وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکبر الہ آبادی سے ہم ایسے چھٹ بھیوں کا تعلق تاریخ کے الجھے ہوئے دھاگوں جیسا رہا۔ حسرت موہانی جیسے بطل حریت نومبر 1950 میں اپنی وفات سے کوئی چھ ماہ قبل آخری مرتبہ لاہور آئے تو احمد بشیر سے گفتگو کرتے ہوئے اکبر الہ آبادی کو عجب وارفتہ ڈھنگ میں یاد کیا۔ ’’اکبر۔ آدمی بے پناہ تھے۔ انگریزوں سے نفرت کرتے تھے، گول مول اشاروں میں کام کی باتیں کر جاتے تھے‘‘۔ ہماری پایاب نسل کا المیہ یہ تھا کہ ہم اکبر کی قوم پرستی پر لہلوٹ تھے، اردو شعر کی لغت میں اکبر کو داغ اور اقبال کا نقطہ اتصال بھی جانتے تھے لیکن جدیدیت بالخصوص حقوق نسواں پر اکبر کے خیالات ہمارے حلق سے نہیں اترتے تھے۔ لطف یہ ہے کہ سرکاری اسکول میں بمشکل تین ایک برس تعلیم پانے والے اکبر نے ذاتی کاوش سے انگریزی زبان میں ایسی مشق بہم پہنچائی تھی کہ عدالت خفیفہ کے جج مقرر ہوئے، خان بہادر کا خطاب پایا، صاحبزادے عشرت کو تعلیم کے لئے انگلینڈ بھیجا۔ یہاں لکھنے والی انگلی ذرا سا گریز کرتے ہوئے آپ کو لکھنو میں گومتی کے کنارے لے جانا چاہتی ہے۔ 1780 کے لگ بھگ ایک فرانسیسی افسر نے یہاں ایک عالیشان عمارت تعمیر کی تھی جو ہوتے ہوتے نواب غازی الدین حیدر شاہ اور پھر واجد علی شاہ کے تصرف میں آئی اور چھتر منزل کہلائی۔ واجد علی شاہ نے ذوق خاص سے کام لیتے ہوئے قریب ہی دریا میں ایک مچھلی نما کشتی بنوائی تھی۔ کالم میں تصویر کی گنجائش نہیں ہوتی ورنہ آپ کو مصر کا بازار دکھایا جاتا۔ تو صاحبان، 1856 میں واجد علی شاہ معزول ہو کر مٹیا برج کلکتہ بھیج دیے گئے۔ اگلے ہی برس وہ ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا جسے ہمارے اسلاف از رہ احتیاط غدر کہتے تھے اور ہمیں جنگ آزادی کے نام سے پڑھایا گیا۔ نومبر 1857 میں لکھنو پر دوبارہ قبضے کے بعد انگریز کمانڈر کولن کیمبل کے حکم پر گومتی میں کھڑی نواب واجد کی کشتی علامتی طور پر ڈبو دی گئی تاکہ مقامی باشندوں پر گورا شاہی کی ہیبت کا سکہ جمایا جا سکے۔ کئی برس بعد اکبر الہ آبادی لکھنو آئے تو میزبان انہیں وہاں لے گئے جہاں واجد علی شاہ کی شاہی کشتی ڈبوئی گئی تھی۔ اکبر الہ آبادی نے فرمایا، ’’آزادی یہاں ڈوبی تھی اور یہیں سے ابھرے گی‘‘۔
اکبر الہ آبادی، واجد علی شاہ اور کولن کیمبل کے یہ قصے آج اس لئے یاد آئے کہ یہ سطریں لکھتے وقت وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں حزب اختلاف کے نقارے پر چوٹ لگ چکی۔ لاہور سے مسلم لیگ اورلالہ موسیٰ سے پیپلز پارٹی کے قافلے روانہ ہو چکے۔ قافلے تو چاروں طرف سے بڑھتے چلے آ رہے ہیں، حبیب لبیب مبارک حیدر (زندہ بدست مردہ) نے کبھی لکھا تھا، اب جو نکلے ہو سرشام ہوائوں کی طرح، ابر آنے کی گھڑی تک یونہی آتے رہنا۔ اس طرح کے معاملات میں محصور حکومتیں انتظامیہ کے ذریعے جو حربے استعمال کیا کرتی ہیں، آزمائے جا رہے ہیں۔ اہم شاہرائوں پر کندھے سے کندھا ملائے کنٹینر بہار دے رہے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے مالکان کو گھرکی دی جا چکی۔ کسی سیاسی رہنما کے گھر پر چھاپہ اور کہیں لب سڑک پولیس کی درشن پریڈ۔ مقامی ڈپٹی کمشنر نے اجازت نامے کے لئے 26 نکاتی ہدایت نامہ جاری کیا ہے ٹھیک ایسے ہی جیسے 70 کے انتخابات کے بعد یحییٰ خان لیگل فریم ورک آرڈر کی دہائی دیتے رہے لیکن عوام تو اپنا فریم ورک طے کر چکے تھے۔ 18 اکتوبر 1999ء کو فاتح کمانڈو نے سات نکات جاری کیے تھے، ان نکات کی تائید میں قلم کی روشنائی کو سیاہی بخشنے والے کچھ ابھی زندہ ہیں لیکن کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ۔
جب یہ عرضداشت چھپ کر آپ تک پہنچے گی، خبر کا قافلہ آگے بڑھ چکا ہوگا۔ اخباری کالم خبر کی لمحہ بہ لمحہ تفصیل کا روادار نہیں ہوتا۔ کالم تو تاریخ کے بظاہر منتشر نقطے ملا کر تصویر مکمل کرنے کا کام ہے۔ تو آپ کو یاد دلانا تھا کہ کل 16 اکتوبر تھا، وزیر اعظم لیاقت علی خان کا یوم شہادت تھا۔ اس روز جمہور پاکستان سے سیاسی اقتدار کا علم چھن گیا تھا۔ حیرت ہے کہ کچھ حلقے آج بھی لیاقت علی خان کے قاتلوں کی نشاندہی نہیں کر پاتے۔ شہید وزیراعظم پر گولی سید اکبر نے نہیں چلائی تھی، یہ پستول اس سوچ کے ہاتھ میں تھا جس نے 16 اکتوبر 1951 کے بعد برطانیہ سے آزادی کی لڑائی جیتنے والوں کو بدعنوان اور نا اہل قرار دے کر حرم جمہور کو پامال کیا تھا۔ کبھی کنٹرولڈ جمہوریت کی بات کی تو کبھی بنیادی جمہوریت متعارف کرائی۔ کبھی ون یونٹ بنایا تو کبھی وفاقی اکائیوں کو اعتماد کے دھاگے میں پرونے والی آئینی ترمیم پر حرف طعن دراز کیا۔ کبھی بابائے قوم کی جعلی ڈائری دریافت کی تو کبھی قرارداد مقاصد کو قائد عظیم کے فرمودات پر بالاتر قرار دیا۔ کبھی اشتراک اقتدار کا تصور دیا تو کبھی نظریاتی سرحدوں کی دہائی دی۔ پاکستان کا جغرافیائی اور نظریاتی حدود اربعہ اس قوم کے ضمیر پر نقش ہے، جمہور کی حکمرانی، دستور کی بالادستی، وفاق کی پاسداری اور شہریوں کی مساوات۔ قوم کا دفاع محض بندوق سے نہیں ہوتا، قوم کی معیشت ترقی کرے گی، جمہور اور ریاست میں رشتہ شفاف ہو گا، شہری سر اٹھا کر جی سکے گا تو 23 کروڑ کی قوم دنیا کے معاشی، علمی اور سفارتی نقشے پر اپنا جائز مقام بحال کر سکے گی۔ اس ملک میں حکومتیں بنانے اور گرانے کی بہت سی تحریکیں چلیں، اگر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ چلانے والے عمران خان کی حکومت کو نشانہ بنانے نکلے ہیں تو یہ فروعی بلکہ بے معنی ہدف ہے۔ عمران خان کی حکومت پر شفاف دستوری عمل سے انحراف ہی کا دھبہ ہے نا، تو یہ داغ 16 اکتوبر 1951 کے سانحے کی لوح ہے۔ یہ قومی آزادی چھن جانے کا المیہ ہے۔ جمہوریت اس ملک کے لوگوں کی آزادی کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ گوجرانوالہ اور پاکستان کے بہادر بیٹے اور بیٹیاں سلامت رہیں، آنکھ نشیمن پر رہنی چاہئے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر