضا علی عابدی سے خبریں سنئے‘‘۔ دنیا نے ہر شام ،ہر صبح یہی اعلان سنا مگر دنیا نے بدلنے کی روش نہ چھوڑی۔ صحافت کیا سے کیا ہوتی گئی۔ کہاں وہ زمانہ جب نامہ نگاروں کی خبریں ڈیڑھ آنے کے ڈاک کے لفافے میں آیا کرتی تھیں۔ پھر وہ وقت آیا کہ خبر جب تک دو ذریعوں سے نہ آجائے، اسے مستند نہیں مانا جاتا تھا۔ وہ دن یاد رہے گا جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں اور صاحبِ حیثیت افغان ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر اور راہِ فرار اختیار کرکے دلی پہنچنے لگے۔ اس روز مارک ٹلی، مشہور مارک ٹلی دلّی کے ہوائی اڈے پر جا پہنچا اور کابل سے آنے والوں سے ان کی کہانیاں سن کر خبریں بنانے لگا۔ تب بی بی سی والوں کو احساس ہوا کہ ان کہانیوں میں لوگوں نے اپنے اپنے رنگ بھرے ہیں اوروہ دل بھر کر من گھڑت داستانیں سنا رہے ہیں۔تب مارک ٹلی کو ائیر پورٹ سے واپس بلا لیا گیا۔ خبروں میں صداقت کا بڑا احترام تھا۔ دنیا کا بدلنا نہ رُکا۔ہم نے پہلی بار ’’سٹیزن رپورٹنگ‘‘ کا نام سنا۔ سوات پر طالبان کا قبضہ ہوا تو ٹیلی فون پر عام لوگوں سے ان کی کہانیاں سن کر خبریں بنائی جانے لگیں۔ نو عمر گُل مکئی کا لکھا ہوا روزنامچہ نشر ہونے لگا۔ خبروں پر سے اعتبار اٹھنے لگا۔اب کے جو دنیا بدلی تو اس کاحلیہ ہی بدل گیا۔ صحافت کی دنیا میں انٹر نیٹ آگیا۔ جرنلزم کے پیٹ سے ایک نئی اصطلاح نے جنم لیا: ’’سوشل میڈیا‘‘۔ اس بار تو غضب ہوگیا، دنیا کھُل گئی، بےپردہ ہو گئی، دنیا برہنہ ہو گئی۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں کون جیتے گا؟ اُس کا فیصلہ روس میں ہونے لگا۔ پھر ایک نئی لہر اُٹھی: سوشل میڈیا نے پرنٹ میڈیا کے پاؤں تلے کا تختہ کھینچ لیا۔ پھر اور غضب ہوا۔ لوگ بلاگ لکھنے لگے۔ لوگ اپنی بات دنیا کو سنانے لگے۔ اپنی رائے کی تشہیر کرنے لگے، میری رائے میں اپنی رائے کی آمیزش کرنے لگے۔ کتنے ہی بلاگر شہرت پا گئے،کئی اٹھائے گئے اور کئی مارے گئے مگر سوشل میڈیا کا جھنڈا اونچا ہوتا گیا۔ اِسی دوران ایک نیا شگوفہ پھوٹا۔ لوگ پوڈکاسٹنگ کرنے لگے۔ گھروں میں نشر گاہیں بن گئیں میں اپنی رائے اور اپنے فیصلے دنیا کو سنانے لگا۔ دنیا بدلی سو بدلی، اس کی رائے بھی بدلنے لگی۔ اور یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ اب گھر گھر ٹی وی چینل کھل گئے ہیں۔ ہر ایک ہر ایک سے مکالمہ کر رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جلد ہی شور اُٹھے گا۔ ہر ایک اپنی بات کہہ رہا ہوگا۔ یہاں تک کہ کہنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگی اور سننے والوں کی کم۔ بس بیچ بیچ میں ایک صدا سنائی دے گی:’’یہ فیک نیوز ہے۔ یہ فیک نیوز ہے‘‘ اور جب یہ شور کم ہوگااور شور مچانے والے تھک جائیں گے تب ہمار ے دوست افتخار عارف کے بقول:
تب تماشا ختم ہوگا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر