نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آصف زرداری سے ہوئی ’’مفروضہ‘‘ ملاقاتیں۔۔۔ نصرت جاوید

آصف علی زرداری صاحب کی سیاست کے بارے میں ہزاروں تحفظات کے باوجود ذاتی طورپر انہیں بہت پسند کرتا ہوں۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جولائی 2018میں ہوئے انتخاب کے نتیجے میں جو حکومتی ڈھانچہ نمودار ہوا اس کے تحفظ کو روایتی اور سوشل میڈیا پر حاوی عمران حکومت کے سرکاری اور رضا کار ترجمان بہت بے چین رہتے ہیں۔ میں ذاتی طورپر اگرچہ ان کی پریشانی کی وجوہات ابھی تک دریافت نہیں کرسکا۔

حکومتوں کے بارے میں ہمارے ہاں آزاد اور بے باک میڈیا کی بدولت 2008 سے ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والا تاثر موجود رہا ہے۔  کرپشن کے خلاف افتخار چودھری کی بحالی کے بعد حیران کن حد تک فعال ہوئی عدلیہ اس تاثر کو روزانہ کی بنیاد پر ٹھوس مواد بھی فراہم کرتی رہی۔ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہوئے۔ اس کے باوجود 2008 اور 2013 کے انتخابات کے ذریعے قائم ہوئی اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت مکمل کی۔ ہمارا میڈیا 2018 سے فواد چودھری صاحب کے دریافت شدہ فرسودہ ’’بزنس ماڈل‘‘ کی وجہ سے نازل ہوئے عذاب کی بدولت اپنا وجود برقرار رکھنے کی فکر میں مبتلا ہوچکا ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر اب وطن عزیز کے خلاف دشمنوں کے ایماء پر 5th Generation War برپا کرنے والے اینکر خواتین و حضرات بھی نظرنہیں آتے۔ خبر تو دور کی بات ہے سکرین کے نیچے چلے Tickers بھی بہت سوچ بچار کے بعد تیار ہوتے ہیں۔عدالتیں بھی 2018 سے اپنے کام سے کام رکھتی نظر آرہی ہیں۔ ایسے حالات میں بے ثباتی والا ہیجان فقط سوشل میڈیا تک ہی محدود ہے۔ اسمبلیوں اور سینٹ میں اپوزیشن جماعتیں اگرچہ بھاری بھر کم تعداد میں موجود ہیں۔ عمران حکومت کی جانب سے تیار کردہ اہم ترین قوانین کو منظور کروانے میں لیکن وہ تھوڑی مزاحمت بھی نہیں دکھاتیں۔ ان کے دوستانہ رویے کو مگر حکومتی اراکین ہی نے ’’ذہنی غلامی‘‘ اور ’’چوروں اور لٹیروں کی مجبوری‘‘ بتا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا۔

مسلسل تضحیک سے اُکتا کر اپوزیشن جماعتیں بالآخر ’’کچھ کرنے‘‘ کو مجبور ہوگئیں۔ انہیں حوصلہ دینے نواز شریف نے بھی طویل خاموشی کے بعد 20 ستمبر کے روز ایک دھواں دھار خطاب فرمادیا۔ اس خطاب کے بعد PDM نے جنم لیا۔ اپوزیشن جماعتوں کا یہ اتحاد مارچ 2021 سے قبل عمران حکومت کو گرانا چارہا ہے تاکہ تحریک انصاف ایوانِ بالا میں فیصلہ کن اکثریت حاصل نہ کرسکے۔ اس ہدف کے حصول کے لئے 16 اکتوبر سے دسمبر کے اواخر تک ملک کے تمام بڑے شہروں میں جلسے منعقد ہوں گے۔

16 اکتوبر سے جو جلسے شروع ہونا ہیں وہاں جمع ہونے والے افراد کی تعداد میری ذاتی رائے میں اس ریکارڈ کو توڑ نہیں پائے گی جو محترمہ بے نظیر بھٹو نے تن تنہا 10 اپریل 1986 میں وطن لوٹ کر پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں دکھائی تھی۔ یہ جلسے مگر محمد خان جونیجو کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا نہیں پائے تھے۔ یہ فریضہ مئی 1988میں جنرل ضیاء نے اپنے ہاتھوں ہی ادا کیا۔

عمران خان صاحب پر ’’نگاہ رکھنے‘‘ کے لئے ایوانِ صدر میں آٹھویں ترمیم کی بدولت بااختیار ہوا کوئی جنرل ضیاء، غلام اسحاق خان یا فاروق لغاری بھی موجود نہیں ہے۔ عارف علوی صاحب اس ضمن میں ویسے ہی غیر متعلق ہیں جیسے برطانیہ کی ملکہ اپنی پارلیمان اور وزیر اعظم کی بابت ہوا کرتی ہے۔

میرے اور آپ جیسے عام انسانوں کو نظر آنے والے ان حقائق کے برعکس روایتی اور سوشل میڈیا پر حاوی ہوئے عمران حکومت کے سرکاری اور رضا کار ترجمانوں کو مگر ’’اندر‘‘ کی ہر بات کا علم ہوتا ہے۔ وہ ہذیانی انداز میں اصرار کئے جارہے ہیں کہ لندن میں بیٹھے نوازشریف کی چند طاقت ور مگر ’’پاکستان دشمن‘‘ قوتوں سے کوئی Deal ہوگئی ہے۔ جن قوتوں کا اس ضمن میں ذکر ہورہا ہے ان کا نام کھل کر نہیں لیا جارہا۔ وقتاََ فوقتاََ ہمارے ازلی دشمن یعنی بھار ت کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ بھارت اگرچہ اپنے تئیں کبھی اس قابل نہیں رہا کہ پاکستان میں حکومتوں کو لانے اور گرانے میں کوئی حتمی کردار ا دا کرسکے۔ یہ کردار عموماََ آج بھی دُنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے امریکہ ہی نے ادا کیا۔ اس ملک کا صدر ٹرمپ لیکن عمران خان صاحب کا ’’دوست‘‘ بن چکا ہے۔

ہمارے وزیر اعظم کو اس نے بہت چائو سے جولائی 2019 میں وائٹ ہائوس مدعو کیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک ملاقات نیویارک اور اس سے پہلے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیوس میں بھی ہوچکی ہے۔ عمران حکومت نے طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو مائل کیا۔ طویل مذاکرات کے بعد اب ’’بین الافغان‘‘ مکالمہ جاری ہے۔ اس مکالمے کو کامیاب بنانے میں بھی پاکستان کی مدد درکار ہے۔ یہ ایک طویل المدتی گیم ہے۔ اس گیم کے حتمی انجام سے قبل امریکہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام دیکھنا نہیں چاہے گا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کو ہر نوعیت کے طالبان ویسے بھی پسند نہیں کرتے۔ پیپلز پارٹی کو تو وہ اپنا ’’نظریاتی دشمن‘‘ شمار کرتے ہیں اور نواز لیگ سے عموماََ ناخوش۔ عمران خان پاکستان کے واحد Mainstream سیاست دان ہیں جو مستقل مزاجی سے افغانستان پر مسلط جنگ کی مخالفت کرتے رہے۔  “War on Terror”کے عروج کے دوران بھی انہوں نے افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو افواج کو پاکستان کے راستے جانے والی رسد کو روکنے کے لئے دھرنے دئیے۔ ڈرون طیاروں کے ذریعے انسانی ہلاکتوں کی ہمیشہ مذمت کی۔ ان کے ایک قریبی مصاحب -جناب شہزاد اکبر صاحب- نے ڈرون کے ذریعے ہمارے ان دنوں کے قبائلی علاقوں میں ہوئی ہلاکتوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی کوشش بھی کی تھی۔

ان کی پیش قدمی نے اسلام آباد میں سی آئی اے کے مبینہ Station Chief کو یہاں سے ’’فرار‘‘ ہونے کو مجبور کردیا تھا۔ افغانستان کے بارے میں اپنے ثابت قدم مؤقف کی وجہ سے عمران خان صاحب کو ہمارے  ’’دیسی‘‘ مگر ’’خونی ‘‘ لبرلز ’’طالبان خان‘‘ کے طعنے بھی دیتے رہے ہیں۔ بین الافغان مذاکرات کو کامیاب بنانے میں ان کی یہ شہرت بہت کام آئے گی۔ عمران حکومت کے تحفظ کی بابت پریشان ہوئے سرکاری اور رضاکارترجمان مگر یہ حقائق بھی نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔ PDM سے نجانے کن وجوہات کی بنیاد پر خوفزدہ ہوکر ایسا ماحول بنانے کو بے چین ہیں جو اپوزیشن کے نوزئیدہ اتحاد کو ’’پرواز‘‘ سے قبل ہی بکھرتا دکھائے۔ اپنی خواہش کو عملی صورت دینے کی خاطر گزشتہ چند دنوں سے Spin اب یہ چل رہی ہے کہ آصف علی زرداری ’’کرپٹ‘‘ تو یقینا ہیں۔

ان کے ’’جعلی اکائونٹس‘‘ بھی پکڑے گئے ہیں۔ت وشہ خانے کے حوالے سے بنائے کیس میں ان کی ’’نااہلی‘‘ دیوار پر لکھی نظر آرہی ہے۔ مذکورہ بالا ’’قباحتیں‘‘ گنوانے کے بعد یاد مگر یہ بھی دلایا جارہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی پاکستان پیپلز پارٹی بہرحال ایک ’’محب وطن‘‘ جماعت ہے۔ اپنے قائد کی پھانسی کے باوجود اس جماعت نے ریاستی اداروں کو بحیثیت مجموعی کبھی نہیں للکارا۔ عدالتوں کا احترام بھی برقرار رکھا۔ پیپلز پارٹی کی ’’حب الوطنی‘‘ کے اعتراف کے بعد اصرار یہ بھی ہورہا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جدوجہد کی بدولت برقرار رہی یہ جماعت اپنی سرشت میں ’’لبرل‘‘ بھی ہے۔

اس جماعت کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ مولانا فضل الرحمن جیسے ’’بنیاد پرست ملا‘‘ کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے اصل دشمن جنرل ضیاء کے ’’پروردہ‘‘ نواز شریف کو سیاسی میدان میں گج وج کر واپس لانے والی تحریک کا دل و جان سے حصہ بنیں۔ پیپلز پارٹی کی PDM سے ممکنہ ’’دوری‘‘ کی امید اب یہ ’’خبر‘‘ دیتے ہوئے بھی دلائی جارہی ہے کہ آصف علی زرداری ’’اچانک‘‘ شدید بیمار نہیں ہوئے۔ انہیں ہسپتال درحقیقت چند ’’اہم ملاقاتوں‘‘ کے لئے لے جایا گیا ہے۔ چند بہت ہی ’’باخبر‘‘ ہونے کے دعوے دار خواتین وحضرات یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ مطلوبہ یا مفروضہ ’’ملاقاتیں‘‘ ہوب ھی چکیں۔ جلد ہی ’’بارآور‘‘ ہوتی نظر آئیں گی۔ عملی رپورٹنگ سے عرصہ ہوا میں اپنی جان چھڑا چکا ہوں۔

آصف علی زرداری صاحب کی سیاست کے بارے میں ہزاروں تحفظات کے باوجود ذاتی طورپر انہیں بہت پسند کرتا ہوں۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ ان کو صحت کے حوالے سے سنگین مسائل لاحق ہیں۔ طویل عرصے کے بعد میں نے مارچ 2016 کے اواخر میں ان کے ساتھ نیویارک میں تین دن گزارے تھے۔ میرے وہاں قیام کے دوران بھی انہیں کئی گھنٹے ڈاکٹروں کی نگرانی میں مختلف النوع ٹیسٹ کروانا ہوتے تھے۔ ان کے چند مسائل کو ڈاکٹروں کی جانب سے مسلسل نگرانی کی ضرورت ہے۔ اس ہفتے کے آغاز میں ان کے ساتھ ایسا ہی ایک معاملہ ہوا۔

اس معاملہ کی تفصیلات بیان کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ آصف علی زرداری سے ’’رابطوں‘‘ کی ضرورت محسوس کرنے والوں کو ہسپتال کی ’’تنہائی‘‘ ہرگز درکار نہیں۔ جو ’’رابطے‘‘ درکار تھے وہ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد بھی ہوئے ہیں۔ ان رابطوں کے باوجود یہ کالم لکھنے تک بلاول بھٹو زرداری 16 اکتوبر کے دن گوجرانوالہ کے لئے طے ہوئے جلسے سے خطاب کے لئے ہر صورت تیار ہیں۔ عمران خان صاحب کے حقیقی خیرخواہوں کی خواہش اور کوشش تو یہ ہونا چاہیے کہ پیپلز پارٹی PDM میں مؤثر کردار ادا کرتی رہے تانکہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن Solo ہوکر اسے ’’انتہاپسندی‘‘ کی جانب دھکیل نہ پائیں۔ سرکاری اور رضا کار ’’ترجمان‘‘ مگر یہ ’’باریک‘‘ بات سمجھنے کو تیار ہی نہیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

About The Author