ہمارے بچپن میں پاکستان میں ایک ہی ٹی وی چینل ہوتا تھا اور اسکا نام تھا “پاکستان ٹیلی ویژن ” یعنی وہ ریاست کا “بھونپو ” ہوتا تھا اکثر لطیفے اس بارے میں بنتے اور ہم ریاست کے اس بھونپو پر آنے والے نو بجے کے خبر نامے کو ” وزیر نامہ یا وزیراعظم نامہ ” بھی کہتے تھے مگر ایک بات جو اس ریاست کے واحد بھونپو کی موجودگی میں بہترین ہوئی وہ یہ کہ روز نو بجے “جھوٹ ” سننے کے خیال نے عوام کی اکثریت کو بین الاقوامی خبریں سننے پر اکسایا. بچپن سے یہی دیکھا کہ گھر میں کبھی بی بی سی کی خبریں چل رہی ہیں تو کبھی وائس آف امریکہ کی نیوز اینکر دنیا کا حال احوال بتا رہی ہے اور تو اور آکاش وانی ریڈیو بھی بعض اوقات ریاست کے بھارت مخالف بیانیے کو کراس چیک کرنے کے لیے سنا جاتا تھا قصہ مختصر کہ سچ جاننے کی جدوجہد نے ایک طرف ہم بچوں کو دنیا کی سیاست سے رو شناس کروآیا تو دوسری طرف ” پاکستانی ریاست و سیاست ” کی درپردہ حقیقتیں جاننے میں بہت مدد ملی۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت نے ہمیں ٹیلی ویژن کے ذریعے پہلی بار بین الاقوامی نیوز چینلز بی بی سی اور سی این این کی خبریں اور تجزیے بلا کسی کاٹ چھانٹ کے دیکھنے کا موقع فراہم کیا تو یہ آزاد معلومات حاصل کرنے کی طرف پاکستانیوں کا پہلا قدم تھا۔
دوسرا قدم جرنیل مشرف کے دور میں نجی نیوز چینلز کی آمد تھی جن کے قیام کا بنیادی مقصد یقینن آزاد معلومات کی فراہمی تو نہ تھا بلکہ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اپنی مرضی کی خبریں اور اپنے منشاء کے تجزیے عوام کے ذہنوں میں پختہ کرنا تھا اور یہ حقیقی مقصد تین نومبر سن دو ہزار سات کو ایمرجینسی پلس کے دوران سامنے بھی آگیا مگر اس بات کے باوجود کہ فوجی انتظامیہ کا میڈیا کے ذریعے عوام کو آزادانہ راۓ کے اظہار کا موقع دینے کا کوئی موڈ نہیں تھا پھر بھی جرنیل مشرف کے دور میں نیوزچینلزکوبادی النظر میں کافی آزادی تھی خبروں میں نہ سہی تجزیوں میں حکومت مخالف رنگ ضرور جھلکتا تھا۔
حتیٰ کہ مشرف حکومت میں میڈیا نے ہماری عسکری قوت کے” سیاسی ونگ ” متحدہ قومی موومنٹ کو ١٢ مئی دو ہزار سات میں کراچی کو محاصرے میں لیتے اور آج نیوز پر حملہ کرتے لائیو دیکھایا اور کسی لمحے بھی کوئی سسنسر شپ کا فرمان اسلام آباد یا راولپنڈی سے جاری نہ ہوا . اس دوران وکلاء کی تحریک ہو یا مشرف کی حکومت میں بارہ مئی کو پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی پر فائرنگ اور لال مسجد محاصرہ اور وہاں چھپے طلبا و طالبات پر حملہ ہر منٹ کی خبر ہم تک پہنچ جاتی تھی۔ ٹاک شوز میں وزیروں پر تیز و تند سوالات بھی جاری رہتے اور سواۓ متحدہ کے جسکی دھونس ، دھاندلی اور غنڈہ گردی کے ہم سب عینی شاہد رہے ہیں باقی تمام سیاسی پارٹیوں اورریٹایرڈ جرنیلوں کو بھی میڈیا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا تھا. مشرف کی ایمرجینسی پلس میں یقینن میڈیا کا گلہ گھونٹا گیا مگر کیبلز کے ذریعےجن لوگوں کے پاس سیٹلائیٹ کی سہولت موجود تھی وہ اسی طرح تیر و تفنگ سے بھرپور، اپوزیشن کے بیانات سے لوڈڈ خبریں اورٹاک شوز دیکھ سکتے تھے۔
اور باوجود اسکے کہ قومی میڈیا سے منسلک افراد کا خیال ہے کہ نہ مشرف سے پہلے اور نہ مشرف حکومت کے دوران کرنٹ افئیرز کے شعبے کو مکمل آزادی دی گئی مگر عوام کی راۓ جانیں تو یہ دور انکے لیے معلومات کی بہتر فراہمی کا دورانیہ تھا اسی میڈیا پر ہم نے مارچ دوہزار سات کو پاکستان کے وکلاء کی شہرۂ آفاق تحریک براہ راست دیکھی اور پھر اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے تاریخی خیر مقدم کو بھی لائیو دیکھایا گیا یہاں تک کہ دہشتگردی کا اندوہناک واقعہ وقوع پزیر ہوا تو وہ بھی ٹی وی اسکرین پر بغیر سنسر دیکھایا جاتا رہا بعد میں محترمہ کی پریس کانفرنس بھی لائیو ٹیلی کاسٹ کی گئی اور اسمیں کیے جانے والے سوالات بھی من وعن دیکھاے گیے۔
دسمبر سن دو ہزار سات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آیا پاکستان کے طول و ارض اس واقعے سے کانپ اٹھے جسکا اثر ہمیں پاکستانی نجی میڈیا پر صاف نظر آیا۔ خبریں، تجزیے ، ٹاک شوز ہر منٹ بی بی شہید کے نام تھا اوراکثر چینلز پر یہی صورتحال تھی۔
اسکے بعد جمہوری، منتخب حکومت کا پانچ سالہ دور شروع ہوا اور حکومت اگر پاکستان پیپلزپارٹی کی ہو تو یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ کیا اخباروں میں لکھتے کالم نگار اور کیا اسکرینوں پر بیٹھے میک اپ زدہ اینکرز ہر کسی کے غصے، بغض اور تنقید کا شکار پی پی پی کی حکومت اور لیڈر شپ ہی ہوتی ہے۔ ہر نااہلی، کرپشن، جرم اور دہشتگردی کا الزام پی پی پی کی حکومت پر ڈالنا بے، انتہا آسان تھا نہ صرف اپوزیشن کی تنقید کے گولے میڈیا کے ذریعے ہر لمحے پیپلزپارٹی کی قیادت کے منتظر ہوتے بلکہ عدلیہ اور فوج بھی ہر موقعے پر حکومت کے کاموں میں مستقل رخنہ ڈالتی رہیں اور اسکی داد انہیں میڈیا کے اینکرز سے ٹاک شوا اور ہر گھنٹے میں ٹیلی کاسٹ ہونے والے نیوز بلیٹینز میں بریکنگ کی صورت دی گئی۔
مجھے یاد ہے ان دنوں ایک نامی گرامی صحافی سے میں نے شکوہ کیا کہ جناب چوبیس گھنٹے اپوزیشن خاص طور پر پنجاب میں حکومت کرتی نواز لیگ کی وفاق کے خلاف جلسے، جلوس، شہباز شریف کی “میں نہیں جانتا، میں نہیں مانتا” قسم کی گرما گرم تقریریں اور وفاق میں حکومت کرتی پاکستان پیپلزپارٹی پر تبروں کی خبریں آتی رہتی ہیں، کبھی تو وفاقی حکومت کی کسی بہتر کارکردگی، آئینی ترامیم پر پیشقدمی، عوامی فلاح کے کسی منصوبے کی کوئی خبر بھی چلا دیا کریں تو فرمانے لگے” بی بی یہ نجی چینلز ہیں، آپکو حکومت کی تعریفیں سننی ہیں تو “پی ٹی وی نیوز” سے رجوع کریں کیوں کہ اگر ہم نے بھی حکومت کو ہی ٹائم دے دیا تو اپوزیشن کو کون اسکا حق دے گا”۔ اور تو اور وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی اور صدر پاکستان آصف علی زرداری جنکے لیے اس وقت کی اپوزیشن نے بھی کبھی “سلیکٹڈ ” کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا ان پر تاک تا ک کر گھٹیا قسم کے بھارتی فلمی گانے بیک گراونڈ میں چلاۓ جاتے، منتخب وزیروں کے کارٹون تو خیر عام سی بات تھی اور سواۓ بانی متحدہ قومی موومنٹ الطاف حسین کے سب کی ڈمیاں بنائی جاتیں، حکمران جماعت پر فقرے کسے جاتے، پھبتیاں اڑائی جاتیں اور اپوزیشن کے ممبران کی نہ ٹاک شوز میں پیشیاں لگتیں نہ سخت سوالات کا سامنا ہوتااس وقت کی اپوزیشن کے خلاف افواہ سازی پر منتج “ٹکر” بھی نہیں چلتے تھے۔
افواہ سازی پر بات ہورہی ہے تو یاد رہے کہ ایک نامی گرامی چینل جن کے مالکان جمہوری ادوار میں خوب “آزادی”مناتے تھے اور آجکل اندر کی ہوا کھا رہے ہیں، اس چینل پر بیٹھ کر ایک اینکر صاحب جاسوسی ناولوں کی اسٹوریز بناتے اور سناتے تھے یہاں تک کہ ملک کے منتخب صدر کو اپنی قابل قدر بیوی جو پاکستان کی دو بار منتخب وزیراعظم رہیں ان کے قتل میں ملوث قرار دے جاتے اور ایک بار نہیں بار بار انکا موضوع یہی ہوتا تھا، ایک اور اپنے آپ کو قابلیت کا مینارہ سمجھنے والے صحافی نما اینکر صاحب نے کیری لوگر بل کے ذریعےسویلین حکومت پر پاکستان بیچنے کا الزام تھوپ دیا، اسکے بعد بغیر کسی تفتیشی جرنلزم کے زدراری حکومت کو ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور مقتولین کی بیوہ کی خودکشی کا مورد الزام ٹہرا دیا مگر نہ کوئی شو سنسر ہوتا تھا نہ اینکر غائب نہ کوئی چینل آف ائیر ہوتا نہ پیمرا کے کان پر جوں رینگتی اور سواۓ متحدہ کے جسکا کراچی میں دھونس دھاندلی کا ریکارڈ تیس سال سے کوئی نہ توڑ سکا تھا کسی کی مجال نہ تھی کہ کیبل آپریٹرز کو کوئی “صدراتی یا وزارتی “حکم دے سکے باقی متحدہ کا معاملہ الگ تھا آج آپ اور میں سب ہی جان گیے کہ اس ” دھونس دھاندلی ،میڈیائی دہشتگردی ” کے پیچھے کونسی طاقتیں تھیں۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کے بعد نواز لیگ نے وفاق کی لگام سنبھالی تو ہمیشہ کی طرح شرو ع کے سال میں وفاق پر میڈیا ، عدلیہ اور افواج کا وہ سخت رویہ نہ تھا جیسا پاکستان پیپلزپارٹی کی منتخب حکومت کو سامنا رہا ، ہوسکتا ہے اس بار بھی “سو دن “کی کھلی چھوٹ والا معاملہ ہو جسکے گواہ ایک معتبر صحافی رہے ہیں .یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نام نہاد آزاد میڈیا کا نواز لیگ کی حکومت کے دوران بھی جو مفاہمانہ انداز پنجاب میں شہباز شریف اور پختونخواہ میں پرویز خٹک کی حکومتوں سے تھا وہ آپکو “سائیں سرکار ” کے بارے نظر نہیں آتا تھا اور یہ کوئی انہونی نہ تھی کیونکہ پچھلے کتنے ہی سالوں سے عوام کو یہی پٹی پڑھائی جاتی رہی کہ “سندھ صحیح ہاتھوں میں نہیں “مگر اسکے علاوہ صورتحال یہ رہی کہ میڈیا نواز حکومت کی کارکردگی پر ٹاک شوز کرنے میں بھی کافی آزاد تھا اور خبروں کے بلیٹینز میں اگر سندھ کو تختہ مشق بناتا تھا تو نواز حکومت کی کھینچآئی بھی ساتھ ساتھ چلتی تھی۔ دلچسپ امر ہے کہ ان جمہوری ادوار کے دوران نہ صرف حکومتوں پر کبھی بہت زیادہ کبھی کچھ کم تنقید ہوئی بلکہ ہم نے کچھ جرنلسٹس کو اپنی ہی برادری کے ” گریبان ” میں جھانکتے دیکھا اور یھاں بھی حکومتی ہاتھوں نے ان شوز پر قدغن نہیں لگائی بلکہ جرنلسٹس ہی ناراض ہوکر اس شو کے خلاف اٹھے اور شو بند کروا دیا۔
اور پھر سن دو ہزار چودہ کا اگست آگیا اور میڈیا کا قبلہ پورا کا پورا تحریک انصاف کے دھرنے عرف آزادی مارچ کی سمت ہوگیا .کوئی نجی چینل نہ تھا جہاں ایک سو چھبیس دن میں تحریک انصاف کے علاوہ کسی دوسری اپوزیشن جماعت کو خبر بننے کی سہولت میسر ہو۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا تھا جیسے بچپن میں سنے لطیفے کے مطابق “ٹی وی میں طارق عزیز پھنس گیے ہیں” اب یہ عالم تھا کہ اسکرین پر “عمران خان چپک چکے ہیں” جب بھی ٹی وی آن کرو ایک ہی سین ،ایک ہی نعرے اور تو اور ایک ہی تقریرانہی دنوں کچھ ایسے اینکرز اپنے بنکروں سے نکل کے اسکرینوں پر آدھمکے جنکے بارے میں ہم کم ہی جانتے تھے مگر وہ شاید عمران خان کے لنگوٹیے یار تھے یا بنتے تھے مگر انکی باتوں سے یہی لگتا تھا کہ” عمران خان بچپن سے ہی سیاستدان بننا چاہتے تھے ” اور یہی وجہ ہے کہ دنیا جہاں کے سیاستدانوں ، مسیحاؤں ، انقلابیوں میں جتنی خصوصیات ہیں وہ اس ایک بندے میں اکھٹی کر دی گئیں، اس براہ راست ایک سو چھبیس دن کی نشریات سے جہاں عمران خان جیسے کرکٹر کو سیاستدان بننے کا موقع ملا وہاں ہم جیسے اسکرین کے دوسری طرف بیٹھنے والوں کو انکی طبیعت میں غیر سیاسی ، ڈیکٹیٹر شپ کے جرثومے پہچاننے میں بھی مدد ملی .وہ کنٹینر پر بیٹھے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کے لیے عوام کو اکساتے رہے وہ غیر سیاسی قوتوں کو نجات دھندہ اورعوام کے نمایندوں پر طنز کے تیر چلاتے ،انکی نقلیں اتارتے ، گھٹیا انداز تخاطب سے آوازے کستے اور نہ صرف حکومتی وزراء بلکہ اپوزیشن کی جماعتوں پر بھی جھوٹے الزمات لگاتے رہے جو کہ پاکستانی تاریخ میں شاید پہلی بار ہوا تھا کہ اپوزیشن کی ایک پارٹی بقیہ تمام اپوزیشن کے لیڈران کو چن چن کر صرف اس لیے ذلیل کرے کہ وہ اسکے حکومت گرانے کی کوشش میں شامل نہیں . اور یہ سب منا ظر بھی پاکستانیوں کو پہلی اور آخری بار نجی “آزاد” میڈیا سے براہ راست دیکھنے کو ملے. پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملے سے لیکر ایس یس پی عصمت اللہ جونیجو کی تحریک انصاف کے غازیوں کے ہاتھوں ٹھکائی تک ہر مرحلہ آپکو اسکرین پر طے ہوتا دیکھائی دیا اور ایسا لگنے لگا کہ ہم سچ مچ ” آزاد قوم ” بن رہے۔
دھرنے کا اختتام ایک المناک سانحے پر ہوا جسمیں معصوم بچوں کو دہشتگردی کے حملے میں شہید کیا گیا یہ واقعہ اور اسکے بعد کویٹہ میں وکلاء کی شہادت اور بلوچستان کے نوجوان کیڈٹس کے المناک قتال کی خبریں بھی عوام سے چھپائی نہیں گئیں اور باوجود اسکے کہ شہید بچوں، وکلاء اور کیڈٹس کے قاتل، دہشتگردوں کے سہولت کار، وا قعہ کی وجوہات اور سیکیورٹی اداروں کی نااہلیت آج دن تک عوام کے سامنے نہیں آئی مگر ایسی خبروں کو میڈیا سے نہیں چھپایا گیا اور سواۓ بلوچستان کے گمشدہ افراد کی خبروں کے اس ” امیرترین اور بےبس ترین “صوبے کی کچھ نہ کچھ گن سن عوام کو پہنچتی رہی خاص کر پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کی حکومت میں ہزارہ افراد پر دھشتگردوں کے حملے ، سی پی ای سی پر کام کی رفتار اور وزیراعلی بلوچستان نواب رئیسانی کے جملوں پر میڈیا کا تمسخر .اس دوران ایک عجیب و غریب واقعہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں پیش بھی آیا جہاں ایک شخص بیوی اور بچوں سمیت پوری حکومت پاکستان اور ریاست کو اپنی بندوق پر تقریبا سارا دن ہراساں کرتا رہا اور تمام چینلز “اچھے بچوں “کی طرح ہر اینگل سے اس مخبوط الحواس شخص کو دیکھاتے رہے نہ کوئی سین سنسر ہوا نہ کسی اینکر یا رپورٹر کے جملے حتی کہ ہم نے پیپلزپارٹی کے جیالے زمرد خان کو لائیو اس جعلی دہشتگرد کے چنگل سے بچوں کو چھڑاتے بھی دیکھا . اور پھر پاکستان کی عوام نے ڈان لیکس پر اسی طرح طبل جنگ بجانے والے شعبدہ باز اینکرز چیختے پھدکتے دیکھے جیسےپیپلزپارٹی کےدورمیں” میمو گیٹ ” ،یوسف رضا گیلانی کی نااہلی اور ریمنڈ ڈیوس کی ریھائی پر ٹر آتے دیکھے تھےا ور پھر نواز شریف پر پانامہ الزامات کی کہانی شرو ع ہوئی تو حکومت کی جیسے وہی حالت کر دی گئی جو اس سے پہلے وزیراعظم گیلانی کی میڈیا ، عدلیہ اور اقتدار پر قابض حقیقی قوتوں نے کی تھی۔
اب قدرت کا پاکستان سے سنگین مذاق دیکھیے کہ جس حکومتی پارٹی اور وزیراعظم کو میڈیا نے پال پوس کر اقتدارتک پہنچایا اسی وزیراعظم نے میڈیا کا سب سے پہلے گلا گھونٹ دیا مگر بضد ہیں کہ ان کے دور حکومت میں قومی میڈیا نہ صرف “بے انتہا آزاد ” ہے بلکہ انکے خلاف ایسا پروپگنڈا کر رہا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں کسی میڈیا یا پریس نے اپنی حکومت کے خلاف نہیں کیا ہوگا .غیر ملکی صحافی منہ میں انگلیاں دباۓ محترم وزیراعظم کی یہ گل فشانیاں سن رہے ہوتے ہیں کہ “ہمارےملک میں نیوز میڈیا جتنا آزاد ہے اتنا تو برطانیہ جیسےجمہوری ملک میں بھی نہیں۔
یہ بلاگ لکھنے کا مقصد بھی قارئین کو یہ یقین دلانا ہے کہ وزیراعظم صاحب ہمیشہ کی طرح جھوٹ اور فریب کو شرمندہ کرنے میں کامیاب ہو گیے ہیں حقیقت اسکے بلکل برعکس ہے جو وہ کہہ رہے ہیں . ہم افسوس ہی کرسکتے ہیں ان اینکرز ، نیوز ڈاریکٹرز اور میڈیا مالکان پر جو اس جھوٹ کو تسلیم کرتے ہیں .اب حالات یوں ہیں کہ خبریں جو کبھی نیوز ” اینکرز “کیا کرتےتھے صرف نیوزکاسٹر کٹھ پتلیوں کی طرح دہرا دیتے ہیں ہاں “ٹھیکہ “لگانا نہیں بھولتے جیسے یہاں کسی جگت بازی کا مقابلہ ہورہا ہو . رپورٹرز لائیو نہیں لیے جاتے تاکہ حقیقت حال لائیو نہ بتادیں.ٹاک شوز کے دوران مہمانان تو کیا میزبان کے بھی بہت بار صرف “لب ہلتے ” ہیں مگر ان میں سے آواز غائب ہوتی ہے جو خبر سوشل میڈیا پر گرم ہوتی ہے وہ نیوز میڈیا سے غائب رہتی ہے .جبری گمشدہ افراد کی خبریں تو ہم نے کسی دور میں بھی آزادانہ رپورٹنگ کے ذریعے نہیں دیکھی تھیں مگر اب تو عجب دور ہے کہ کسی معروف صحافی یا سرکاری افسر کےغائب ہونے کی اطلاع تو نہیں دی جاتی مگر “برآمدگی ” کو بار بار ہیڈنگ بنایا جاتا ہے یہی حال تحریک انصاف کے زیر تسلط صوبوں کا ہے جہاں پر پاکستانی قومی میڈیا کے مطابق جرائم نہیں ہوتے مگرملزم پولیس کی “بہترین کارکردگی” کی وجہ سے پکڑے جاتے ہیں اب کوئی سادہ لوح پوچھے بھائی ! جرم کی توکوئی خبر نشر ہوتی نہیں ملزم کس کو بنا رہے ہو ؟؟
سیاسی خبروں کا یہ حال ہے کہ کسی اپوزیشن لیڈر کی تقریر نہیں تو کسی کی پریس کانفرنس سنسر ہے کسی کا جلسہ غائب تو کسی کا احتجاج ! اور تو اور کچھ منتخب عوامی نمایندوں کے نام خبروں میں لینا ” منع “ہیں انکے انٹرویوزآورتصاویرتک نشر نہیں کیے جاتے . ا ور جو صحافت کے نامی گرامی صاحب فرماتے تھے کہ نجی چینلز اپوزیشن کے لیے ہیں اسلام آباد کی تعریفیں “ریاست کے بھونپو” پر دیکھیں وہ تحریک انصاف اور اسکے اجداد کی مہربانی سے آجکل بیروزگار ہیں اور میرے اس سوال کا جواب دینے کو تیار نہیں کہ محترم یہ وہی نجی چینلز ہیں مگر آج کی خبریں “وزیرنامے اور وزیراعظم نامے ” سے بھری ہیں اور مزید تکلیف دہ امر یہ ہے کہ یہ حکومتی تعریفوں کا پلندہ صرف نو بجے نہیں کھلتا بلکہ برطانوی میڈیا سے زیادہ آزاد پاکستانی میڈیا ہر دوسرے گھنٹے پر نیوز بلیٹنز میں ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم اوران کی کابینہ برطانوی وزیراعظم اوراسکی کابینہ سےزیادہ طاقتور و بااختیار ہے. دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی اختیار اور طاقت اکثر میڈیا کی “آکسیجن ” کی فراہمی منقطع کرنے پر خرچ کی جاتی ہے اور اگر کچھ صحافی سانس لینےسوشل میڈیا پرپہنچ جائیں تو انکی شامت “ٹائیگرز “کے ہاتھوں آتی ہے .وہ ٹک ٹاک، جسکی “گرلز ” نے نوجوان ذہنوں کو “ہینڈسم تبدیلی دیوتا” کی طرف مائل کیا، آخری خبریں آنے تک اسپر بھی پابندی لگ چکی ہے اور تمام ٹک ٹاک پریاں بھی آجکل سوشل میڈیا کے ذریعے آٹھ آٹھ آنسوں بہا کر دیکھا رہی ہیں۔
قصہ مختصر کہ جس جس شعبے نے “تبدیلی ” کو اپنے کاندھے پر لاد کر کرسی تک پہنچایا اسی شعبے کے ہاتھ پاؤں کاٹ کراسکو زندہ درگور کرنے کا فریضہ پاکستان تحریک انصاف نے ان دو برسوں میں سر انجام دیا .تبدیلی یقینن آگئی ہے مگر یہ تبدیلی ترقی سے تنزلی اور آزادی سے غلامی کی طرف تبدیلی ہے وزیراعظم اور انکی کابینہ جو انکی طرح ہی جوکروں پر مشتمل ہے شاید جانتی نہیں کہ کچھ لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بیوقوف بنایا جاسکتا ہے جو کہ انہوں نے کیا ! مگر ہمیشہ کے لیے سارے لوگوں کو بیوقوف بنانا ناممکن ہے، جو کہ تاریخ نے ہمیشہ ثابت کیا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر