آصف چغتائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوتم بدھ لگ بھگ 6 سو سال قبل از مسیح میں ایک برہمن سماج اختتام پزیر تھا تب گوتم ساقیا کھشتری قوم میں پیدا ہوا گوتم بدھ کے والد راجہ تھے جنکا نام سدھومن تھا اور اسکی ریاست بہار موجودہ ہندوستان کے قرب او جوار میں واقع تھی کچھ لوگوں کا خیال ہے اسکی ریاست بنارس شہر سے سو میل شمال میں واقع تھی گوتم کی پرورش ایک مہاراجہ کی طرح ہوئی اسکا باپ اسکو ایک بہادر اور جنگجو راجہ بنانا چاہتا تھا اس وجہ سے گوتم کی تربیت ایک جنگجو کے لحاظ سے کئ گئ گوتم کو نیزا بازی،تیر اندازی ،گھڑ سواری اور شمشیر زنی سیکھائی گئ۔
گوتم کی شادی اسکی عمر جب اٹھارہ سالی کی ہوئی تو گوتم کی شادی ایک خوبصورتی رانی (یسورعی) سے ہوئی شادی کے دس سال بعد گوتم کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا ۔گوتم کی پیدائش کے وقت نجومیوں نے اسکے باپ کو پشین گوئی کی تھی یا تو آپکا بیٹا بہت بڑا راجہ بنے گا یا پھر سادھوں لیکن جو بھی بنا اس جیسا دنیا میں اور کوئی ایسا نی بن پائے گا اگر بادشاہ بنا تو سب سے بڑا بادشاہ ہوگا اگر سادھوں بنا تو رہتی دنیا تک اسکا نام رہے گا ۔
سادھوں بننے کا سفر اور گوتم
باپ کی ہزار کوشش کے باوجود گوتم بادشاہ نا بن سکا کیونکہ قدرت اسکو سادھوں بنانا چاہتی تھی گوتم بچپن ہی سے غورو فکر کرنے والے تھے زبان کے بہت میٹھے اور دل کے بہت نرم تھے گوتم انسانوں ہی نی تمام مخلوق پرترس کھاتا اور رحم کرتا گوتم کے دل میں اتنا ترس تھا کے ایک دن شرط لگائی اور شکار کو چل نکلا کمان تان کر نشانہ بھی لگا لیا لیکن کیا دیکھتا ہے کے ہرن معصومانہ انداز میں گھاس کھا رہا ے وہی تیر کمان نیچے گرا دیا اور فکر میں ڈوب گیا اور بولا افسوس اس ہرن نے میرا کیا بگاڑا ہے ایک اور مقابلے میں گھڑ دوڑ میں گھوڑے کو دوڑا رہے تھے گھوڑا بجلی کی رفتار سے دوڑ رہا تھا اور لگتا تھا گوتم ابھی ریس جیت جائے گا لیکن اختتامی لائن تک پہنچنے سے پہلے گھوڑا ہانپنا شروع ہو گیا تو گوتم نے ریس وہی چھوڑ دی اور یہ الفاظ نکالے افسوس تفریح کی خاطر ایک وفادر جانور کو ایسا ستانا کہاں کا انصاف ہے۔ بہار کا موسم تھا باپ نے کہاں آؤ باہر سیر کو چلتے ہیں گوتم اور اسکا باپ جب باغ کی طرف روانہ ہوئے تو کیا دیکھا ہر طرف پھول کھلے ہیں درخت پھل سے لدے ہوئے ہیں اور ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہے لیکن اچانک گوتم کی نظر ایک کسان پر پڑی جو بیل کو لکڑی کے ڈنڈے سے مار رہا تھا اور ہل چلا رہا ہو بیل تکلیف کی شدت سے بیٹھا جا رہا ہو پھر اس نے کبوتر کو دیکھا جو کیڑے مکوڑے کھا رہا تھا اور اچانک چیل کبوتر کو جھپٹی اور اسکو لے اڑی ان مناظر نے بہار کا سارا مزہ ختم کر دیا یہ دیکھ کر گوتم کو خیال آیا دنیا خراب خانہ ہے ہر جاندار کا دشمن اگلا جاندار ہے چاہینے انسان ہو یا کیڑا یہ کہتے ہوئے گوتم بولا کیسا تماشہ ہے یہ چل اپنے گھر چل کچھ دن بعد گوتم ایک خواب دیکھتا ہے ایک بوڑھے کو جو اتنا کمزور اور نحیف ہوتا ہے نا چل سکتا ہے نا بیٹھ سکتا ہے نا ٹھیک سے کھا سکتا ہے وہ بوڑھا گوتم کو کہتا ہے ایکدن تو بھی میرا طرح ہو جائے گا۔ خواب میں آگئے گوتم دیکھتا ہے کوئی بیمار ہے درد سے کراہ رہا ہے اور آواز آتی ہے گوتم ایک دن تو بھی بیمار ہوگا اور اسطرح درد سے کراہ رہا ہوگا پھر دیکھتا ہے گوتم ایک مردہ شخص زمین پر پڑا ہے اسکا جسم ٹھنڈا ہوگیا ہے جسم کے اعضا اکڑے ہوئے ہیں اور وہی آواز بولتی ہے گوتم ایک دن تم بھی ایسے ٹھنڈے اور اکڑے ہوئے جسم کی طرح ہو جاؤ گئے جلد تم بھی مر جاؤں گے اس خواب کے کچھ عرصے بعد گوتم گھر چھوڑ کر جنگل کی طرف نکل گیا اس وقت گوتم کی عمر تیس سال تھی کھشتریوں کی طرح لمبے بال منڈوا دیے قیمتی کپڑے اور زیورات اتار پھینکے اور سادھوں کی طرح پھٹے پرانے کپڑے پہن لیے سات برس تک جنگل میں جوگ اختیار کیا اور ایک چیز پر ہی دھیان لگایا جو زندگی میں دکھ درد اور تکلیف ہے اس سے کیسے رہائی ہو جنگل میں برہمن رہتے تھے گوتم انکے ہاس گئے لیکن وہ بھی ان چیزوں سے نجات نا دلا سکے پھر گوتم پٹنہ کے گھنے جنگلات میں چلا گیا اور چھ برس عبادت ،ریاضت ،بھوک پیاس اور خود کو مارنے میں گزرا دیے لیکن پھر بھی ابدی خوشی حاصل نا کر پائے بدھ گیاکا مندر اس بات کی نشانی ہے کہ یہاں گوتم نے چھ سال گزارے۔
نروان کی طرف سفر ۔
آخر ایکدن گوتم وہ چیز حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا جسکی تلاش میں وہ سالوں سے بھٹک رہا تھا گوتم املی کے پیڑ کے نیچے دھیان لگائے بیٹھا تھا اسکو روشنی محسوس ہوئی دل کو اطمینان آ گیا گوتم کو پتہ چلا فاقے ،اپنے آپکو مارنے سے کچھ حاصل نی ہوتا اطمینان تب ہوتا ہے کہ دنیا میں نیک اور پاک زندگی بسر کرو سب پر رحم کرو اور کسی کو مت ستاؤ گوتم کو یقین ہوگیا کہ نجات کا یہی سچا راس
تہ ہے تب جا کر گوتم نے بدھ کا لقب اختیار کیا اور گوتم بدھ کہلوایا گوتم جنگل سے نکلا اور بنارس میں تبلیغ شروع کر دی اور پھر دیس بدیس پھرنے لگا گیا پہلے تین سال کی تبلیغ میں ساٹھ چیلیں جمع کئیے اور انکو بدھا فلاسفی لوگوں تک پہنچانے کے لیے مختلف سمعتوں کی طرف روانہ کیا گوتم خود راج گڑھ کی طرف روانہ ہوگیا وہاں راجہ پرجہ اور باقی لوگ بدھا فلاسفی کے پیروکار بنے اسکے بعد گوتم بدھ اپنے باپ کے راجدھانی کی طرف گیا جہاں اسکا بوڑھا باپ حکمران تھا جب گوتم یہاں سے گیا تھا تو شہزادہ تھا لیکن جب لوٹا تو تن پر زرد لباس ہاتھ میں کٹورہ سر منڈھا جوگی تھا جب باپ ،بیٹے بیوی اور تمام ساقیا قوم کے لوگوں نے گوتم بدھ کا واعظ سنا تو سب گوتم کے چیلیں بن گئے اسکے 45 برس گوتم نے ہر کونے میں اپنی فلاسفی پھیلائی بدھ کی بنیادی تعلیمات کو بدھوں میں چار اعلی سچائیاں کے ایمان سے سمیٹا جاتا ہے
چار بنیادی نکات
1انسانی زندگی اپنی جبلی حثیت میں دکھوں کا مسکن ہے۔
2 ۔اس ناخوشی کے سبب انسانی خودغرضی اور خواہش ہے۔
3.انفرادی خودغرضی اور خواہش کو ختم کیا جا سکتا اور ایسی کیفیت پیدا کی جا سکتی ہے جس میں خواہشات اور عارضوں فنا ہوجاتی ہے اسکو نروان بولا جاتا ہے جسکا مطلب پھٹ پڑنے کے ہیں
4۔اس خودغرضی اور خواہش سے فرار کا زریعہ ۔
اسطرح گوتم نے آٹھ راہ راست دیے
1راست نقطہ نظر
2.راست سوچ
3.راست گوئی۔
4.راست بازی
5.راست طرز اے بودوباش
6.راست سعی
7.راست زہن
8 راست تفکر
بدھ مت کی کامیابی یہ تھی اس مے ہندؤں کے برعکس زات پات کا سسٹم نی تھا بدھ کی وفات کے بعد اسکے پیروکار پھیل گئے لیکن بدھ ازم کو نقصان اس وجہ سے پہنچا کے بدھ کی وفات کے کئ سالوں تک اسکی فلاسفی کو تحریر میں نا لایا جا سکا جسکی وجہ سے لوگ مختلف مسالک میں بئنٹنے لگ گئے دنیا میں بدھ کے پیروکاروں کی کل تعداد دو سو ملین کے قریب بدھ ازم واحد مزہب ہے جس میں کسی خدا کی پوجہ پاٹ نی کی جاتی بلکہ گوتم بدھ کی فلاسفی پر عمل کیا جاتا ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر