اشفاق نمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے بچی پیدا ہوتے ہی تو رشتہ دار دوست احباب باپ کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں، ’بیٹی والے ہو! ذرا خیال سے. ‘ یہ سن کر ایسا لگتا کہ جیسے بیٹی نہیں ہوئی بلکہ ایک بہت بڑا امتحان شروع ہو گیا باپ کو بعض دفعہ یہ گالی لگتی ہے اور اس گالی کو سن کے باپ کے کندھے جھک جاتے ہیں اور ماں تو جیسے جیتے جی مر جاتی ہے۔ گود سے لے کے سکول جانے کی عمر تک ماں بچی پہ چیل کی سی نظر رکھتی ہے اور بات بات پر چپکے چپکے سرگوشیوں میں اس بات سے ڈراتی رہتی ہے کہ دیکھو! کوئی زیادہ قریب آئے، ٹافی کے بہانے بلائے، چھونے کی کوشش کرے تو پاس مت جانا، یہ انکل سارے بہت گندے ہوتے ہیں۔‘
بچیاں یہ سب سن کر حیرت سے اپنی بھولی ماں کو دیکھتی رہتی ہیں مگر جیسے ہی بچیاں گھر سے نکل کے سکول جانے کی عمر میں آتی ہیں انھیں پتہ چل جاتا ہے کہ ماں جھوٹ نہیں بول رہی تھی گلی کی نکڑ پہ حقہ گڑگڑاتے جگت دادا جی، وین والے انکل، ٹک شاپ والے بھائی جی، ہائی جین والے سر، یونیفارم کی دکان والے شاہ جی، بہت سے لوگ ان معصوم بچیوں کو ہراساں کرنے میں یکساں مصروف نظر آتے ہیں لیکن ڈھیٹ لڑکیاں جیسے ہی ذرا بڑی ہو جاتی ہیں تو گلی محلے کے تازہ تازہ جوان ہوئے لونڈے، خالہ زاد، چچا زاد، یہ زاد، وہ زاد، خوفزدہ کر دینے والے انداز میں اظہارِ عشق کو پھڑکتے پھر رہے ہوتے ہیں ان سب قماشوں سے بچنے کے لیے ماں باپ گھبرا کر کچی پکی عمروں میں ایک مرد مگر ذرا کم ضرر بھیڑئیے سے شادی کو ہاں کر دیتے ہیں شادی کے بعد اس لڑکی پر یہ راز کھلتا ہے کہ جس معاشی سکھ اور چار دیواری کے تحفظ کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا تھا وہ تو یہاں بھی ناپید ہے کیونکہ جب وہ گھر سے باہر اشیائے ضرورت لینے نکلتی ہیں تو دکانوں پہ، گلیوں بازاروں میں فحش گانے گاتے، کھلے عام جسم کے مختلف حصے کھجاتے، درّانہ موتتے مرد، جن کی زبان پہ ماں بہن کی گالی اور جسم میں عورت کے خلاف جرم کا جذبہ مسلسل موجزن ہے ان سب کا اس کو ویسے ہی مقابلہ کرنا ہوتا ہے وہ لڑکیاں جو ذرا زیادہ ڈھیٹ ہوتی ہیں اور جو کسی نہ کسی طرح اپنا معاشی بوجھ خود ڈھونے کی کوشش کر لیتی ہیں ان کے سامنے ان مجرموں کی سب سے خوفناک قسم نظر آتی ہے رال بہاتے افسر، چپکتی جنسی ہوس سے بھری آنکھوں والے دفتری ساتھی، اور ان کی اخلاقیات پہ نظر رکھنے والا دفتری سٹاف ان سب کو جھیلنا پڑتا ہے سب سے ڈھیٹ قسم کی وہ خواتین ہیں جو زندگی کے کسی نہ کسی میدان میں کسی طور شہرت حاصل کر لیتی ہیں ان کو ان کے صبر کی داد نہ دینا بہت بڑی ناانصافی ہو گی جو خواتین کسی میدان میں خود کو منوا لیتی ہیں اور کوئی مقام حاصل کر لیتی ہیں تو سب سے پہلے تو ان کے کردار پر باتیں بنائی جاتی ہیں اور اس بات کو تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ یہ بدکار ہیں شریف ہوتیں تو گلی کے چاچے سے ہی نہ بچ پاتیں وغیرہ وغیرہ اس کے بعد ہر کانے ٹیڑھے بندے کو یہ خوش فہمی لاحق ہو جاتی ہے کہ ان خواتین کا اس دنیا میں آنے اور یہاں تک پہنچنے کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ ان لوگوں کی دل بستگی کریں گی
ایک اور بات جو ہمارے مرد بڑے وثوق سے کہتے ہیں وہ یہ کہ عورت تو ذہین ہو ہی نہیں سکتی اس لیے وہ جو کچھ کرتی ہے یا تو وہ کسی کی مہربانی کا نتیجہ ہے یا کوئی مرد ہی اس کے حصے کا کام کر رہا ہے اس سلسلے میں اداکاراؤں پہ کیے جانے والے حملے بہت کچھ وضاحت کر دیتے ہیں کامیاب عورت پہ اٹھنے والے خنجر تو ایسے زہر میں بجھے ہوتے ہیں کہ اگر واقعی انسان کی روح کو دیکھا جا سکتا ہے تو ان عورتوں کی روح نیلو نیل نظر آئے گی
میرا سوال صرف اتنا ہے کہ کیا عورت واقعی برائی کا منبع ہے اور مرد ازل سے شریف النفس ہے؟ کیا واقعی عورت کی عقل نہیں ہوتی اور مرد عقل مند ہوتے ہیں؟ اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو پھر عورتوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ