نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صفحہ کون پلٹے گا؟۔۔۔عاصمہ شیرازی

ان سب تحریکوں میں صحافت اور صحافی بھی حصہ بنے اور وکلا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ہم تاریخ کے عجب مقام پر کھڑے ہیں جہاں راستہ بھی ہے، منزل بھی مگر تصادم بھی۔ بہتر سال میں جو بھی ہوا، سول ملٹری تعلقات کی سڑک پر مختلف موڑ آتے رہے۔ تسلسل کے ساتھ ایک لڑائی، ایک محاذ آرائی ہوتی رہی۔

کبھی سیاسی جماعتیں تقسیم اور کبھی مختلف محاذوں کی صورت فوجی اسٹیبلشمنٹ سے بر سر پیکار ہوئی۔ ایم آر ڈی، اے آر ڈی اور کبھی پی این اے اور آئی جے آئی کے اسلامی اتحاد تشکیل پاتے رہے۔ آمریت کے مقابل جمہوریت اور شخصی آمریتوں کے خلاف جمہوری افراد کھڑے رہے۔

ان سب تحریکوں میں صحافت اور صحافی بھی حصہ بنے اور وکلا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی۔

بائیں بازو کی لبرل پیپلز پارٹی آمریت سے لڑنے والی پہلی بڑی جماعت بنی۔ بظاہر ایوبی مارشل لا کی گود سے جنم لینے یا یوں کہیے کہ اسٹیبلشمنٹ کی رگ رگ سے واقفیت اوراس دوران ہونے والی غلطیوں سے سیکھ کر بھٹو صاحب نے ایک ایسی جماعت تشکیل دی جس نے جمہور کو شناخت دی اور سویلین بالادستی کا بیانیہ پہلی بار روشناس کرایا۔

فرض کریں اگر ذوالفقار علی بھٹو اسٹیبلشمنٹ سے جڑے نہ ہوتے تو کیا وہ ایک ایسی جماعت تشکیل دے پاتے جو عوامی پذیرائی کی حامل اور جمہوریت پر یقین رکھتی ہے؟

پیپلز پارٹی کی قیادت محترمہ کے ہاتھ آئی تو مقابلے پر اسلامی جمہوری اتحاد لا کھڑا کیا گیا۔ اسی اتحاد کے ایک کردار میاں نواز شریف مسلم لیگ بنانے میں کامیاب ہوئے اور ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں تیار کردہ قیادت عوام کو دستیاب ہوئی۔ ٹھیک اُسی طرح نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ سے سیکھے تمام داؤ پیچ اُنہی پر استعمال کیے۔

مقتدر حلقوں کے ہاتھوں سے نکل کر نواز شریف نے کسی حد تک ’آزاد‘ سیاست کا آغاز کیا تو ہاتھ میں موجود صفحہ پلٹ گیا۔

بھٹو صاحب اور میاں نواز شریف میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں نے ’سیاسی پختگی‘ کے بعد اپنے راستے اسٹیبلشمنٹ سے جُدا کیے۔ بات بھٹو صاحب کو ذرا جلدی سمجھ میں آئی جبکہ میاں صاحب کو چند سال لگ گئے۔

بہرحال اب جس مقام پر میاں نواز شریف کھڑے ہیں وہاں اُن کے پاس طاقت کے مراکز کی ہر چال کا جواب موجود ہے۔ چال بھی وہ جو وقت، حالات اور موقع کی مناسبت سے چلی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ کل جماعتی کانفرنس سے لے کر گوجرانوالہ اور گوجرانوالہ سے کراچی تک اب کی بار سیاسی چال نواز شریف کی ہے۔

اپوزیشن اتحاد میں مولانا اب تک کی جمہوری اور غیر جمہوری تمام تحریکوں کا حصہ رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اور مخالف رہنے کے تمام فوائد اور نقصانات سے آگاہ ہیں جبکہ اپنی ہر ٹائمنگ کو بہتر سمجھتے ہیں۔ مولانا بھی اُسی نتیجے پر پہنچ چکے ہیں جہاں نواز شریف پہنچے ہیں۔ ذاتی مفاد ہو یا کچھ اور، بہرحال آئین کی بقا کے لیے وسیع ایجنڈے پر سیاسی قوتوں کا اکٹھا چلنا ہی اہم ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری اس وقت خاموش مگر سب سے اہم کردار ہیں۔ اُن کے ہاتھ سندھ کی حکومت بھی ہے اور حالات کو پلٹنے کا سلیقہ بھی۔ ایک وقت وہ بھی آیا تھا جب اُنھوں نے جنرل کیانی جیسے آرمی چیف کو استعفیٰ دینے سے انکار کیا اور ایمبولینس میں ایوان صدر سے رخصتی کا کہہ کر سیاست کو ایک اور سانحے سے بچا لیا تھا۔

اب ایک بار پھر آصف زرداری خاموش مگر محتاط طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس وقت اپنے لیے سہولیات لے سکتی ہے مگر ایسا کرنا نہ صرف اُنھیں اپنے ووٹ بنک سے دور کر دے گا بلکہ مستقبل میں ان کی جماعت کے لیے نقصان دہ بھی ہو گا اور یہی آصف زرداری کے پیش نظر بھی ہے۔

یہ تینوں کردار ایک ہی مطالبے اور ایک ہی صفحے پر ہیں۔ تینوں حالات کی ستم ظریفی اور کرم نوازی دیکھ چکے ہیں۔ ان سب کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ دوسری طرف کے کرداروں کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔

اپوزیشن اور طاقت کے مرکزی کرداروں کی یہ جنگ حتمی مراحل میں داخل ہو رہی ہے۔ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ ایک طرف عوامی دباؤ دوسری جانب طاقت کا جھکاؤ، ایک طرف بیانیہ اور دوسری طرف اختیار، ایک طرف اسٹیک پر کچھ نہیں اور دوسری جانب بہت کچھ۔۔

ایسے میں اداروں کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے، ذرا سی عجلت اور بوکھلاہٹ ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ حل صرف ڈائیلاگ اور صرف ڈائیلاگ میں ہے، کیا اسٹیبلشمنٹ براہ راست بات چیت کے دروازے کھولے گی؟

About The Author