نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی مہینوں سے فریاد کئے جارہا ہوں کہ اندھی نفرت و عقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں ’’معروضی حقائق ‘‘عنقا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ’’سچ‘‘ محض ذاتی یا گروہی تعصبات کے اظہار کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ ایسے ماحول میں ’’صحافی‘‘ سے توقع فقط اتنی ہوتی ہے کہ وہ ’’غیر جانب داری‘‘ والی ’’منافقت‘‘ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فریقین کے پھیلائے ’’بیانیوں‘‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔ اس ضمن میں ہچکچاہٹ یا تحمل اسے ’’حکومت کا غلام ‘‘ یا ’’لفافہ‘‘ ہوا دکھاتی ہے۔
تحریری قانون اور ضوابط تک ہی محدود رہیں تو نواز شریف کے داماد کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر نے اتوار کے روز کراچی میں مزارِ قائد پر حاضری کے دوران اس کے تقدس کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا۔ خطا یقینا سرزد ہوئی۔ مذکورہ خطا جرمانے کے علاوہ تین برس تک پھیلی سزا کی مستحق بھی قرار پاسکتی ہے۔ اس ضمن میں حتمی فیصلہ لینے کا حق و اختیار مگر عدالت ہی نے استعمال کرنا ہے۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر چھائے حامیوں نے البتہ یہ خطا سرزد ہونے کے فوری بعد اسے بھرپور انداز میں ہیجان خیزی کے لئے استعمال کیا۔ وفاقی حکومت کے لگائے گورنر سندھ نے اپنے صوبے کی پولیس کے آئی جی کو مناسب کارروائی کا ایک بیان کے ذریعے حکم بھی صادر فرمادیا۔ مذکورہ حکم کی تعمیل کے لئے مگر یہ لازمی نہیں تھا کہ پیر کی صبح کراچی کے ایک ہوٹل کے اس کمرے پر دھاوا بول دیا جائے جہاں کیپٹن صفدر اپنی اہلیہ مریم نواز کے ہمراہ قیام پذیر تھے۔ ہوٹل کے استقبالیے سے کوئی پولیس افسر انہیں لابی میں طلب کرسکتا تھا۔ کیپٹن صفدر مجوزہ فون کے بعد کھڑکی سے کود کر فرار ہونے کی ہرگز کوشش نہ کرتے۔ تھوڑے شور شرابے کے بعد بالآخر پولیس کے ہمراہ چلے جاتے۔ ’’پُلس‘‘ مگر ’’پُلس‘‘ ہوتی ہے۔ جس انداز میں اس نے کیپٹن صفدر کو گرفتارکیا اس نے مزارِ قائد کے تقدس والے معاملے کو اب دُھندلادیا ہے۔ یہ کالم لکھنے تک سندھ حکومت کے متحرک وزراء اصرار کررہے تھے کہ انہوں نے اس گرفتاری کا حکم نہیں دیا۔ کیپٹن صفدر کے خلاف کارروائی ’’کسی اور‘‘ کے ایما پر ہوئی۔
حقائق سے قطعاََ بے خبر مجھ ایسا شخص بآسانی تصور کرسکتا ہے کہ سندھ حکومت یہ مؤقف اختیار کرنے کو کیوں مجبور ہورہی ہے ۔ ایک حوالے سے کیپٹن صفدر اور ان کی اہلیہ سندھ حکومت کے ’’مہمان‘‘ تھے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انہیں PDM کے جلسے میں شرکت کے لئے مدعو کیا تھا۔ سندھیوں میں مہمان نوازی کی روایات بہت قدیم اور مستند ہیں۔ صحرائی میزبانی کی حقیقی ترجمان۔ نواز شریف کے دامادکی گرفتاری مگر ان روایات کے تناظر ہی میں رکھتے ہوئے زیر غور نہیں لائی جاسکتی۔
سیاسی حوالوں سے اہم ترین سوال اب یہ اُٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کہیں پیپلز پارٹی نے PDM میں شامل ایک اہم ترین جماعت کے نمایاں ترین نمائندے کو ’’گھر بلوا کر‘‘ گرفتار تو نہیں کروایا۔ سوشل میڈیا پر متحرک کئی حکومت نواز اینکر اس سوال کو دہراتے ہوئے نہایت اعتماد سے دعویٰ کررہے ہیں کہ مذکورہ گرفتاری کے بعد سندھ حکومت کی بیان کردہ کہانی محض بہانہ سازی ہے۔ اس کی بدولت PDM کی صورت قائم ہوا اتحاد اپنے دوسرے جلسے کے بعد ہی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ تحریک انصاف کے وزراء کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے ضمن میں سندھ حکومت کی اختیار کردہ لاتعلقی کو حکومتی حوالوں سے ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ بتارہے ہیں۔
لاتعلقی والے بیانات کو اجاگر کرتے ہوئے بلکہ اصرار ہو رہا ہے کہ سندھ میں گورننس کے مبینہ طورپر بدترین عالم کی بنیادی وجہ وہاں موجود حکومت کا قانون کو ہر صورت لاگو کرنے کے ضمن میں اختیار کردہ بے اعتنائی ہے۔ سندھ حکومت کی ممکنہ برطرفی کا جواز فراہم کرتی ’’فردِجرم‘‘ میں گویا ایک اور خطا کا اضافہ ہوگیا ہے۔ کیپٹن صفدر کے دفاع میں نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ کے پُرجوش حامی یقینا یہ کہانی بنائیں گے کہ طویل جمہوری جدوجہد کے ذریعے قیام پاکستان کو یقینی بنانے والے قائد کے مزار پر حاضری دیتے ہوئے ان کے رہ نما جذبات پر قابو نہ رکھ پائے۔
مجذوبانہ انداز میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والا نعرہ بلند کردیا۔ مزار قائد کے تقدس کی بات چلے گی تو کراچی کے شہریوں کو ان کی جانب سے یاد دلایا جائے گا کہ بانی پاکستان کی ہمشیرہ-مادرِ ملت- کو 1964 کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے ہاتھوں ’’شکست دلوانے‘‘ کے بعد اس شہر کے لیاقت آباد میں گولی کس ’’فرزند‘‘ کا استقبال کرتے ہوئے چلائی گئی تھی۔ قائداعظم کے احترام اور تقدس کے تناظر میں ان کے فرمودات کو یاد کرتے ہوئے سوال یہ بھی اٹھائیں گے کہ آج کا پاکستان ان کی تصورشدہ مملکت کی حقیقی ترجمانی کررہا ہے یا نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے بیانیے گویا نئی جہتوں کے ساتھ مزید ہیجان خیزی کا سبب ہوں گے۔ ذاتی طورپر میں اس نئی جہت کے بارے میں کافی حیران اور تھوڑا پریشان ہوا ہوں۔ اپنے کمرے میں تنہا بیٹھے اتوار کی شام میں نے موبائل فون پر یوٹیوب کی بدولت PDM کے کراچی والے جلسے کو بہت غور سے دیکھا تھا۔ گوجرانوالہ والے جلسے کے48 گھنٹے گزرجانے کے بعد یہ جلسہ مجھے سیاسی تنائو کو بڑھانے کے بجائے اس میں شعوری طور پر کمی لانے کی کوشش کرتا محسوس ہوا۔ نواز شریف نے اس سے خطاب نہیں کیا۔
مریم نواز کی تقریر بھی ایک مخصوص تناظر میں ’’وضاحتیں‘‘ دیتی سنائی دی۔ یوں گماں ہوا کہ کوئٹہ میں 25 اکتوبر والے جلسے سے قبل ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھا جارہا ہے۔ اپوزیشن کو جن سے شکوے شکایات ہیں انہیں سوچ بچار کے لئے دانستہ طورپر تقریباََ ایک ہفتہ دیا جارہا ہے۔ بلاول بھٹو سمیت چھوٹے صوبوں کے کئی رہ نمائوں کی جانب سے ہوئی تقاریر نے مجھے احساس بلکہ یہ دلایا کہ سندھ اور بلوچستان سے ملحق جزائر کے بارے میں جاری ہوئے حالیہ صدارتی آرڈیننس نے وفاق اور صوبوں کے مابین اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے ایک نیا سوال کھڑا کردیا ہے۔
پنجاب اور اسلام آباد میں مقیم افراد کی بے پناہ اکثریت کو اس تناظر میں ابھرتے بحران کی شدت کا ہرگز اندازہ نہیں۔ اطمینان مگر یہ سوچتے ہوئے بھی محسوس ہوا کہ تمام تر تلخیوں کے باوجود PDM کے جلسے سے مخاطب ہر مقرر آئینِ پاکستان کے مکمل احترام پر آمادہ نظر آیا۔ قومی سلامتی کو یقینی بنانے کی خاطر ایسے وعدوں کا خیرمقدم لازمی ہے۔ ہمارے مین سٹریم میڈیا نے لیکن”Live Coverage” کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی ان تقاریر کو نظرانداز کیا۔ اتوارکے جلسے میں دانستہ نظر آنے والی ’’احتیاط‘‘ مگر پیر کی صبح ہوئی گرفتاری کے بعد اب برقرار نہیں رہ پائے گی۔ پہلے سے جاری تنائو میں بلکہ اس کی وجہ سے مزید شدت آئے گی۔ کاش اسے کسی صورت ٹالا جاسکتا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ