محمد شعیب عادل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں صدارتی الیکشن کے موقع پر تین صدارتی مباحثےہوتےہیں ۔ عوام کی بڑی تعداد ان مباحثوں کو سن کر فیصلہ کرتی ہے کہ ووٹ کس کو ڈالا جائے۔ پہلا مباحثہ 29 ستمبر کو ہوا جو امریکی تاریخ میں پہلی دفعہ ذاتی لڑائی جھگڑے کا موجب بن گیا کیونکہ جب بھی بائیڈن ، صدر ٹرمپ کی پالیسیوں پر تنقید کرتے تو صدر ٹرمپ انھیں ٹوک کر الزامات لگانا شروع کردیتے بہرحال اس مباحثے کا فائدہ جوبائیڈن کو ہوا۔
دوسرا مباحثہ پندرہ اکتوبر کو ہونا تھا جو کہ صدر ٹرمپ کے کرونا وائرس کا شکار ہونے کی وجہ سے کینسل کر دیا گیا۔ کیونکہ صدر ٹرمپ وائرس سے متاثر ہونے کے باجود کسی بھی حفاظتی احتیاط کو مدنظر رکھنے کو تیار نہیں تھے۔ کمیشن نے فیصلہ کیا کہ یہ مباحثہ ورچوئل یعنی آن لائن کروایا جائے جس سے ٹرمپ نے اتفاق نہ کیا اور یہ کینسل ہو گیا۔اس سلسلے کا تیسرا اور آخری مباحثہ 22 اکتوبر کو ہوگا۔
پندرہ اکتوبر کو مباحثہ تو نہ ہوسکا لیکن دونوں امیدواروں نے علیحدہ علیحدہ مختلف ٹی وی چینلز پر ایک ہی وقت مختلف ٹاؤن ہالز میں خطاب کیا۔ جوبائیڈن کے خطاب کاانتظام اے بی سی ٹی وی نے کیا تھا جبکہ صدر ٹرمپ کا این بی سی ٹی وی پر تھا۔لوگوں کی بڑی تعداد ریموٹ کے ذریعے چینل بدل بدل کر دونوں کے خطاب سننے کی کوشش کرتے رہے۔ جوبائیڈن کے خطاب کو اتنی اہمیت نہیں ملی جتنی صدر ٹرمپ کے خطاب کو ملی کیونکہ ماڈریٹر ، سوانا گائتری، جو بھی سوال ٹرمپ سے کرتی وہ اس کا الٹا سیدھا جواب دیتے اور جب ان کے بتائے ہوئے اعداد وشمار کے متعلق سوال ہوتا تو وہ کہتے میں نے ایسے ہی سنا ہے۔
صدر ٹرمپ کے آنے سے اب ٹی وی اور ریڈیو چینلز تبصرہ نگاروں کے ساتھ ساتھ ایک فیکٹ چیکنگ کے لیے علیحدہ صحافی رکھتے ہیں۔ کیونکہ ٹرمپ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے جو ریفرنس یا اعدادوشمار بتاتے ہیں وہ ہمیشہ غلط ہوتے ہیں اس لیے ٹی وی چینلز پر فیکٹ چیکنگ کا علیحدہ سے بوجھ پڑگیا ہے۔
مثلاً صدر ٹرمپ نے کہا کہ میرے ووٹر 85 سے نوے فیصد تک ماسکے پہنتے ہیں تو یہ درست نہیں۔۔۔ ماڈریٹر نے سوال کیا کہ اپ انتہائی دولت مند شخص ہیں لیکن پچھلے پندرہ سالوں میں دس سال تو ٹیکس ہی نہیں دیا اور جو دیا ہے وہ 750 ڈالر ہے تو وہ کہتے ہیں میں ملین اینڈ ملین ڈالر ٹیکس دیتا ہوں۔۔اب ملین اینڈ ملین کی تفصیل پوچھیں تو کہتے ہیں کہ ابھی آڈٹ ہورہا ہے۔۔۔ ایسا ہی جواب انھوں نے 2016میں بھی دیا تھا۔ ایک اور سوال ہوا کہ آپ کے ذمہ 424 ملین ڈالر کا قرضہ ہے تو پہلے انھوں نے انکار کیا اور جب ان کو مختلف حوالوں سے یاد کروایا گیا تو کہنے لگے میرا خیال ہے شاید400ملین ڈالر ہے جو کہ میرے لیے پی نٹ یعنی مونگ پھلی کے برابر ہے۔صدر ٹرمپ کا یہ انداز گفتگو ان عقیدت مندوں کو تو قائل کر سکتا ہے لیکن ایسے عوام کو نہیں جو سوچ سمجھ کر ووٹ دیتے ہیں۔
اب الیکشن میں کون فتح یاب ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن ابھی تک کے امریکی پولز کی پیشن گوئی کے مطابق جوبائیڈن بہرحال ٹرمپ سے آگے ہیں۔ لیکن حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر