یونس رومی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خانقاہ حسینیہ کے جگہ آج ایک مندر ہے ۔خانقاہ حسینیہ شکارپور میں عباسی خاندان کے قبریں بھی تھی جن کی مناسبت سے اسے سمادا آشرم کے نام سے جانا جاتا ہے،اسی طرح عباسی خاندان کے گھروں، مسجدوں، خانقاہوں کو مندر وں میں تبدیل کیا گیا ہے،
ہند و پاک میں جس جگھ مسلمان بزرگ کی قبر ہو اور اور ان کے القاب ہندوں کے ہو یا ان کو گالیاں مل رہی ہو تو سمجھ لینا کے عباسی خاندان کے ہی فرد ہے، جیسے لعل شہباز قلندر کو کبھی جھولے لال کا تو کبھی راجہ بھرت ہری کا آستا تو کبھی کچھ اور ، کبھی مذہب تبدیل تو کبھی مسلک کا جھنڈا تو کبھی بکواسیات ،،، تہمات اور بہت کچھ ،، پر کسی نے ان پر قابض لوگوں کے نہ نسل کا پتہ کیا اور نہ ان کے شجروں کا، کیونکہ خد کے نہ نسل کاپتہ نہ ہو تو وہ ہمیشہ دوسروں پر ہی کیچھڑ اچھالتے رہتےہیں، ، بقول بشیر احمد گردیزی صاحب کے کتاب مارواڑ میں سندھی حکمران میں لکھتا ہے کہ احمد آباد میں مدفون بوہری فرقے والے جن کو اپنا امام مانتے ہیں سرکار اول شہید فخرالدین محمد جو کے عباسی ہیں ۔ اڈیرو لال میں مدفوں شیخ طاہر بھی عباسی ہیں، مندر کا نام نشان تک نہیں زبردستی کا مندر بنا کر بیٹھ گئے ہیں ، ساد بیلہ شاد بیلہ بھی عباسی خاندان کا آثار ہیں،سچل سرمست جو سید علی بن جلال الدین سرخ پوش بخاری کے بڑے بیٹے ہیں۔ جن پر فاروقی کا تختی لگایا گیا، اسی طرح سخی سرور بھی سید سلطان علی جو سید صدارلدین المعروف راجو قتال کے اولاد ہیں جن پر زبردستی تختی کسی اور کا لگای گیا ہے، بابا بلھے شاہ سید عبداللہ بھی عباسی خاندان سید جلال الدین سرخ پوش بخاری کے اولاد میں سے ہیں،،شاہ عبد اللطیف بھٹائی جو اقوام الدین المعروف قاضی قادن عبا سی خاندان سے ہیں ، جن پر زبردستی بھٹائی کا لقب دیا گیا ہے، مادہو لال حسین جن کیلئے نا زیبا الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ، جو اصل میں عباس ہیں شاہ حسین المعروف شاہ بیگ بن میر غیاث الدین محمد عباسی المعروف لال شہباز قلندرکے بڑے بیٹے ہیں،عباسی خاندان نے 125سال ہند پر مکلمل حکومت کی ، اور سالا سال سے ہند و پا ک کے مختلف علائقوں پر حکومت کی آج عباسی خاندان کی تاریخ کو ایسے باہر نکلا کے پہینک دیا گیا جیسے گیھ سے بال نکال دیا جاتا ہے، عباسی خاندان کے القاب یا جن قوموں سے یاد کیا جاتا ہے وہ یہ ہے، سندھ میں ارغون، ترخان، اوڈ، چنہ ،کلہوڑو، پنجاب میں ، لنگاہ۔ میرنی۔ جولاہا ، بلوچ ہندو، وغیرہ کے ناموں سے جانا جاتا ہے،مطلب جہاں جو قوم قابض ہے تو وہاں کے قابض قوم نے عباسی خاندان کی تاریخ کو اپنا تاریخ بنا کر پیش کیا گیا ہے، ، ،عباسی خاندان کے ہر وہ چیز پر لوگ قابض ہوگئے جن سے عباسی خاندان کے وقار نظر اآتا تھا،
بقول مرزا قلیچ بیگ صاحب کے کتاب قدیم سندھ کے صفحہ نمبر 105سے 126 تک سادات کے حوالے سے لکھتا ہے انجو ی شیرازی سید،مشہدی سید،شکر الاہی سید،مازندانی سید،لودہی سید،سبزواری یا عربشاہی یا میر کی سید،عریضی سید،کاشانی سید،رضوی سید، بخاری سید،میرخانی سید، گیلانی سید ،علوی وغیرہ سید سب اصل میں سب عباسی ہی ہیں ۔
مطلب جہان تک ممکن ہو سکا عباسی خاندان کے لوگوں کو ختم کیا گیا ان کی تاریخ کو تباھ کیا گیا، ان کے آثارات کو ختم کیا گیا،ہندو پاک میں بہت سے نشانا ت آج تک موجود ہیں جن پر تختی کسی اور کا لگا ہوا ہے، شکارپور سندھ کا پئرس عباسی خاندان کے دور میں تھا ، اور شکارپور کی بنیاد ابراہیم یار خان فتح جنگ نے رکھی تھی ،اور اسی خاندان کے باقیات آج بھی شکارپور میں موجود ہے،
گوٹھ حاجی خواستی بروہی میں عباسی خاندان کے افراد موجود ہیں، جو بروہی خاندان کے قبضہ میں ہیں اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں جن پر زبردستی بروہی خاندان کا تختی لگا کر بیٹھ گئے ہیں ۔آج جب پورے ثبوت کے ساتھ مختیار کار آفس شکارپور سے رابط کرتے ہیں تو انکار کے سوائے کچھ نہیں ملتا ہے، کمشنر آف ریفر کیا جاتا ہے تو کمشنر آفس دوبارہ اے سی مختیار کار آفس ریفر کرتا ہے، الٹا عباسی خاندان کے لوگوں کو کہتے ہیں کے اپنا ڈی ،این اے کرائیں، جب کے ان کے پاس سارے ثبوت موجود ہیں ، ان کو حکومت پر بھروسہ ہے ۔پر ان کو کیا علم ہے انتظامیہ میں وہی ظالم یزید کے نسل کے لوگ ہیں جنہوں نے عباسی خاندان کو ختم کیا اور ان کے ملکیتوں پر قابض ہوگئے ہیں، ڈین اے شکارپور اتظامیہ آفس میں کام کرنے والوں کا کروایاجائے، ڈی این اے ان لوگوں کا کروایا جائے جنہوں نے عباسی خاندان کے لوگوں کو شہید کیا ان کے گھروں، ملکیتوں ، حویلیوں، مسجدوں، خانقاہوں ، درگاہوں پر قبضہ کیا ، ڈی این اے ان کا کروایا جائے جنہوں نے عباسی خاندان کے تاریخ کو بگاڑا ہے، سب کو علم ہے کے مختیار کار آفس کا نقشہ کہون تیار کرتا ہے، شام پانچ بجے کے بعد وہاں کے چپڑاسی مختیار کار بن جاتے ہیں، مختیار کار مطلب اے ،سی، عباسی خاندان شکارپور میں صدیوں سے آباد تھے، آج جو عباسی بن کر بیٹھ گئے سب ا تعلق چنہ قبیلے سے ہیں اور زیادہ تر خیرپور کے باشندے ہی ہیں، جن میں بروہی، بلوچ، کھوکھر، کلہوڑو، جامڑا، قلپوٹہ، چانڈیہ، سرائیکی،وغیرہ، شکارپور سندھ کا دارلخلافہ تھا عباسی خاندان کے دور میں، جہاں پر عباسی خاندان کے بہت سے حویلیاں، گھر، مسجد، خانقاہ تھیں ، شکارپور جہاں سے شاہ عنایت لنگا کے مہدویت فرقے کی شروعات ہوئی تھی جس کی نشانی آج بھی مدئجی (مہدی جا) کے نام سے موجو دہے، شاہ عنایت لنگاہ اصل میں لکی ضلع شکارپورکے تھے تبھی اس کے درگاہ پر لکیدر ہے اور ان کے لکی کے رشتیدار لکیار ی کہلاتے ہیں،،، لنگاہ جوگی، سنیاسی، سادھو، رشی ، پنڈت سب ایک ہیں، جیسے بدھ ازم کے بڑے بزرگوں کو بکشو یا بخشو کہلاتے تھے آج بھی لوگ اپنے نام کے ساتھ بخش لگاتے ہیں کیونکہ سندھ بلوچستان بدھ ازم کا گڑھ رہا ہے، راجہ چندر گپت موریا بھی بدھ ازم کے پیروکار تھے، جن کے نام سے ھنگول پارک میں چندر گپت موریا کے نام سے مڈ والکینوز ہیں،
شکارپور کے اآس پاس بہت سے خانقاہیں تھے اور بہت سے دیہاتوں کو صفہ ہستی سے مٹا دیا تھا ، شا ہ جو گوٹھ جو موجودہ حاجی خواستی بروہی کے مقام پر تھا، اسی شاہ کے گوٹھ پر قبضہ کرکے نیا نام دے کربنایا گیا ہے جہاں پر شاہ جو گوٹھ کے نشانات موجود ہیں اور جگہ جگہ شہیدوں کے مزار ہیں ،عباسی خاندان کے حویلیوں پر لوگ آج بھی لوگ قابض ہیں، جہاں آج ایک مدرسہ قائم ہے وہاں ایک درگاہ تھا جس پر زبردستی مدرسہ بنایا گیا، یہ لوگ اب کہون سا دین سکھائینگے،، اسی طرح شکارپور کے شہر کے اندر باہر بہت سے درگاہیں، خانقاہیں تھ جن پر لوگ آج بھی قابض ہیں کچھ پر مندر بنائے گئے، شکارپور میں مندر آج بھی حویلیوں ، خانقاہوں پر بنے ہوئے ہیں، تبھی مندروں پر لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے ، شاید حصہ صحیح نہیں ملا ہوا ہوگا۔ شکارپور کا ایک بہت بڑا خانقاہ جہاں پر سید احمد شہید بھی خلافت تحریک کے دور میں خانقاہ حسینیہ شکارپور تشریف لائے تھے، ہند سندھ میں ایک بہت بڑا مرکز رہا تھاخانقاہ حسینیہ کی کتابیں آج بھی بلیک مارکیٹ میں ملتی ہیں، خانقاہ حسینیہ جو آج کل سمادا آشرم کے نام سے موجود ہے، سمادہی ہندی زبان میں قبر کو کہتے ہیں، جہاں آج بھی قبریں موجود ہیں جن پر قبروں کے اوپر مورتیاں رکھی ہوئی ہیں، خانقاہ حسینیہ ایک بہت بڑی دینی درسگاہ تھی، جہاں سے دین کے تعلیمات حاصل کرنے کے بعد دین کے تبلیغ کیلئے اپنے علائقوں میں چلے جاتے تھے، خانقاہ حسینیہ کو شہید کرنے کا واقعہ بھی عجیب ہے، خانقاہ حسینیہ کے زمین پر تینوں مذاہب کے لوگ قابض ہیں، جو سمجنھے سے قاصر ہے، خانقاہ پر ہندو، خانقاہ کے باغات پر کرسچن اور گھروں پر مسلمان جو صرف نام کے مسلمان تھے، خانقاہ حسینیہ جہاں دن رات دین پہلانے کا کام ہو رہا تھا، پھر کیا ہوا اچانک ختم ہوا اور نام نشان تک نہیں رہا، شکارپور کے لیئے تبھی مشہور ہوگیا ہوگا کے شکارپوری نیت بری، بغل میں چری اور ہاتھ میں قرآن،،، خانقاہ حیسنیہ جہاں دین اسلام کی اشاعت ہو رہی تھی اور ایک اسلامی ریاست میں ایک خانقاہ کو شہید کیا گیا اور وقت حکومت خاموش، یہاں تک خانقاہ حسینیہ کے پاس پولیس سٹیشن بھی پاس تھا ، پولیس کا بروقت نہ پہنچنا بھی اس بات کی تائید ہے کے سب ملے ہوئے تھے، وہ کہون سا قیامت کا سماں ہوگا ہوگا جب خانقاہ کو شہید کیا گیا خانقاہ حسینیہ کو رات کے تاریکی میں شہید کیا گیا جب ساری شہر گھری نیند میں سو رہی تھی، اور جب خانقاہ کے طالبعلم اور ان کے اساتذہ معمول کے مطابق نماز عشا پڑھ کے اپنے اپنے کمروں کے طرف سونے کے کیلئے جانے لگے تو کچھ نمازیں پڑھنے میں مشغول ہوگئے تو کچھ اپنے کاموں میں تو اچانک ایک بہت بڑی لشکر فرقہ پرست، قوم پرست شرپسند عناصرخانقاہ حسینیہ کو اپنے گھیرے میں لے لیا مطلب کسی کو سنبلھنے کا موقعہ تک نہیں ملا، خانقاہ کو فرقہ پرست، قوم پرست شرپسند ونےآگ لگا دی، اساتذہ اور طالبعلموں کو زندہ جلایا گیا اور جو بچ گئے ا ن کو شہید کیا گیا، کسی کو کلہاڑی تو کچھ کو بندوق تو کسی کو ڈھنڈو ں سے مار مار کر شہید کیا گیا، نہ اساتذہ بچ سکے اور نہ طالبعلم اور نہ خانقاہ کے معتمم سب کو بے دردی سے شہید کیا گیا، اور شرپسندوں نے ہلاکوں خان کی یاد تازہ کردی جب بغداد کو تباھ کیا تو وہاں لائبریریوں کو لوٹا گیا اسی طرح خانقاہ حسینیہ شکارپور کے لائبریری کو لوٹا گیا، لائبریری کے قیمتی کتابوں کو لوٹتے رہے آج سی خانقاہ کے کتاب بلیک مارکیٹ میں فرخت ہوتے ہیں،اور بعد میں خانقاہ اور لائبریر ی کو جلایا گیا ،ساری رات خانقاہ کو لوٹتے رہے اور لوگوں کو شہید کرتے رہے پر کوئی خانقاہ کے اور ان کے طالبعلموں کے مدد کیلئے کوئی پہنچ نہ سکا، پولیس دوسرے دن خانہ پوری کرنے کے بعد چلا گیا ، کوئی بچا نہ تھا جو خانقاہ کے دوبارہ بحال کر سکے، اس وقت خانقاہ حسینیہ گدہوں کے رحم و کرم پر تھا، جس کو وقت کے ظالموں نے ایک مندر میں تبدیل کیا، جو آج بھی خانقاہ میں موجود عباسی خاندان کے لوگوں کے قبروں کے موجودگی کے وجہ سے سمادا آشرم کے نام سے موجود ہے، جو کسی بھی لحاظ سے مندر کا نہیں دکھتا ہے اور نہ ہندو آرکٹیکچر جو مندروں کی ہوتی ہےشری بھوج اداسین سمادا آشرم کے نام جانا جاتا ہے اس میں اداسین بابا گرو نانک کے بڑے بیٹے شری رامچند کے بیٹے تھے جو اداسین پنت کے بانی مانے جاتے ہیں، اداسین پنتھ والوں نے جب سکھ حالت جنگ میں تھے تو گردواروں کی سنبھالنے کا کام کرتے تھے، اور جب سکھ طاقت میں آگئے تو اداسی پنتھ والوں کو گردوارون سے بے دخل کیا اور یہ لوگ وہاں سے بے دخل ہوکر سندھ کا رخ کرتے ہیں اور عباسی خاندان کے مزارات ، خانقاہوں، درگاہوں، گھروں پر قبضہ کرنا شروع کرتے ہیں کیوں کی ان کے رشتہ دار ی اور اداسین پنتھ پہلے سے موجود تھے، یہی اداسین پنتھ ہی والے ہیں، جنہوں نے ، اڈیرو لعل۔ سادہ بیلہ، لال شہباز قلندر، سچل سرمست، بھٹائی، سخی سرور۔ مادہو لال حسین وغیرہ پر قابض ہیں،، جن پر اداسی پنتھ کے رسومات واضع ہیں، یہ لوگ سکھ تھے پر جب ان کو بے دخل کیا گیا سکھ ازم سے تو یہ لوگ خد کو ہندو کہلاتے ہیں پر مذہبی عبادات سکھ ازم اور ہندو ازم کا مکسچر ہیں،بابا گرو نانک کو ورون دیوتا کا اوتارجھولے لعل مانتے ہیں، کیونکہ ورون دیوتا ہندوں کا ایک بگھوان کا نام ہے جو پانی کا دیوتا ہے جن کی گاڑی مگر مچھ اور ہتیار رسی ہے، اور دریا سندھ کے اطراف کے لوگ دریا پنتھی کہلاتے تھے جو دریا کے ہر چیز کہ پوجا کیا کرتے تھے، منگو پیر جہاں آج بھی مگر مچھ کی پوجا کی جاتی ہے کہنے کو تو مسلمان ہے پر رسومات سارے ہندوں کے ہیں، کچھ کے مطابق بابا گرو نانک شکارپور آئے تھے پر کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں، بابا گرو نانک کے بڑے بیٹے سری رامچند سندھ کے طرف آئے تھے، مندر کے من گھڑت تاریخ کےمطابق بابا گرو ہربجھن صاحب پنجاب سے شکارپور آئے تھے، مندر کے جگہ چمٹہ گاڑ کر اپنی پوجا شروع کردی تھی، جہاں آج بھی بابا گرو ہربجھن صاحب کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہاتھ کا گرنتھ آج بھی سمادا آشرم میں موجودہے،وہ کوئی بھی لکھا سکتا ہے بس نام کرنا کافی ہوتا ہے، جب گرو دیہانت کرتے ہیں تو ان کے لاش پر مسلمان اور ہندو جگڑتے ہیں تو لاش غائب ہوجاتی ہے، یہ کہانی تو کبیر داس اور بابا گرو نانک کیلئے مشہور ہے پر ان لوگوں نے کہانی کو تڑکا لگانے کیلئے اس مواد کو بھی یہاں کینچ لائے ،، دوسرا گرو بابا رام بجھن تھے جن کو کئی تصویر نہیں کھنیچ سکتا تھا ، شاید مندر والوں کے پاس اس وقت کی کیمرا بھی ہوگا، جو تصویر کھینچ نہین سکتے تھے،یہ لوگ کرامات کے آڑ میں کچھ بھی کر سکتے ہیں، مصور تو تھے،اس وقت کیمرا بھی ایجاد ہوا ہوگا ،ایسے کرامات لکھنے سے پہلے پتہ کرواتے کے کیمرا کب ایجاد ہوا تھا، تیسرا گرو روپ بجھن تھے، چوتھا گرو بابا کشن بجھن تھے جو کاشی سے تعلیم حاصل کی تھی، پانچویں بابا گوبند بجھن صاحب تھے، اور چھٹا باب شو بجھن صاحب تھے جن کے دیہانت کے بعد موجو گدی نشین
بابا نارائن داس ہیں۔
اب اگر تاریخ کو دیکھا جاےت کوئی بھی ٹھوس ثبوت نہیں اور کہانی بھی من گھڑت ہے، اگر بابا گرو ہربجھن صاحب پہلے گرو تھے اس نام پر پاکستان اور ہندوستان میں مندر یا آستان ہوتے نہ کے بابا شو بجھن کے نام ، بابا گرو شو بجھن صاحب کے نام پر ہندوستان اور پاکستان میں کولپور ، اندور،ناگپور، جلگاں رسی کیس ، امرواتی میں مندر موجود ہیں،تو کیا بابا گرو شو بجھن صاحب ہی سمادا آشرم کے پہلے گرو ہونگے، جی بابا شو بجھن صاحب ہی پہلے گرو تھے، خانقاہ حسینیہ کو شہید کرنے کے بعد بابا شو بجھن صاحب نے خانقاہ کو مندر بنایا تھا 1969 میں خانقاہ حسینیہ کو شہید کرکے سمادا آشرم مندر بنایا گیا تھا، سمادا مطلب قبریں، آشرم ، مطلب خانقاہ کا ہی ہے ، نام تبدیل کیا گیا باقی مطلب وہی ہے،،
اور شکارپور میں جتنے بھی مندر ہے سوائے کچھ مندروں کے جن کے عمارتی ڈہانچہ ہندو درھم کے مذہبی آستانوں کے طرز پر ہیں باقی سب عباسی خاندان کے گھروں، حویلیوں خانقاہوں پر مندر بنائے گئے ہیں،تبھی ہنومان مندر پر ایک سیاستدان نے قبضہ کیا ہوا ، بدھ آشرم پر ایکسائیز کا دفتر ہے، ہزارید پر ایک مندر پر ایک وڈیرے کا قبضہ ہے ، واگنو در پر ایک مندر پر ایک با اثر آدمی کا قبضہ ہے جس کو عدالت بھی چھڑوا نہ سکے، کیونکہ سب کو پتہ ہے کس طرح عباسی خاندان کے گھروں ، خانقاہوں ، حویلیوں پر مندر بنائے گئے تھے، کیونکہ ٹولہ ایک ہی خاندان کا تھا جس نے خانقاہ حسینیہ کو شہید کیا تھا ، کچھ مسلمان ہوگئے تھے اور کچھ ہندو ،،اور یہ وہ اداسی پنتھ گروپ ہے جن کو سکھوں نے اپنے مذہب سے ہی بے دخل کیا تھا،جو اآج دوسروں کو اپنے مندروں سے بے دخل کرتے ہیں، بقول روشن داس کے ایک سندھ اخبار کے اآرٹیکل کے پورے سندھ میں ایک مندر گروپ آف کمپنیز کے نام سے ایک گروپ ایس ایس ، ڈی ہے اس مندر کمپنی میں سب ہندو سیاستدان ، سیٹ، کمپنی مالکان، حصہ دار ہوتے ہیں، جو اپنے کالے دھن کو سفید کرتے ہیں، اور اپنے مفادات کو ترجیع دیتے ہیں، باقی ہندو درھم کے مسائل وہی پر ہی ہیں،، سمادا آشرم بھی اسی کمپنی کے بورڈ پر ہے،شکارپور میں اور سندھ میں کچھ ایسے مندر ہیں جہاں پر کم ذات شودروں کا جانا ممنوع ہوتا ہے، ہے، ، ، شو بجھن صاحب سمادا آشرم کے اندر ایک تالاب میں چلا کرتے ہوئے ایک زہریلے کیڑے کے کاٹنے سے ان کے پورے جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے، ان کی ایک ٹانگ بھی کاٹنی پڑی تھی ۔اور اسی زہریلے کیڑے کے کاٹنے کیوجہ وفات کر گیئےتھے،
آ ج وہ تالاب موجود ہیں جہاں گرو شو بجھن صاحب نےچلا کاٹا تھ
حاصل مطب سندھ صوفیا کی سرزمین ہے ، جہاں مختلف مذاہب کے آستانین، تیرت موجود ہیں، ہر مذہب امن ، محبت، بھائیچارے کا سبق دیتا ہے،پر یہ کہون سا درھم ہے جہاں لوگوں کے درگاہوں، گھروں ، حویلیوں پر قبضہ کرکے مندر بنائے جائے، کیا یہ وہ ٹولہ تھا جو ہندوستان سے عباسی خاندان کو ختم کرنے آیا تھا، جو جنگ تقریبا چالیس تاک محیط رہا، جہاں عباسی خاندان کی نسل کشی کی گئی، شکارپور میں موجود عباسی خاندان کا کوئی رشتیدار نہیں ہے، زبردستی کے رشتیدار بنے بیٹے ہیں، کوئی چچا تو کوئی ماموں تو کوئی کزن، پر حقیقت یہ ہے کے کوئی عباسی خاندان کا رشتیدار نہیں ہے وہ سب کہوں ہے کہاں سے آئے ہیں کچھ علم نہیں، عباسی خاندان نے اپنی بقا کی جنگ شروع کی ہے، عباسی خاندان کے لوگوں نے اسلامی مملکت کیلئے اپنی جانیں قربان کی پر ان مودی کے رشتیداروں کے آگے نہ جھکےاور نہ بکے ، شہادت کو ترجیع دی، آج اس عباسی خاندان کے تین بھائی اپنے ان شہیدوں جانثاروں کے خون کے ساتھ عہد و پیمان کئے ہوئے ہیں کے اپنا سب کچھ اپنے ملک پاکستان کیلئے قربان کردینگے، پر کسی کے آگے نہ جھکیں گے اور نہ بکہیں گے، عباسی خاندان کے تین بھائوں نے اپنے دادا کے نام کے نسبت سے ایک سوشل میڈیا پر ایک پیج میر خانی تحریک کے نام سے بنایا ہوا ہے ،جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہونے والے زیادتیوں کو منہ توڑ جواب دیتے ہیںاور اپنی تاریخ کو نئے انداز سے دنیا کے سامنے لا رہے ہیں، آئے مل کا ان کا ساتھ دیں، ، کچھ عرصہ پہلے سندھی پنھنجی اخبار میں آرٹیکل لکھتے رہے پر لوگوں نے وہ بھی بند کیا ۔ پر کہتے ہیں ہمت مردان مدد خدا، آج سویل ڈیلی کے پلیٹ فارم پر عباسی خاندان آپنی آواز لوگوں تک پہنچا رہے ہیں، اللہ اپنی حبیب کریم ﷺ کے صدقے ، سویل کے پوری ٹیم کو اہل حیال سمیت اپنے امان میں رکھے، سدا شاد آباد رکھے آمین،اللہ ان کو دن دگنی رات چگنی ترقی عطا کرے آمین، اللہ ان کے رزق اور عمر وں میں برکت عطا فرما آمین، اللہ ان کو اپنی خاص کرم عنایت فرما آمین، آج لوگوں کو اپنی طاقت پر فکر ہے اور آج عباسی خاندان کے تین نوجوانوں کو اپنی نسبت پر فخر کرتے ہیں کے ان کی نسبت اآقا ﷺ سے ہیں، اس نسبت کیلئے سب کچھ قربان،اور اآقا ﷺ کے فرمان کے مطابق مجھے مشرق سے خوشبو آتی ہے تو وہ خوشبو میرا ملک پاکستان ہے، پاکستان تا قیامت شاد آباد رہے آمین، اللہ میرے ملک کو اپنے امان مین رکھنا ، میرے ملک کو لوگوں میں ہم آہنگی پیدا کر آمین، مالک اس ملک کو نظر بد سے بچا، مالک پاکستان کو ترقی عطا فرما آمین، ,
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر