اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قومی سیاست میں جس کشمکش کی ابتدا اگست 2014ء میں جناب عمران خان کے لانگ مارچ سے ہوئی تھی‘ کوشش بسیار کے باوجود ابھی تک وہ تھم نہیں سکی بلکہ اب تو اسی جدلیات کی بپھری ہوئی لہروں نے پورے نظام کا محاصرہ کر لیا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ اس جنگ کو شروع کرنے والے عمران خان کے سوا کسی اور کا ایثار ہمارے سیاسی ماحول کو نارملائز نہیں کر پائے گا لیکن الجھن یہ ہے کہ جمہوریت اور سیاسی اقتدار کی علامت ہونے کے باوجود‘ محسوس یہ ہوتا ہے کہ فیصلہ سازی کے عمل پہ وزیراعظم کی گرفت ابھی تک مضبوط نہیں ہو پائی،اس لئے اپوزیشن کی پیش قدمی کو بزور طاقت روکنے یا پھر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو انگیج رکھنے کے لئے مفاہمت کی بساط بچھانے کا اختیار ان کے ہاتھ میں نظر نہیں آتا۔ چند دن قبل انصاف لائر فورم کے وکلا سے ان کا خطاب اسی نفسیاتی آشوب کا مظہر تھا،جس میں خان صاحب نے تازہ سیاسی کشمکش میں فریق بننے کے بجائے ایک کمنٹیٹر کے طرح حالات کی ستم ظریفی پہ اپنا تبصرہ پیش کرنے کے سوا اصلاحِ احوال کی خاطر کوئی قابلِ عمل تجویز پیش نہیں کی۔اسی طرح حال ہی میں لاہور میں اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف درج ہونے والے غداری کے مقدمات کی سکیم سے بھی وزیراعظم نے جلدی سے خود کو الگ کر لیا۔ اس شعوری لاتعلقی میں اس تھکا دینے والی کشمکش کے فریقوں کے لئے کچھ خاص پیغام بھی پنہاں تھا۔ بہرحال یہ نہایت پیچیدہ اور پُرخطر سیاسی پیش دستی تھی جس نے ہماری سیاست میں تصور اور حقیقت کے درمیان خطِ امیتاز کھینچ دیا ہے۔ گویا اب عوام اور ریاست کے درمیان حائل وہ مصنوعی سیاسی پردہ بھی تحلیل ہو رہا ہے جس نے ہماری نیشنل سکیورٹی ڈاکٹرائن کا بھرم رکھا ہوا تھا۔ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ
ہمارا ادارہ جاتی ڈھانچہ اب زیادہ دیر تک اس رسہ کشی کا بوجھ سہار نہیں پائے گا چنانچہ تمام سٹیک ہولڈرز کو موجودہ سیاسی مبارزت کو بہت جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچانا پڑے گا،اس تناظر میں اگلے تین ماہ بہت اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔شاید ہمیں الٹے پاؤں اسی بندوبست کی طرف واپس پلٹنا پڑے، جس کی اساس 2010ء میں اٹھارھویں ترمیم کے پیکیج پہ رکھی گئی تھی۔حالات کے تیور بتا رہے ہیں کہ پہلے جس تبدیلی کی پیش قدمی کا مدّ تھا اب اسی تغیر کا جزّر شروع ہونے والا ہے۔جس کی تازہ مثال سابق وزیراعظم نواز شریف کی وڈیو لنک کی تقریروں کو جواز بنا کے لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں درج کرائے گئے مقدمے کا بے بسی کے ساتھ غیر مؤثر ہو جانا ہے۔اسی رجعت قہقریٰ نے اپوزیشن جماعتوں کی لیڈر شپ اور کارکنوں کے حوصلے مزید بلند کر دیے ہیں،یہ بالکل ویسا ہی مخمصہ ہے جیسا عمران خان کے دھرنے کے دوران مسلم لیگی حکومت کو درپیش تھا،جب پی ٹی آئی کے لیڈران اور کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کرانے کے باوجود انہیں گرفتار کرنے میں بے بس نظر آتی تھی اور خاص طور پہ اسلام آباد میں اس وقت کی پولیس اور انتظامیہ ریاستی طاقت کے ذریعے مظاہرین کو روکنے سے اِسی طرح ہچکچاتی تھی، جس طرح آج پنجاب کی سول بیورو کریسی اور پولیس، اپوزیشن جماعتوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریزاں نظر آتی ہے۔ اب چونکہ موسم بدل رہا ہے اس لئے کسی غیر معمولی تبدیلی کی آمد سے قبل ہی انتظامی شاخوں پہ چہچہانے والے پرندوں کی ڈاریں اپنی نئی منزلوں کا تعین کرنے لگی ہیں،حالات اس نہج پہ پہنچ گئے ہیں کہ پنجاب پولیس میں ریفارمز کے لیے سی سی پی او لاہور نے آئی جی پنجاب کو لکھی گئی درخواست میں پولیس میں آرمڈ فورسز کی طرز پر کورٹ مارشل جیسے قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔ سی سی پی او لاہور کے مطابق اس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی سزا یافتہ افسر یا اہلکار دوبارہ نوکری پر بحال نہ ہو سکے۔
دوسری طرف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ابھی اپنی صفوں کو درست کرنے میں سرگرداں دکھائی دیتی ہے،تنظیمی ڈھانچہ کی تکمیل کے علاوہ اس تحریک کے اغراض و مقاصد کا تعین ہونا ابھی باقی ہے،اس بات پہ تو ساری اپوزیشن جماعتیں متفق ہوں گی کہ پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجا جائے لیکن اس کے لئے سیاسی تحریک کا طریقہ کار اور مابعد کی صورت گری پہ اتفاق رائے ابھی ممکن نہیں ہو سکا۔بظاہر اس تحریک کی قیادت نواز لیگ نے ٹیک اوور کر لی ہے اور نوازشریف اپنی سوچ کے مطابق تحریک کے اہداف کا تعین کرنے میں بے باک دکھائی دیتے ہیں۔ وقت اور حالات کے تقاضوں کا صائب ادارک رکھنے والے مولانا فضل الرحمن نے بھی خود کو نوازشریف کی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ کر کے اپنے لئے واضح راہِ عمل کا تعین کر لیا ہے لیکن تمام تر تحفظات کے باوجود پیپلزپارٹی کی قیادت ابھی گومگو کی کیفیت میں مبتلا نظر آتی ہے، موجودہ سسٹم کی بینی فشری ہونے کے ناتے پیپلزپارٹی اصولی طور پہ تو اس بندوبست کا دوام چاہتی تھی اور موجودہ سسٹم کے اندر کسی ممکنہ تبدیلی کی راہیں تلاش کرنے کی حامی تو ہے مگر مقتدرہ کے ساتھ کسی تصادم میں سرکھپانے سے بچنا چاہتی ہے۔پی پی پی کی کہنہ مشق قیادت یہ بھی جانتی ہے کہ اس تحریک کا مرکزِ ثقل پنجاب بنا تو پی ڈی ایم کی کامیابی کا سارا پھل نواز لیگ کی جھولی میں جا گرے گا لیکن جمہوری شناخت رکھنے والی یہ جماعت اٹھنے والی اس لہر سے خود کو جدا بھی نہیں رکھ سکتی۔بہرحال!دونوں صورتوں میں اس کے لئے سیاسی خسارہ موجود رہے گا،اس لئے پیپلزپارٹی کی قیادت جائے رفتن نہ پائے ماندن کی صورت حال سے دو چار ہے۔
اسی طرح اے این پی کی بھی پی ڈی ایم میں شرکت محض علامتی رہ گئی ہے،اس جماعت کی اصل سوچ کی عکاسی ایمل ولی خان کے بیانات سے ہوتی ہے جس نے واضح طور پہ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں سیاسی جدوجہد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی پچھلے ڈھائی سالوں سے بلوچستان میں قائم جام کمال حکومت کا حصہ ہونے کے علاوہ مرکزی صدر اسفندیارکے بیٹے ایمل ولی خان نے بھی اپنی آنکھوں میں خیبر پختونخوا میں حصولِ اقتدار کے خواب سجا رکھے ہیں اس لئے وہ کسی ایسی کشمکش کا حصہ نہیں بنیں گے جو ان کی آرزئوں کے قتل پہ منتج ہو،انہیں بجا طور پہ خدشہ لاحق ہے کہ پی ڈی ایم کی کامیابی کی صورت میں خیبر پختونخوا کا اقتدارِ اعلیٰ جے یو آئی کا مقدر بن سکتا ہے لیکن اپنی ہم خیال جماعت،پیپلزپارٹی،کو ریسکیو کرنے کی خاطر انہیں پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں شرکت بھی کرنا پڑتی ہے،جہاں ساتوں چھوٹی جماعتیں نواز لیگ اور جے یو آئی کے فلسفۂ سیاست کی حمایت کرکے بلاول بھٹو زرداری کو تنہا کر دیتی ہیں۔علیٰ ہذاالقیاس،اس غیر روایتی کشمکش کے دوران اس بات کا امکان بہرحال موجود رہے گا کہ اگر نواز لیگ مقتدرہ کے ساتھ حتمی تصادم کی طرف بڑھی تو پی پی پی اور عوامی نیشنل پارٹی پی ڈی ایم سے اپنی راہیں الگ کر سکتی ہیں۔
افسوس کے ہماری قیادت پُرامن اصلاحات کے اس تسلسل کا دوام تو یقینی نہ بنا سکی جس کی وہ وکالت کرتی رہی لیکن بالآخر غیر لچکدار رویے کو متوازن بنانے کی خاطر ایسی سیاسی مزاحمت پہ آمادہ ہو گئی جو ملک و قوم کو عمیق خطرات سے دوچار کر سکتی ہے۔بہرحال،موجودہ سیاسی تحریک نے جہاں اس عہد کے بطن میں پنہاں اسرار و رموز کو بے حجاب کیا وہاں یہی کشمکش انتہا پسندی کے رجحانات کو ریگولیٹ کرکے ہمارے لئے خیر کا وسیلہ بھی بن سکتی ہے اور اگر ملکی سیاست پر غیر منتخب عناصر کا اثر و رسوخ کم ہوا تو جنوبی ایشیا کی پوری تزویراتی پوزیشن تبدیل ہو جائے گی۔پاکستان اس میجر پالیسی شفٹ میں زیادہ وقت نہیں لے گا جو ہمیں دائمی تنازعات سے نجات دلا سکتی ہے۔
ہمارا ادارہ جاتی ڈھانچہ اب زیادہ دیر تک اس رسہ کشی کا بوجھ سہار نہیں پائے گا چنانچہ تمام سٹیک ہولڈرز کو موجودہ سیاسی مبارزت کو بہت جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچانا پڑے گا،اس تناظر میں اگلے تین ماہ بہت اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔شاید ہمیں الٹے پاؤں اسی بندوبست کی طرف واپس پلٹنا پڑے، جس کی اساس 2010ء میں اٹھارھویں ترمیم کے پیکیج پہ رکھی گئی تھی۔حالات کے تیور بتا رہے ہیں کہ پہلے جس تبدیلی کی پیش قدمی کا مدّ تھا اب اسی تغیر کا جزّر شروع ہونے والا ہے۔جس کی تازہ مثال سابق وزیراعظم نواز شریف کی وڈیو لنک کی تقریروں کو جواز بنا کے لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں درج کرائے گئے مقدمے کا بے بسی کے ساتھ غیر مؤثر ہو جانا ہے۔اسی رجعت قہقریٰ نے اپوزیشن جماعتوں کی لیڈر شپ اور کارکنوں کے حوصلے مزید بلند کر دیے ہیں،یہ بالکل ویسا ہی مخمصہ ہے جیسا عمران خان کے دھرنے کے دوران مسلم لیگی حکومت کو درپیش تھا،جب پی ٹی آئی کے لیڈران اور کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کرانے کے باوجود انہیں گرفتار کرنے میں بے بس نظر آتی تھی اور خاص طور پہ اسلام آباد میں اس وقت کی پولیس اور انتظامیہ ریاستی طاقت کے ذریعے مظاہرین کو روکنے سے اِسی طرح ہچکچاتی تھی، جس طرح آج پنجاب کی سول بیورو کریسی اور پولیس، اپوزیشن جماعتوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریزاں نظر آتی ہے۔ اب چونکہ موسم بدل رہا ہے اس لئے کسی غیر معمولی تبدیلی کی آمد سے قبل ہی انتظامی شاخوں پہ چہچہانے والے پرندوں کی ڈاریں اپنی نئی منزلوں کا تعین کرنے لگی ہیں،حالات اس نہج پہ پہنچ گئے ہیں کہ پنجاب پولیس میں ریفارمز کے لیے سی سی پی او لاہور نے آئی جی پنجاب کو لکھی گئی درخواست میں پولیس میں آرمڈ فورسز کی طرز پر کورٹ مارشل جیسے قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔ سی سی پی او لاہور کے مطابق اس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی سزا یافتہ افسر یا اہلکار دوبارہ نوکری پر بحال نہ ہو سکے۔
دوسری طرف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ابھی اپنی صفوں کو درست کرنے میں سرگرداں دکھائی دیتی ہے،تنظیمی ڈھانچہ کی تکمیل کے علاوہ اس تحریک کے اغراض و مقاصد کا تعین ہونا ابھی باقی ہے،اس بات پہ تو ساری اپوزیشن جماعتیں متفق ہوں گی کہ پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجا جائے لیکن اس کے لئے سیاسی تحریک کا طریقہ کار اور مابعد کی صورت گری پہ اتفاق رائے ابھی ممکن نہیں ہو سکا۔بظاہر اس تحریک کی قیادت نواز لیگ نے ٹیک اوور کر لی ہے اور نوازشریف اپنی سوچ کے مطابق تحریک کے اہداف کا تعین کرنے میں بے باک دکھائی دیتے ہیں۔ وقت اور حالات کے تقاضوں کا صائب ادارک رکھنے والے مولانا فضل الرحمن نے بھی خود کو نوازشریف کی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ کر کے اپنے لئے واضح راہِ عمل کا تعین کر لیا ہے لیکن تمام تر تحفظات کے باوجود پیپلزپارٹی کی قیادت ابھی گومگو کی کیفیت میں مبتلا نظر آتی ہے، موجودہ سسٹم کی بینی فشری ہونے کے ناتے پیپلزپارٹی اصولی طور پہ تو اس بندوبست کا دوام چاہتی تھی اور موجودہ سسٹم کے اندر کسی ممکنہ تبدیلی کی راہیں تلاش کرنے کی حامی تو ہے مگر مقتدرہ کے ساتھ کسی تصادم میں سرکھپانے سے بچنا چاہتی ہے۔پی پی پی کی کہنہ مشق قیادت یہ بھی جانتی ہے کہ اس تحریک کا مرکزِ ثقل پنجاب بنا تو پی ڈی ایم کی کامیابی کا سارا پھل نواز لیگ کی جھولی میں جا گرے گا لیکن جمہوری شناخت رکھنے والی یہ جماعت اٹھنے والی اس لہر سے خود کو جدا بھی نہیں رکھ سکتی۔بہرحال!دونوں صورتوں میں اس کے لئے سیاسی خسارہ موجود رہے گا،اس لئے پیپلزپارٹی کی قیادت جائے رفتن نہ پائے ماندن کی صورت حال سے دو چار ہے۔
اسی طرح اے این پی کی بھی پی ڈی ایم میں شرکت محض علامتی رہ گئی ہے،اس جماعت کی اصل سوچ کی عکاسی ایمل ولی خان کے بیانات سے ہوتی ہے جس نے واضح طور پہ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں سیاسی جدوجہد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی پچھلے ڈھائی سالوں سے بلوچستان میں قائم جام کمال حکومت کا حصہ ہونے کے علاوہ مرکزی صدر اسفندیارکے بیٹے ایمل ولی خان نے بھی اپنی آنکھوں میں خیبر پختونخوا میں حصولِ اقتدار کے خواب سجا رکھے ہیں اس لئے وہ کسی ایسی کشمکش کا حصہ نہیں بنیں گے جو ان کی آرزئوں کے قتل پہ منتج ہو،انہیں بجا طور پہ خدشہ لاحق ہے کہ پی ڈی ایم کی کامیابی کی صورت میں خیبر پختونخوا کا اقتدارِ اعلیٰ جے یو آئی کا مقدر بن سکتا ہے لیکن اپنی ہم خیال جماعت،پیپلزپارٹی،کو ریسکیو کرنے کی خاطر انہیں پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں شرکت بھی کرنا پڑتی ہے،جہاں ساتوں چھوٹی جماعتیں نواز لیگ اور جے یو آئی کے فلسفۂ سیاست کی حمایت کرکے بلاول بھٹو زرداری کو تنہا کر دیتی ہیں۔علیٰ ہذاالقیاس،اس غیر روایتی کشمکش کے دوران اس بات کا امکان بہرحال موجود رہے گا کہ اگر نواز لیگ مقتدرہ کے ساتھ حتمی تصادم کی طرف بڑھی تو پی پی پی اور عوامی نیشنل پارٹی پی ڈی ایم سے اپنی راہیں الگ کر سکتی ہیں۔
افسوس کے ہماری قیادت پُرامن اصلاحات کے اس تسلسل کا دوام تو یقینی نہ بنا سکی جس کی وہ وکالت کرتی رہی لیکن بالآخر غیر لچکدار رویے کو متوازن بنانے کی خاطر ایسی سیاسی مزاحمت پہ آمادہ ہو گئی جو ملک و قوم کو عمیق خطرات سے دوچار کر سکتی ہے۔بہرحال،موجودہ سیاسی تحریک نے جہاں اس عہد کے بطن میں پنہاں اسرار و رموز کو بے حجاب کیا وہاں یہی کشمکش انتہا پسندی کے رجحانات کو ریگولیٹ کرکے ہمارے لئے خیر کا وسیلہ بھی بن سکتی ہے اور اگر ملکی سیاست پر غیر منتخب عناصر کا اثر و رسوخ کم ہوا تو جنوبی ایشیا کی پوری تزویراتی پوزیشن تبدیل ہو جائے گی۔پاکستان اس میجر پالیسی شفٹ میں زیادہ وقت نہیں لے گا جو ہمیں دائمی تنازعات سے نجات دلا سکتی ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ