نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسموگ اور حکومتی اقدامات۔۔۔محمد اسداللہ شہزاد

حکومت پنجاب سموگ کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ اور موثر اقدامات کررہی ہے تاکہ عوام النا س کو سموگ کے مضر اثرات سے بچایا جاسکے۔

محمد اسداللہ شہزاد 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سموگ فضائی آلودگی کی ایک قسم ہے ۔سموگ کی اصطلاح کا استعمال 20ویں صدی کے اوائل میں شروع ہوا جو کہ دو لفظوں سموک یعنی دھواں اور فوگ یعنی دھند سے نکلا ہے۔ فضائی آلودگی کی یہ قسم نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر آکسائیڈ، اووزون، دھواں، کوڑا کرکٹ کے باریک اور دیگر بہت مدہم نظر آنے والے ذرات پر مشتمل ہوتی ہے۔ جب کہ انسانوں کی جانب سے پیدا کردہ سموگ کوئلہ جلانے، گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں، جنگلات اور دیگر زرعی باقیات کو جلانے ، اور دیگر چیزوں جیسا کہ کوڑا کرکٹ، پلاسٹک، چمڑا، ربڑ وغیرہ کو جلانے سے خارج ہونے والے دھوئیں پر مشتمل ہوتی ہے۔ عرفِ عام میں فضائی آلودگی کی وہ قسم جو کہ دھوئیں اور دھند کے ملاپ سے بنتی ہے، سموگ کہلاتی ہے۔
عمومی طور پر سموگ انسانی غیر ماحول دوست رویہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لیے اسے کسی صورت بھی قدرتی عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان اور بالخصوص صوبہ پنجاب میں موسم گرما، سرما، خزاں اور بہار کے بعد اب تو بعض حلقوں میں سموگ کو پانچواں موسم بھی قراردیا جاتا ہے۔ دنیا میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں جہاں ہم سب کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں وہیں ہمارے لیے ان تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کاوشوں کو بڑھاوا دینا بھی اشد ضروری ہے۔ ایک طرف جہاں حکومتی اداروں کی جانب سے انسدادِ سموگ کے لیے فوری اور موثراقدامات کی سخت ضرورت ہوتی ہے وہیں دوسری جانب انفرادی طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کرکے سموگ سے کافی حد تک محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو سموگ کے انسانی صحت پر نہایت ہی مضر اثرات سامنے آتے ہیں۔ سموگ سے گلے، ناک ،کان ، منہ، آنکھوں اور سانس کی بے شمار بیماریاں جنم لیتی ہیں جو کہ انسانی جسم کو مفلوج بنا کے رکھ دیتی ہیں اور صحت مند معاشرہ کی تشکیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ سال 2020میں سموگ کا بننا اس لیے بھی خطر ناک ہے کہ وطنِ عزیز کارونا جیسی مہلک وباءسے نبرد آزما ہے۔ ان حالات میں سموگ اس وبائی مرض میں شدت لاسکتی ہے، جس سے دمہ کے مریض بالخصوص بچے اور معمر افراد اس کی شدید لپیٹ میں آسکتے ہیں۔
سموگ سے بچاﺅ کے لیے درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اوپر بیان کردہ اور دیگر بہت ساری بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
1۔ روزانہ زیادہ سے زیادہ پانی پیا جائے اور8سے10گلاس پانی پینے کو معمول بنا لیا جائے۔
2۔ گھروں ، دفاتر اور خصوصی طور پر تعلیمی اداروں کی کھڑکیاں اور دروازے زیادہ سے زیادہ اوقات میں بند رکھے جائیں۔
3۔ گھروں سے باہر نکلتے وقت آنکھوں کی حفاظت کے لیے چشمہ استعمال کیا جائے اور سفر کے دوران اور بعد میں آنکھوں کو پانی سے دھویا جائے۔ سرخ ہونے کی صورت میں انہیں مسلنے کی بجائے فوری طور پر ڈاکٹر یا قریبی اسپتال سے رجوع کیا جائے۔
4۔ باہر نکلتے وقت ناک اور منہ کو رومال، کپڑا یا ماسک سے ڈھانپ لیا جائے ۔
5۔ کوڑا کرکٹ اور دیگر متعفن جگہوں پر باقاعدگی سے صفائی اور جراثیم کش سپرے کو یقینی بنایا جائے ۔
6۔ دمہ، الرجی اور سانس کی نالیوں کے مریض اپنے اپنے ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات ہمہ وقت اپنے پاس رکھیں تاکہ بوقت ضرورت ان کو استعمال کیا جاسکے۔
7۔ بازاروں ، گلیوں اور سڑکوں پر بلا ضرورت پھرنے سے گریز کیا جائے۔
8۔ ہلکا ور ڈھیلا ڈھالا لباس پہناجائے۔
9´۔ ٹھنڈے مشروبات کے استعمال سے گریز کیا جائے۔
10۔ عوام اپنی گاڑیوں کا معائنہ باقاعدگی سے کرائیں تاکہ دھوئیں کی وجہ سے ماحول میں آلودگی کم سے کم ہو۔
11۔ بچوں اور بزرگوں کی صحت کا خصوصی طور پر خیا ل رکھا جائے۔
12۔ فالتو اشیائ، کوڑا کرکٹ اور دھان و دیگر فصلات کی باقیات کو جلانے سے اجتنا ب کیا جائے۔
13۔ کھلی اور گردوغبار والی جگہوں پر پانی کا چھڑکاﺅ کیا جائے۔
14۔ جھاڑو کی بجائے گیلے کپڑے سے گردوغبار کو صاف کیا جائے۔
15۔ طلباءاور موٹر سائیکل و سائیکل سوار خصوصاً اپنے منہ کو ڈھانپ کر باہر نکلیں۔
حکومت پنجاب سموگ کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ اور موثر اقدامات کررہی ہے تاکہ عوام النا س کو سموگ کے مضر اثرات سے بچایا جاسکے۔ محکمہ صحت کی جانب سے صوبہ بھر کے تمام اسپتالوں میں سموگ کے متاثرہ افراد کے لیے خصوصی کاﺅنٹرز قائم کردیے گئے ہیں ،عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لیے آگاہی دی جارہی ہے اور لوگوں میں مفت ماسک بھی تقسیم کیے جارہے ہیں۔ اور یہ کہ صوبہ بھر میں انسدادِ سموگ کے لیے کئے گئے اقدامات کی آگاہی دینے اور مانیٹرنگ کے لیے محکمہ زراعت کے مشورہ سے ہر ضلع میں موضع کی سطح پر کمیٹیاں بنائی گئی ہیںجو کہ کسانوں سمیت تمام لوگوں کو سموگ بارے بھر پور آگاہی دے رہی ہیں اور حکومتی اقدامات کو یقینی بنانے میں مددگارو معاون ہیں۔مزید یہ کہ ضلعی انتظامیہ کو ضلع و تحصیل کی سطح پر کولوگوں کو کوڑا کرکٹ جلانے سے روکنے، دھان اور دیگر فصلات کی باقیات کو جلانے سے منع کرنے ، دھواں خارج کرنے والی صنعتوںاور فضائی آلودگی کا سبب بننے والے اینٹوں کے بھٹوں کو زبردستی بند کرانے سخت ہدایات جاری کردی گئی ہیں جن کی نگرانی پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کررہی ہے۔اس کے علاوہ مختلف فصلات کی باقیات اور کوڑا کرکٹ کے جلانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے جس کے لیے سپارکو، اربن یونٹ، لوکل گورنمنٹ و کمیونٹی ڈویلپمنٹ ، پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، تمام ڈپٹی کمشنرزاور دیگر متعلقہ محکمہ جات کو ذمہ داریاں تفویض کردی گئی ہیں۔ صوبہ بھر کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ آگاہی دینے کے لیے محکمہ اطلاعات، پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیر ڈیپارٹمنٹ ، دھواں خارج کرنے والی گاڑیوں کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ٹریفک، محکمہ ٹرانسپورٹ، بلدیات، تمام ڈپٹی کمشنرز، پنجاب سیف سٹی اتھارٹ اسی طرح زیادہ دھوئیں کے اخراج والی صنعتوں کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے اربن یونٹ، انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ ، پی آئی ٹی بی، تمام ڈپٹی کمشنرزاور دیگر تمام متعلقہ محکمہ جات کو ٹاسک دے دئیے گئے ہیں۔ مندرجہ بالا تمام محکمہ جات کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ انسدادِ سموگ کے لیے تمام تر وسائل اور توانائیاں صرف کی جائیں۔
سموگ کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر سنجیدہ رویوں سے ہی ممکن ہے۔ ہم سب کو مل کر ماحولیاتی آلودگی کو کم سے کم سطح پر لانا ہوگا۔ اس ضمن میںہم سب پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سموگ سے بچاﺅ کی حفاظتی تدابیر اختیارکریں، بلاضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں، اپنے گھروں، دفاتر اور اردگرد کے ماحول کو صاف ستھر ارکھیں، فصلات کی باقیات اور کوڑا کرکٹ کو نہ جلائیں۔ اس طرح ہی ہم انفرادی و اجتماعی کوششوں سے نہ صرف سموگ کو کنٹرول کرسکتے ہیںبلکہ صحت مندو صاف ستھرے ماحول کی فراہمی میں اپنا فعال کردار ادا کرسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد اسداللہ شہزادڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر راجن پور اوررحیم یار خان ہیں۔

About The Author