نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاسی عمل کا حقیقی حُسن ۔۔۔حیدر جاوید سید

ان دنوں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے مجاہدین گھتم گھتا ہیں سوشل میڈیا پر چھوڑیں ہمیں کیا یہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے والا معاملہ ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملکی سیاست کے دو تین گرم گرم موضوعات تھے بلکہ ہیں۔خود جناب وزیراعظم کی انصاف ورکرز فورم کے کنونشن میں کی گئی تقریر اس پر تو پورا دیوان تحریر کیا جاسکتا ہے اس سے آگے ایک صاحب اور ہیں جن کے والد بزرگوار ہمیشہ آمروں کے معاون ومددگار رہے ہمارے ایک دوست نے ان صاحب کی تقریر کے ایک حصہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ

”وکلاء کاظہورالہی خاندان ہے”۔

طلال چودھری کی جوابی غزل بھی خوب ہے جو انہوں نے وزیراعظم کے اپنے بارے میں کلمات پر کہی۔

ڈالر10پیسے مہنگا،پاونڈ ایک روپیہ اور سونا1400روپے فی تولہ مہنگاہوگیا ہے۔

کچھ قصے کہانیاں اور بھی ہیں مثلاً فقیر راحموں کہتے ہیں کہ

حکومت اپوزیشن پر سنگ زنی کرنے کی بجائے کارکردگی کو بہتر کرے ۔مہنگائی اور جرائم کی شرح میں کمی لانے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرے تاکہ اپوزیشن کی مجوزہ احتجاجی تحریک میں عوام کی شرکت روکی جاسکے۔

کیا حکومت اس مشورہ پر عمل کرے گی؟۔

بظاہر تو ایسا لگ رہا ہے کہ بالکل نہیں۔

کیونکہ ترجیحات کا معاملہ ہے۔

مثلاً ہماری نسل کے محبوب شاعر جناب احمد فراز کے صاحبزادے شبلی فرازجو ان دنوں وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اگلے روز مہنگائی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر صحافی کو کہنے لگے

شکر کرو روٹی مل رہی ہے۔

“ہم تو خیر کافی عرصے سے شکر کے سالن میں صبر کی روٹی بھگو کر کھاتے جی رہے ہیں”۔

یہ سیاست بھی بڑی عجیب سی چیز ہے اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ اب وقتی مفادات کے اسیر لوگوں کا کاروبار ہے ، وہ زمانے گئے جب نظریات ہوتے تھے تربیت یافتہ سیاسی کارکن،تبادلہ خیال کی نشستیں سیاسی عمل کا حصہ ہونا قابل فخر سمجھا جاتا تھا ۔

سیاسی عمل پر زوال1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے آیا اور پھر چل سو چل والی حالت ہے۔

وہ زمانے اورتھے جب سنجیدہ سیاسی کارکن جماعتوں کا اثاثہ ہوتے تھے اب تواثاثوں کے اثاثے دیکھے جاتے ہیں۔

ان دنوں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے مجاہدین گھتم گھتا ہیں سوشل میڈیا پر چھوڑیں ہمیں کیا یہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے والا معاملہ ہے۔

تمہیدی سطورطویل ہوگئیں آگے بڑھنے سے قبل ایک خبروہ یہ کہ

پنجاب کی وزرات داخلہ نے صوبہ بھر کے پولیس حکام کو ہدایت کی ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتون پی پی پی،نون لیگ،اور جے یو آئی کے ان فعال کارکنوں اور ہمدردوں کی لسٹیں مرتب کی جائیں جو کسی احتجاجی تحریک کی صورت میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ایسے کاروباری افراد کی فہرست بنانے کو بھی کہا گیا ہے جو اپوزیشن کے جلسوں اور احتجاجی تحریک کے لئے مالی اعانت کرسکتے ہوں۔

وفاقی وزارت داخلہ کا ایک ماتحت ادارہ پنجاب پولیس کی اس ضمن میں مدد کرے گا۔

یہ سب کرنے کی نوبت کیوں آئی؟۔

کیا واقعی حکومت یہ محسوس کرتی ہے کہ اپوزیشن عوام کو متوجہ اور متحرک کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے؟۔

ایسا محسوس کرتی ہے تو پھر اس کا علاج اپوزیشن کے کارکنوں کی فہرستیں بنوانا نہیں بلکہ اپنے معاملات کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے

معاملات کیا ہیں۔یہ درون سینہ رازنہیں۔

ان سطور میں تواتر کے ساتھ ان معاملات کی طرف متوجہ کرتے آرہے ہیں۔

مکررعرض کیئے دیتے ہیں

اولاً یہ ہے کہ عوام ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بد حال ہوتے جارہے ہیں

ثانیاً یہ کہ اہل اقتدار کسی بھی معاملے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے صرف چور چور کی تکرار۔ماضی کو کوستے رہنا،اعدادوشمار کو مسخ کر کے پیش کرنا کافی ہے نہ اس سے مسائل کی سنگینی میں کمی آسکتی ہے۔

سیاسی عمل میں اختلاف رائے ہوتا ہے اپوزیشن اسمبلیوں کے اندر اور باہر فعال کردار ادا کرتی ہے۔

حکومت کو بھی اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے فعال کردار ادا کرنا چاہیئے۔

حکومتی اکابرین کو چاہیئے کہ وہ ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کریں کہ اگر اپوزیشن احتجاجی تحریک چلاتی ہے تو کیا عوام اس کا ساتھ دیں گے۔

دیں گے تو کیوں اور اگر لاتعلق رہتے ہیں تو وجہ کیاہوگی؟اس سوال پر سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے محض یہ کہہ دینا کہ میں جمہوریت ہوں اور اپوزیشن ڈاکو یہ کافی نہیں۔

ثانیاً یہ کہ کسی بھی حوالے سے گفتگو اور تقریر کے دوران اپوزیشن کو بھارت نواز اور خود کو نظام سے زیادہ وزارت دفاع کے ماتحت ایک محکمہ کا وفادار و دست بازو بنا کر پیش کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

آپ اگر عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے ہیں تو عوام پر اعتماد کیجئے اور عوام کا دل جیتنے کی کوشش بھی یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ عوام کا دل جیتنے کے لئے فوری اور ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اوراس کے لئے دو مسئلہ اہم ہیں۔

اولاً مہنگائی اور ثانیاً بیروزگاری۔

ہر دو مسائل کی شدت کم کرنے کے لئے حکومت کی حکمت عملی کیا ہوگی۔یا کیا ہونی چاہیئے اس حوالے سے حکومت اور راوی دونوں خاموش ہیں۔

بہت ادب کے ساتھ حکمران قیادت سے یہ عرض کیا جانا ضروری ہے۔

حضور!

اب آپ اپوزیشن میں نہیں بلکہ سوادوسال سے اقتدار میں ہیں وفاق اور تین صوبوں میں مکمل اقتدار آپ کے پاس ہے۔بھوک غربت اور دوسرے مسائل الزامات کی جگالی سے کم نہیں ہوتے۔

روزمرہ کے مسائل، ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ان کی سنگینی میں اضافہ سب کو دکھائی دے رہا ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے بھی مسلسل توجہ دلا رہے ہیں۔

ماضی اور محاذ آرائی کے ساتھ طعنے بازی سے باہر نکل کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے

یقیناً اپوزیشن کی ساری شکایات درست نہیں ہوں گی مگر مکمل طور پر غلط بھی نہیں

سیاسی عمل اور اس کی بنیاد پر استوار ہوئے نظام میں دونوں کی اہمیت مسلم ہے

اصولی طور پر ہمیشہ یہ اہل اقتدار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ معاملات پوائنٹ آف نوریٹرن تک نہ جانے دیں ۔

حرف آخر یہ ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دے اپوزیشن کا کام ہی حکومت پر تنقید ہوتا ہے حکومت جوابی الزام تراشی سے جی نہیں بہلایا کرتی بلکہ اپنے عمل سے اپوزیشن کے الزامات کو غلط ثابت کرتی ہے ۔

اس لئے مناسب ترین بات یہ ہوگی کہ اپنی حکمت عملی اور پالیسیوں کے ساتھ اپنائے گئے رویوں پر نظر ثانی کی جائے۔

About The Author