مجھے کچھ دنوں پہلے لاہور کینٹ میں رہنے والے ایک نوجوان کی طرف سے وٹس ایپ میسج ملا- اس نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اسے انگریزی سے اردو ٹرانسلیشن کا کوئی کام لیکر دوں- اتفاق تھا کہ برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہے فلسفے کے استاد کو اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ اردو میں ترجمہ کرواکر کتابی شکل میں شایع کرنا تھا- اس استاد نے میرے ذمےکسی اہل مترجم کی تلاش کی ذمہ داری لگائی ہوئی تھی- اب جب اس نوجوان کی درخواست موصول ہوئی تو میں نے اس کا نام اپنے استاد دوست کو دے دیا- دونوں نے باہم معاملات طے کرلیے- ابھی نوجوان کو ترجمہ پروجیکٹ کی مد میں ایڈوانس ملنا باقی تھا کہ نوجوان کا وٹس ایپ میسج مجھے دوبارہ ملا-
اس میسج میں نوجوان نے بتایا کہ کیسے ایک دن قبل لیسکو کے اہلکار اس کے گھر بجلی منقطع کرنے آن پہنچے تھے اور بڑی مشکل سے منت سماجت کرکے ایک دن کا وقت لیا اور مانگ تانگ کر بجلی کا بل ادا کیا- جبکہ اس کے پڑوس میں رہنے والوں کا بجلی کا میٹر پھونکوں سے سست کروایا گیا ہے کیونکہ اس گھر کا ایک فرد پنجاب بیوروکریسی میں ہے اور کسی ضلع میں وہ ڈپٹی کمشنر ہے- میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ یہ حال لاہور کینٹ کے ایک قدرے آسودہ حال آبادی میں رہنے والے شخص کا ہے جو بجلی کے بل کی ادائیگی سے تنگ آیا ہوا ہے اور وہ اشیائے خورد و نوش کہاں سے لے پائے گا تو پھر اس سے کہیں زیادہ غریب اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی حالت کیا ہوگی؟ خصوصی طور پر جب وہ یہ دیکھے گا کہ وہ اپنی ایمانداری کے سبب اہلکاروں سے ذلیل ہورہا ہے اور ایک طاقتور افسر جس کا خاندان بجلی کے بل افورڈ کرسکتا ہے چوری کی بجلی دھڑلے سے استعمال کررہا ہے اور عزت بھی پارہا ہے-
ابھی چند دن گزرے جب پاکستان بھر سے سرکاری ملازمین نے اسلام آباد میں اپنی تنخواہوں اور گھریلو اخراجات میں بڑھتے ہوئے فرق کے سبب پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے دھرنا دیا- پشاور میں صوبے بھر کے سرکاری ملازمین پشاور دھرنا دیے بیٹھے ہیں- سندھ میں دو روز سے ہسپتالوں کی او پی ڈی کی ہڑتال جاری ہے- اور کوئٹہ سے اسلام آباد تک بلوچ طلبا پنجاب بھر کی جامعات میں بلوچ کوٹا ختم کرنے پر لانگ مارچ کررہے ہیں- یہ سب احتجاج اور ہڑتال حق پہ ناحق دار رسید کی صورت حال کی عکاسی کررہے ہیں-
مجھے حال ہی میں یو اے ای ٹی لاہور میں ایم-ایس انجینئرنگ میں داخلہ لینے والے طالب علم نے بتایا کہ پہلے سمسٹر 22 ہزار کا تھا اور اب اس کی فی سمسٹر فیس اٹھاسی ہزار روپے کردی گئی ہے اور اس کی ماں نے اپنا زیور بیچ کر سمسٹرزکی فیسوں کی ادائیگی کا انتظام کیا ہے- اس سے پہلے میڈیکل کالجز کی داخلہ فیسوں میں اضافہ کیا گیا ہے- اور تو اور ایف اے ،بی اے پرائیویٹ کرنے پر پابندی لگادی گئی-اس عمل سے نوکری کرنے والے نوجوان بچے /بچی کبھی اعلی تعلیم حاصل کرلیتے تھے اب یہ بھی خواب خیال ہوجائے گا-
افسوس کی بات یہ ہے کہ عام آدمی اس طرح کے کئی عذاب بھگت رہا ہے اور اس کے مسائل کو حل کرنے کی طرف نہ تو حکومت متوجہ ہے اور نہ ہی اپوزیشن کی جماعتوں کی طرف سے عوام کے مسائل پر بات ہورہی ہے- ویسے بھی ایسے لگتا ہے کہ پنجاب سویلین نوکر شاہی کے زریعے چلایا جارہا ہے- ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر اور اور ڈی پی او کا راج لگتا ہے اور عوامی نمائندے "جی حضوری” کرنے کے سوا کچھ نہیں کررہے- ماضی کی کرپشن نے اگر بنیادیں ہلائی تھیں تو آج کی کرپشن پوری عمارت کو ہی مسمار کرنے کے قریب ہے-
اگر آپ انفارمیشن دفاتر سے روزانہ کی بنیادوں پر نکلنے والے سرکاری ہینڈز آؤٹ جو اب بعذریعہ وٹس ایب اور ای میل ارسال کیے جاتے ہیں کا ماہانہ تجزیہ کریں تو آپ کو ایسے لگے گا کہ جیسے ڈی سی لاٹ صاحب اور ان کے ماتحت افسران کی سڑک چھاپی، بازار گردی اور دفاتر کی سیر نے سارے مسائل کا حل چٹکی بجاتے ہوئے کرڈالا ہے- لیکن جیسے ہی آپ اپنی عقابی آنکھ کے ساتھ باہر نکلتے ہیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ کیسے یہ سرکاری ہینڈ آؤٹ آپ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کام کررہے ہیں-
میں ملتان ڈویژن کے ضلع خانیوال کا رہائشی ہوں- اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر آغا ظہیر عباس شیرازی ہیں- یہ ضلع خانیوال کے بلدیاتی اداروں کے ایڈمنسٹریٹر بھی ہیں اور محکمہ مال کے نگران بھی ہیں- مجھے ثبوت کے ساتھ درجنوں شہریوں کے وٹس ایپ موصول ہوئے خانیوال کا سٹی پٹوار خانہ سرکل میں تین سال سے تعینات پٹواری طاہر عباس سیال نے نہ صرف بیع زبانی انتقال جائیداد کی مد میں لاکھوں روپے پنجاب خزانے کے دبا رکھے ہیں بلکہ وہ پرائیویٹ منشیوں کو بٹھاکر سٹی پٹوار خانہ کو رشوت کا گڑھ بنائے ہوئے ہیں- مجھے شہریوں نے پٹوار خانے میں بیٹھے پرائیویٹ منشیوں کی سرکاری ریکارڈ کے ساتھ کام کرتے ہوئے کی تصاویر اور ویڈیوز بھی ارسال کیں-
میں نے وٹس ایپ پر وہ سب ثبوت ڈی سی خانیوال کو ارسال کیے اور اے سی خانیوال اور اے ڈی سی آر خانیوال کو بھی بھیجے- ڈی سی خانیوال کو ایک شہری نے باضبطہ درخواست بھی بمعہ ثبوت فراہم کی اور بتایا کہ مذکورہ پٹواری کیسے سب لینڈ ڈویژن ڈویلپرز کو سکنی و کمرشل زمین زرعی بیع کے زریعے دے کر خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا چکا ہے- اور اس پٹوار خانے نے فٹبال اسٹیڈیم روڈ کے سامنے بنے ایک نئے پلازہ کی زمین کی فرد کو برلب سڑک کی بجائے کچی آبادی جناح کالونی میں دکھاکر سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا- اور ایسے کئی اور دھوکہ دہی پر مبنی بیع زبانی انتقال کے ثبوت ہیں جو ڈی سی خانیوال آغا عباس شیرازی کو بھیجے گئے ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر رات دن سرکاری ہینڈز آؤٹ میں انتہائی محنتی اور فرض شناس نظر آنے والے ڈی سی کی نظر شہر کے قلب میں واقعہ پٹوار خانے میں مچی لوٹ اور فراڈ کی طرف نہیں جاتی-
ایسے ہی ڈی سی خانیوال/ایڈمنسٹریٹر بلدیہ کو خانیوال میں الناصر سٹی/لینڈ سب ڈویژن جیسے غیر قانونی پلاٹوں کی فروخت کا عمل نظر نہیں آتا- شہریوں کو یہ غیر قانونی ہاؤسنگ اسکمیں جس طرح لوٹ رہی ہیں اس کے ثبوت بھی ڈی سی خانیوال کو فراہم کیے گئے – اس حوالے سے روزنامہ خبریں ملتان میں کئی ایک خبریں بھی شایع کی گئیں اور مجھے ایک رپورٹر نے بتایا کہ جب اس نے ڈی سی خانیوال آغا عباس شیرازی کو ان خبروں کے شاٹ سکرین بھجوائے تو ان کا جواب تھا کہ درخواست آئے گی تو دیکھیں گے-
ایک ضلع کا ڈی سی انوسٹی گیٹو رپورٹنگ شایع ہونے کے بعد اور ثبوت فراہم کیے جانے کے بعد جب رپورٹرز کی نشاندہی پر ایسے جواب دیتا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب لیا جاسکتا ہے کہ اسے یہ وہم اور مغالطہ ہے کہ حکومت پنجاب کی اضلاع میں "گڈ گورننس” کی طرف انتہائی دھیان دینے کے بیانات آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں-
آج کل ڈی سی صاحبان کو اخبارات اور ٹی وی چینل کے نیوز ڈائریکٹرز،مدیروں اور کچھ طاقتور اینکرز کے ساتھ اپنی تصویریں سوشل میڈیا ر اپ لوڈ کرنے کا جنون بھی ہے- وہ مقامی رپورٹرز کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ اگر ان کی بیڈ گورننس کو خبر بنائیں گے تو وہ اسے اپنے "تعلقات” کے بل بوتے پر سنسر یا بلیک آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے- یہ ان کی شدید قسم کی غلط فہمی ہے- جہاں جہاں پروفیشنل لوگ موجود ہیں وہ اپنے مقامی رپورٹرز کی دیانت داری اور ایمانداری کا ثبوت میسر ہونے پر ان کا مکمل دفاع کرتے ہیں اور کسی افسر کو یہ موقعہ فراہم نہیں کرتے کہ وہ "تصویری ہتھکنڈوں” سے اپنی مبینہ نااہلی پر پردہ ڈال سکے-
میڈیاکا تواول دن سے یہ ماٹو رہا ہے کہ اس نے بڑے بڑے "فنکار بابوؤں” کے چہرے سے نقاب اتار کر دکھایا ہے- میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب کے چیف منسٹر سردار عثمان بزدار اگر اپنی حکومت کا میڈیا میں بہتر امیج بنانے میں سنجیدہ ہیں تو انھیں پہلی فرصت میں پنجاب میں ان کو جواب دہ انٹیلی جنس ایجنسیوں سے کاؤنٹر انفارمیشن اکٹھی کرکےہر ضلع میں گڈ گورننس کا معیار چیک کرنے کی ضرورت ہے- کمشنر ملتان اور جنوبی پنجاب میں بیٹھے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو بھی عوامی شکایات کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے- میں نے ایک ضلع کی مثال دی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ کیسے آنکھوں میں دھول جھونکنے کا سلسلہ جاری ہے- بلکہ میرے پاس تو یہ بھی اطلاعات ہیں کہ مضافاتی اور قصباتی رپورٹرز اگر محکموں میں "لاٹ صاحب” کے منظور نظر راشی اور کام نہ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف خبریں شایع کریں تو اپنے تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے ایسے صحافیوں اور ان کے رشتے داروں تک کو تنگ کیا جاتا ہے- یہاں تک کہ کئی ایک لوکل اور علاقائی اخبارات کے مدیران سے اپنے تعلق استعمال کرتے ہوئے مضافاتی نامہ نگاروں کو ان کے اخبارات سے فارغ بھی کروایا جاتا ہے-
یہ لوکل سطح پر صحافت پر سنسرشپ لگانے اور بلیک آؤٹ کرنے کے نئے ہتھکنڈے ہیں- چند دن پہلے ڈیرہ غازی خان میں تعینات سابق ڈی پی او نے دو صحافیوں پر ناجائز مقدمہ بنایا اور ان کو دو دن لاک اپ میں رکھا- صحافیوں کے احتجاج پر وہ صحافی ضمانت پر رہا ہوگئے ہیں- عبدالحکیم میں ایک صحافی پر سچ بولنے کی پاداش میں ناجائز مقدمہ درج کیا گیا اور وجہ وہی ضلعی انتظامیہ کی نااہلی اور غفلت کا پردہ فاش کرنا ہے- مجھے انٹی کرپشن پنجاب اسٹبلشمنٹ کے ملتان ریجن کے خانیوال سرکل کے ایک سورس نے بتایا کہ خانیوال بلدیہ کے نقشہ برانچ اور سٹی پٹوار خانہ خانیوال سرکل کی مبینہ کرپشن اور سرکاری ریکارڈ میں ردوبدل کی شروع ہونے والی ایک انکوائری کو دبانے سے انکار کرنے پر ڈی ڈی ماجد افسر کا تبادلہ کروایا گیا اور خانیوال سرکل میں میگا فراڈ اور بدعنوانی کی ایسی ہی درجن بھر انکوائریاں زیر التوا ہیں-
اس کاکیا مطلب ہے؟ اس کا ایک مطلب یہ ہے ضلعی سطح پر پنجاب کی بابوشاہی میں جو بدعنوان، نااہل افسران اور ملازم ہیں انہوں نے ایک ایسا شیطانی آکٹوپس نیٹ ورک بنا رکھا ہے کہ وہ اپنے خلاف کی جانے والی شکایت کو کسی بھی فورم پر رکوانے کی کوشش کرتے ہیں- یہ باتیں کیا چیف منسٹر پنجاب سردار عثمان بزدار کی نظروں سے پوشیدہ ہیں؟ کیا سردار عثمان بزدار ان سرکاری اہلکاروں کے بارے میں انکوائری لانچ کریں گے جو اپنی پوسٹنگ کے حوالے سے ان کے سسرالی خاندان کے مرد و خواتین کا نام لیتے ہیں- اور ان کی ایک رشتے دار پنجاب بیوروکریسی میں افسر خاتون کا نام بھی کئی ایک ڈی سی و اے سی و سی اوز بلدیہ کی زبان پر آتا ہے اور بار بار سوشل میڈیا پر یہاں تک کہ ہیڈ کلرک کی پوسٹ پر بیٹھے اہلکار اپنی چیف منسٹر یا ان کے کسی رشتے دار کے ساتھ بنوائی تصویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہیں تو وہ عوام کو کیا پیغام دیتے ہیں؟ سیاں بنے کوتوال تو ڈر کاہے کا؟
……………………………………………………………..
مضمون میں شائع کئے گئے مواد سے ادارے کا متقق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر