نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاریخ کا جبر اور جمہوریت کا سفر۔۔۔وجاہت مسعود

دستور مگر تربیلا کی جھیل نہیں جس کی سرنگیں مقامی انجنیئر کی صوابدید کے مطابق بند اور کھولی جا سکیں۔ دستور کی دھڑکن میں تعطل موت کا اعلان ہوتا ہے

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پاکستان میں جمہوریت بیوہ ماں کا سوتیلا بچہ ہے جو ماموں کے گھر میں پرورش پاتا ہے۔ اور گھر بھی ایسا ’جہاں بھونچال بنیاد فصیل و در میں رہتے ہیں‘۔ اہل کراچی کے سیاسی شعور کی زندگی آفریں حرارت سے نچنت ہو کر دو گھڑی کو نیند لیتے ہیں تو کیپٹن صفدر کی گرفتاری کی خبر پر آنکھ کھلتی ہے۔ کیا خاک جیے کوئی، شب ایسی سحر ایسی۔

واقعات سمندری طوفان کی لہروں جیسی غضب ناک تندی سے یلغار کر رہے ہیں۔ یہ واقعاتی حقیقت ہے کہ 20 ستمبر سے اب تک کے چار ہفتوں میں ہماری سیاسی تاریخ کی فیصلہ کن صف بندی مکمل ہو گئی ہے۔ صحافی کے لئے واقعات کی پیش بینی ممکن نہیں ہوتی، حالات کی سمت البتہ بتائی جا سکتی ہے۔ گوش فیصلہ ساز تک رسائی رکھنے والے کچھ محترم صحافی واقعات کی تفصیل تک بتایا کرتے ہیں لیکن فیصلہ ساز بھی تو اپنا ارادہ ہی بتا سکتا ہے، فریق ثانی کی حکمت عملی نہیں جانتا۔ سیاست ایک سیال نامیاتی عمل ہے جو ان گنت عوامل کے تعامل سے صورت پذیر ہوتا ہے۔ 14 اگست 73کو دستور پاکستان نافذالعمل ہوا اور جولائی 77میں معطل کر دیا گیا۔ آئین کی تنسیخ کو تعطل کی اصطلاح دینا مرحوم چیف جسٹس یعقوب علی کی تجویز تھی۔ بدگمانی اچھی بات نہیں۔ جسٹس یعقوب علی نے غالباً بندوق کے جبر اور وفاق کے مستقبل میں درمیانی راہ نکالنا چاہی تھی۔

دستور مگر تربیلا کی جھیل نہیں جس کی سرنگیں مقامی انجنیئر کی صوابدید کے مطابق بند اور کھولی جا سکیں۔ دستور کی دھڑکن میں تعطل موت کا اعلان ہوتا ہے۔ خود جسٹس یعقوب اس معطل شدہ آئین کے تحت محض سترہ روز نکال سکے اور 22 جولائی 77 کو گھر بھیج کو گھر بھیج دیے گئے۔ بندوق دستور کی نزاکت نہیں سمجھتی اس لئے بندوق کو دستور کے تابع رکھا جاتا ہے۔ 14 جون 48کو بابائے قوم نے سٹاف کالج کوئٹہ میں یہی تلقین کی تھی۔ ہم نے یہ حرف محرمانہ نظر انداز کر دیا جس سے یہ افسوس ناک نتیجہ نکلا کہ جس شخص نے 56کے آئین پر دستخط کیے ، اسی نے 7 اکتوبر 58کو اسے منسوخ کر دیا۔ جس کی ذات گرامی سے دستور 62کا صدور ہوا، اسی نے جاتے جاتے اس دفتر بے معنی کی جان قبض کر لی۔

جس روز قائد اعظم کا پاکستان دو لخت ہوا، اس شام اخبارات کے ٹیلی پرنٹر پر ایک خود ساختہ دستور کی وعید آ رہی تھی۔ ایک صاحب نے دستور کو بارہ صفحات کا کتابچہ قرار دیا، ایک اور صاحب نے فرمایا کہ انہوں نے دستور کا عضو کاٹ کر قوم کا بدن بچا لیا۔ صاحب حکم کو خبر نہیں تھی کہ ایک زندہ قوم ناسور کے اختلال کی متحمل نہیں ہوتی۔ شہری کی خوشحالی، معیشت کی ترقی اور قوم کا احترام دستور کی بالادستی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس فرض کی ادائی تاریخ کے ہر موڑ پر نئے تقاضے لے کر آتی ہے۔ آئیے آپ کو ایک قصہ سنائیں۔

بھٹو صاحب کو پھانسی ہو چکی تھی۔ عدالت کا قلم اور تارا مسیح کا ہاتھ تو نادیدہ عزائم کے آلات کار تھے۔ رات اس قدر اندھیری تھی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ ایسے میں محترمہ نصرت بھٹو، نوابزادہ نصراللہ اور دوسرے زعما نے ایم آر ڈی کا ڈول ڈالا۔ جنرل (ر) ٹکا خان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے۔ بلوچستان پر فوج کشی کے زخم ابھی تازہ تھے۔ جمہوریت کی بات ہو اور میر غوث بخش بزنجو موجود نہ ہوں، ممکن نہیں تھا۔ 6 فروری 1981کو لاہور میں ایم آر ڈی کے تاسیسی اجلاس کے بعد ایک صحافی نے بزنجو صاحب سے پوچھا کہ ٹکا خان کے ساتھ بیٹھنا کیسا لگا؟ تدبر کے اس پتلے کا جواب مختصر تھا، ’یہ تاریخ کا جبر ہے‘۔

سچ پوچھیے تو جمہوریت تاریخ کے جبر کی پہچان ہی کا نام ہے۔ 18 اکتوبر کی شام کراچی کی سڑکوں پر نواز شریف اور مریم نواز کی تصاویر پیپلز پارٹی کے سرنامے کے ساتھ آویزاں ہوئیں۔ مریم نواز نے اپنی تقریر میں بلاول بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے گویا جمہوری سیاست کا بنیادی اصول بیان کیا۔ ’ہم اور آپ ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑیں گے لیکن اختلاف میں احترام قائم رکھیں گے‘۔ چشم براہ تھی، دیکھیے ہم کو چاہنے والے کب چاہیں۔

لمحہ موجود کے کچھ زمینی حقائق عرض کرتا ہوں۔ امریکا اور چین کی اقتصادی جنگ کے سائے پاکستان سمیت ہمارے خطے پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ موجودہ حکومتی بندوبست کی معیشت ناکام ہو چکی ہے اور اس بیان کے قابل تصدیق اعداد و شمار موجود ہیں۔ بازار اور شہر کا باہمی اعتماد سراج تیلی صاحب کے آموختے سے برامد نہیں ہوتا۔ ملک کی مسلمہ جمہوری قوتوں میں زبردست اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں زیر زمیں کشمکش کے واضح آثار ہیں۔ مقتدر قوتوں نے مفاہمت کی بجائے زورآوری کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسے میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے جواز اور ڈھنگ نے دستوری حکومت کا نقاب اتار پھینکا ہے۔

مزار قائد اعظم کی حرمت اور تحفظ کے 50 سالہ پرانے قانون کا ایک دلچسپ پس منظر ہے۔ 6 ستمبر 1971کو کچھ حکومتی زعما نے مزار قائد پر جمع ہو کے سرکاری بھاشن دیا تھا۔ اس وقت یحییٰ خان اور بھٹو صاحب میں آئینی بحران پر مذاکرات جاری تھے۔ بھٹو صاحب سیاسی پہل کاری کا لمحہ پہچاننے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ 11 ستمبر کو مزار قائد پر پہنچ گئے اور ایک دھواں دھار تقریر داغ دی۔ ایک جملہ تھا، ’اے قائد، کیا تم نے اس پاکستان کا خواب دیکھا تھا جس میں ہمیں تمہارے مزار پر بھی فریاد کی اجازت نہیں؟‘

اس تقریر کا مسودہ آسانی سے مل جاتا ہے۔ ضرور پڑھیے گا۔ بھٹو صاحب کی اس تقریر کے ردعمل میں یحییٰ حکومت نے 14 اکتوبر 1971 کو

The Quaid Azam’s Mazar (Protection and Maintenance) Ordinance XXVII of 1971

جاری کیا تھا۔ صفدر اعوان کو گرفتار کرنے والوں نے یحییٰ آمریت کے قانون کا سہارا لیا ہے۔ گویا تاریخ کا جبر نہیں پہچانتے۔ مرحوم علی افتخار جعفری یاد آ گئے:

ہر اک نوشتہ و فرماں پہ خاک ڈالتے ہیں

غلام فرق خدایاں پہ خاک ڈالتے ہیں

About The Author