ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ڈی ایم کا کاروان جمہوریت گوجرانوالہ کے بعد کراچی اس دن پہنچا جس دن پیپلزپارٹی سانحہ کارساز کے شہدا کی جمہوریت کے تسلسل اور بقا کے لیے دی جانے والی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے ۔18 اکتوبر کو جلسہ میں شرکت کرنے کے لیے ن لیگ کی رہنما مریم نواز شریف جب کراچی پہنچیں تو کارکنوں کے ہمراہ بابائے قوم کے مزار پر حاضری دی ۔وہاں پر ووٹ کو عزت دو کے فلک شگاف نعروں کو حکومتی وزرا نے مزار قائد کی توہین قرار دیتے ہوے قانونی چارہ جوئی کا عندیہ دیا۔جلسہ تو شام کو ہونا تھا مگر اپوزیشن کے اس عمل اور اس پر حکومتی وزرا کے ردعمل نے عوام اور میڈیا کی توجہ اس جانب مبذول کردی ۔سوشل میڈیا پر اس عمل کی حمایت اور مخالفت میں ٹرینڈ چل نکلے۔
ایسے میں قابل احترام محترمہ نورالہدیٰ شاہ صاحبہ نے تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کو جوابی ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ شرم؟70 سال سے ماری ماری پھرتی دربدر قوم اپنے بابا کے مزار پر احتجاج بھی نا کرے۔کیوں؟یہ قوم کے باپ کا مزار ہے نا کسی غاصب کے باپ کا تومزار نہیں ۔یہی نہیں بلکہ ایک اور ٹوئیٹ میں انہوں نے کہا کہ گریٹ یہ ہی صحیح جگہ ہے احتجاج رقم کرنے کی سوال اٹھانے کی۔جناح صاحب ولی اللہ نہیں لیڈر ہیں، لیڈر ہی جواب دہ ہوتا ہے تاریخ کے ہر اتار چڑھاو کا ۔جناح صاحب اٹھیے اٹھیے پلیز بتائیے یہ ملک کس کے لیے بنایا تھا؟اس زمین پر بسنے والی عوام کے لیے یا ۔۔۔۔؟
سندھ کی بیٹی کا باباے قوم سے یہ سوال نیا نہیں اس سے قبل پنجاب کی بیٹی امرتا پریتم نے تقسیم کے وقت پنجاب کی بربادی پر وارث شاہ کو مخاطب کرتے ہوے سوال کیا تھا کہ کہ اج آکھا وارث شاہ نوں کتھوں قبراں وچوں بول۔جواب اس وقت بھی نہیں ملا تھا جواب آج بھی نہیں ملا۔شائد ان سوالوں کے جواب ملتے ہیں جن کے جواب کسی کو معلوم نا ہوں۔اپنی غلطیوں ، کوتاہیوں کے سبب جو سوال پیدا ہوں ان کے جواب نہیں ملتے۔سندھ کی بیٹی نورالہدیٰ شاہ کتنی سادہ ہے جو باباے قوم سے سوال کرتی ہے وہی بابائے قوم جس کی ایمبولینس خراب ہونے کے سبب سڑک کے کنارے کھڑی رہی۔اس کے بے چاری بہن شدید گرمی اور حبس میں نیم جاں بھائی کے چہرے سے مکھیاں ہٹاتی رہی اور دوسری گاڑی کا انتظار کرتی رہی۔وہی بہن جس کو انتخابات میں غدار قرار دے کر دھاندلی کے زریعے شکست دی گئی۔اسی مزار میں نواب لیاقت علی خان بھی مدفن ہیں جن کا بطور وزیراعظم قتل ہوا اور بعدازاں ان کے قتل کی پولیس فائل ہی گم کردی گئی۔ان مظلوموں سے کیسے سوال کیسے جواب۔
پی ڈی ایم کا کراچی کا جلسہ بھی توقع کے عین مطابق رہا۔قائدین نے تقرریں کیں اور تبدیلی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ہر موضوع پر کھل کر بات ہوئی۔عوام کو درپیش مسائل پر حکومتی کارکردگی کو ہدف تنقید بنایا گیا۔سب سے اہم بات یہ کہ بلاول بھٹو زرداری ، مریم نواز صاحبہ کے بعد پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے بھی عمران خان کو کشمیر فروش قرار دے دیا۔میں نے بہت پہلے کہیں لکھا تھا کہ مقبوضہ کشمیر پر حکومت کا کمزور موقف اور ناقص منصوبہ بندی اس کے گلے پڑے گی اور آئندہ انتخابات میں یہ اپوزیشن کی تقاریر کا اہم نکتہ ہوگا مگر یہ بات تین سال قبل ہی زیر بحث آ گئی۔مقبوضہ کشمیر کے ایشو پر اپوزیشن کا بڑھتا ہوا دباو حکمران جلد یا بدیر محسوس کریں گے اور شاید ہی ان کے پاس اس کا کوئی جواب ہو۔
اپنی تقریر میں فوج کو پلکوں سے تشبیع دینے والے مولانا فضل الرحمن کی نظر میں موجودہ حکومت غیر آئینی اور دھاندلی زدہ ہے ۔یہی نہیں بلکہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ سلیکٹرز اور سلیکٹڈ کو ہمارے پیج پر آنا پڑے گا ورنہ ان سب کو جانا پڑے گا۔اپوزیشن کا بیانیہ توقع کے عین مطابق آئے روز سخت ہورہا ہے۔ سیاست میں اداروں کی مداخلت کو بند کرنے اور اداروں کا آئین کی متعین کردہ حدود کے اندر رہ کر کام کرنے کا مطالبہ آنے والے دنوں میں شدت اختیار کرتا جائےگا۔مارچ سے قبل اگر مفاہمت کی کوئی راہ نا نکالی گئی تو معاملات بند گلی میں پہنچ جائیں گے۔بات اگر اجتماعی استعفوں تک پہنچ گئی تو حکومت کا اخلاقی اور قانونی جواز ختم ہوجائے گا۔اب بھی وقت ہے اپوزیشن کے تحفظات کو دور کرک معاملات کو سنبھالا جاسکتا ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپوزیشن کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے ۔قید ،جلاوطنی ، کرپشن اور غداری کے الزامات کا سامنا کرتی ہوئی اپوزیشن کے پاس سوائے جدوجہد کے کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔حکومتی ناقص کارکردگی نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور حکومتی سپورٹرز بھی ان حالات سے مایوسی کا شکار ہیں ۔اگر کوئی اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ اپوزیشن اپنے موقف میں نرمی برتے گی اور معاملات بہتر ہوجائیں گے تو وہ اپنی اس سوچ کو بدل لے تو اچھا ہے ۔کیونکہ اپوزیشن کو علم ہے کہ اگروہ اپنے موقف سے دستبردار ہوئی تو اس کے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔
ان حالات میں تو یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کا جانا طے ہوگیا ہے۔ساری جاتی دیکھ کے آدھی دیجیو چھوڑ کے مصادق تبدیلی سرکار کی قربانی کوئی مہنگا سودا نہیں ہوگا۔جو بھی ہے معاملات کو مزید بگاڑ سے بچانے کے لیے مقتدر حلقوں اور سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر کوئی قابل قبول حل تلاش کرلینا چاہیے ۔جو فیصلہ چند ماہ بعد ہونا ہے وہ اگر اب ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے ۔یہ بھی طے ہے کہ عوام کے مسائل پھر بھی حل نہیں ہونے مشکلات کم نہیں ہونی بلکہ حالات موجودہ صورتحال سے بھی زیادہ ابتر ہوجائیں مگر جب ملک کی سیاسی قیادت مل بیٹھ کر کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کرے گی اور درست سمت میں سفر شروع کرئے گی تو حالات بھی بتدریج بہتر ہوتے جائیں گے۔مگر اس کے لیے شرط ہے کہ عوام کا حق حکمرانی تسلیم کیا جائے اور صاف شفاف انتخابات کے نتیجے میں عوام کی منتخب کردہ حکومت کے فیصلوں کو من وعن تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل کیا جائے۔
برائے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ