نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک درخواست اور ایک تاریخی وضاحت۔۔۔حیدر جاوید سید

سیاست کے جو رنگ ڈھنگ بنتے دیکھائی دے رہے ہیں ان سے بچنے کی فقط ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پتہ نہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ ہم ایک تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔یہ خدشہ بلاوجہ ہرگز نہیں

پچھلے چنددنوں کے دوران کچھ واقعات ایسے ہوئے ہیں جو خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔

دوسری طرف وفاقی وزیر ریلوے ہیں جنہیں اپنی وزارت کے علاوہ دنیا جہان کی خبر ہے۔تازہ خبر انہوں نے یہ دی ہے کہ

”ہوسکتا ہے کہ اگلے3ماہ کے دوران میں یا کوئی اور قتل ہو جائے”۔

فواد چودھری سمیت چند وزراء کہتے ہیں کورونا کی دوسری لہر کا خطرہ ہے اپوزیشن تحریک ملتوی کردے۔ادھر پنجاب کے بعض شہروں میں تحریک انصاف کے کارکنوں کے اجتماعات میں اپوزیشن کی تحریک اور جلسوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جس طرح کے عزم کا اظہار کیا گیا وہ الگ سے تماشے لگنے کی نوید ہے۔

فکر مندی بلاوجہ نہیں ایسا لگتا ہے کہ ہم1970ء کی دہائی کے ساتویں سال کی طرف پلٹ رہے ہیں خدا کرے یہ خدشہ غلط ہو۔لیکن صاف سامنے دیوار پر جو لکھا ہے اُسے نظر انداز کرنا بہت مشکل ہے۔

حکمران جماعت کو بطور خاص احتیاط سے کام لینا ہوتا ہے مگر یہاں باواآدم ہی نرالا ہے۔

سیاست کے جو رنگ ڈھنگ بنتے دیکھائی دے رہے ہیں ان سے بچنے کی فقط ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔

سیاسی اختلاف ذاتی دشمنی ہرگز نہیں ہوتے بد قسمتی سے یہ برائی بدرجہ اتم ہمارے یہاں ہی پائی جاتی ہے کہ مخالفت قابل گردن زدنی ہوتا ہے۔اس سوچ نے اس ملک کو جتنے نقصانات پہنچائے وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔

افسوس کہ ماضی سے کوئی بھی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔

مکرر عرض ہے تصادم کی راہ ہموار کرنے والی باتوں اور بڑھکوں سے گریز کیجئے۔خوف پھیلانے کی بھی ضرورت نہیں۔

اگر حکومت کے ماتحت محکموں کے علم میں کوئی سازش ہے تو اسے ناکام بنانے اور سازشیوں کا سر کچھلنے کے لئے بلا تاخیر اقدامات کیجئے۔یہی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

کیا ہم امید کریں کہ اہل اقتدار موجودہ حالات میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں گے؟۔

ہمارے محبِ مکرم خورشید ندیم بلاشبہ صاحب علم اور وسیع مطالعہ کے حامل دانشور ہیں ۔علمی حلقوں کے ساتھ ساتھ ہم جیسے طلباء بھی ان کی تحریروں سے استفادہ کرتے اور داد دیتے ہیں۔

جماعت اسلامی کے خمیر سے گندھے خورشید ندیم کی تازہ سیاسی محبوب جماعت مسلم لیگ (ن) ہے۔

ان کو حق ہے اپنی محبت کو پالیں پولیس اس کی حفاظت کریں اور دفاع بھی۔

افسوس تب ہوتا ہے جب ان جیسا صاحب دانش ملکی سیاست کی تاریخ کے بعض واقعات کو زمینی حقائق سے جدا کر کے اپنے ڈھنگ اور فہم سے پیش کرے۔

گزشتہ روز کے اپنے کالم میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی قومی اتحاد کی تحریک کے ایک واقعہ کا ذکر کیا اس میں انہوں نے وہی بات کہی جو ان کی پرانی محبوب جماعت اسلامی کہتی آرہی ہے یعنی۔

پی این اے کے سیکرٹری جنرل رفیق باجوہ نے ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی اور اُن کے ہوگئے۔

1977ء میں قومی اتحاد کی تحریک کے دوران یہ سکینڈل سامانے آیا تھا۔رفیق باجوہ جمعیت علمائے پاکستان سے تعلق رکھتے تھے پی این اے اصل میں یو ڈی ایف یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کی نئی شکل تھی۔اس نئے اتحاد کے سربراہ مولانا مفتی محمود تھے اور سیکرٹری جنرل رفیق باجوہ صاحب ۔ جماعت اسلامی ابتداء ہی سے رفیق باجوہ کو سیکرٹری جنرل بنانے پر خوش نہیں تھی۔

رفیق باجوہ کے نام سے پی آئی اے سے لاہور،اسلام آباد کے لئے ٹکٹ بک ہوئی بورڈنگ پاس بھی جاری ہوا یہی ٹکٹ اور بورڈنگ پاس اُس کہانی کا”سرنامہ”تھا جس کے مطابق باجوہ نے بھٹو سے ملاقات کی تھی۔

حقیقت اس کے برعکس تھی باجوہ بھٹو ملاقات ہوئی ہی نہیں۔

پی آئی اے کی ٹکٹ اور بورڈنگ کارڈ جماعت اسلامی کی پی آئی اے میں ذیلی تنظیم پیاسی کا ڈرامہ تھا۔جس دن باجوہ بھٹو ملاقات کا دعویٰ یا الزام سامنے آیا اس دن رفیق باجوہ لاہور سے سانگلہ ہل اپنے ایک عزیز کے انتقال پر تعزیت کے لئے جا چکے تھے۔

ان کی غیر موجودگی میں یہ ڈرامہ رچایا گیا۔رفیق باجوہ نے لاکھ تردید کی مگر جماعت اسلامی کے حامی اخبارات وجرائد بضد رہے اور نتیجہ یہ نکلا کہ جماعت اسلامی نے پروفیسر غفور احمد کو پی این اے کا سیکرٹری جنرل بنوالیا۔

اُدھر جے یو پی کے سربراہ علامہ شاہ احمد نورانی نے رفیق باجوہ کا موقف اور وضاحت دونوں کو درست مان لیا جس کی وجہ سے باجودہ کو جے یو پی کی نائب صدارت سے الگ نہ کیا گیا۔

اس سارے کھیل کے پیچھے ایک صاحب اور بھی تھے وہ جنرل غلام جیلانی جو بعد ازاں پنجاب کے گورنر بنے ضیاء دور میں۔

جنرل جیلانی کی اس سازشی کھیل میں شمولیت سے اس امر کو تقویت ملی کہ پی این اے کی تحریک جو بظاہر انتخابی دھادندلی کی شکایات پر تھی درحقیقت اس کے مقاصد اور تھے۔

جماعت اسلامی کی باجوہ بھٹو ملاقات والی کہانی کی قیمت جنرل ضیاء الحق نے خوب ادا کی مارشل لاء کے نفاذ کے بعد جماعت اسلامی فوجی حکومت کی بی ٹیم بن گئی۔

باجوہ بھٹو ملاقات کا سکینڈل گھڑنے کی وجہ یہ تھی کہ علامہ شاہ احمد نورانی پی این اے کے ان لیڈروں میں سے تھے جو یہ چاہیتے تھے کہ اگر حکومت قومی اسمبلی کی متنازعہ نشستوں اور صوبائی اسمبلی (چاروں صوبائی اسمبلیوں)کے دوبارہ انتخابات کی تحریری ضمانت دے دیتی ہے تو تحریک کو طول دینے کی بجائے انتخابی سیاست کا راستہ دوبارہ اختیار کیا جائے۔

مگر جماعت اسلامی ایئر مارشل اصغر خان اور محترمہ بیگم نسیم ولی خان اور سردار قیوم تحریک کو نتیجہ خیز بنانے کے خواہش مند تھے۔

سادہ لفظوں میں یہ کہ یہ رہنما حکومت کو کوئی رعایت نہیں دینا چاہتے تھے۔

کیوں اس کا جواب ایئر مارشل اصغر خان کا مسلح افواج کے سربراہوں کے نام لکھے گئے خط کے متن میں موجود ہے یہ خط مارشل لاء لگانے کی دعوت پر مبنی تھا۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قومی اتحاد کی تحریک داخلی قوتوں اور امریکہ کے گٹھ جوڑ پر مبنی آشیر باد کا نتیجہ تھی۔

یہی تلخ ترین حقیقت ہے۔

ہمارے اسلام پسند کہلانے والے دوست43سال بعد تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرنے میں شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے۔

About The Author