امتیاز عالم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالم۔
”
محترم وزیراعظم عمران خان کے وکلا کے جلسے سے خطاب کی یہ سرخی ”میں جمہوریت، اپوزیشن ڈاکو“ جنگ اخبار کی ہیڈ لائن بنی۔ ذرا ذیلی سرخیوں کی جھلک بھی دیکھ لی جائے : ”فوج نے ہر جگہ ہماری مدد کی“ ، ”انہیں (یعنی اپوزیشن) ہی فوج سے مسئلہ ہوتا ہے، مجھے کیوں نہیں، کہ وہ جانتی ہے کہ میں کیسی زندگی گزار رہا ہوں“ ، ”فوج چوروں کو جانتی ہے“ ، ”ISI کو کمیشن لینے یا منی لانڈرنگ کرنے والوں کا پتہ ہے“ ، جتنے مرضی جلسے جلوس کریں، قانون توڑا تو عام لوگوں والی جیل جائیں گے ”،“ لیگی کارکن ان سے پیسے لیں اور قیمے والے نان کھائیں لیکن گھر بیٹھیں ”استعفیٰ مانگنے پر نواز شریف خاموش بیٹھ گئے کیونکہ جنرل ظہیر الاسلام کو ان کی چوری کا علم تھا“ ، ”لوگ نظریے کے لیے باہر نکلتے ہیں، کسی کی چوری بچانے کے لیے نہیں“ ۔
ایک ایک سرخی پر سر دھنیے یا سر پیٹیے، وزیراعظم کے منہ سے نکلی ہوئی یہ باتیں اپوزیشن کے موقف کے لیے تقویت کا باعث ہیں۔ ”میں جمہوریت“ نہیں ہوتی جب تک یہ سب کے لیے ایک سی آزادی اور حقوق کی ضامن نہ ہو۔ فرد کی آزادی کی بنیاد پر قائم جمہوریت پورے معاشرے کے جمہوری ہونے کی ضمانت دیتی ہے اور ”میں“ سے شروع ہو کر ”میں“ پر ختم نہیں ہوتی۔ اور ”میں میں“ خود ستائشی کے سوا کچھ نہیں اس میں ”جمہوریت“ کے جو بھی مقابل ہے وہ ”ڈاکو“ ہے، بھلے ”میں“ کو لانے میں جمہوری عمل کا سرقہ ہی نہ کیا گیا ہو۔
”میں“ صحیح، باقی سب غلط، شخصیت پسندی بلکہ خود پسندی کی وہ بیماری ہے جس میں مبتلا شخص کسی کو درخور اعتنا نہیں سمجھتا۔ وہ عقل کل ہے اور وہی آخری سچ بھی۔ اس کیفیت میں مبتلا شخص علم نفسیات کی لغت میں فروغ دروغ گوئی (pseudologia Fantastica) کہا جاتا ہے۔ پیتھولاجیکل جھوٹا۔ اب ذرا ”میں“ سے آگے چلتے ہیں ”فوج نے ہر جگہ ہماری مدد کی“ کا اعتراف اپوزیشن کے الزام ہی کی تصدیق نہیں تو کیا ہے؟ ”ISI کو کمیشن لینے یا منی لانڈرنگ کرنے والوں کا پتہ ہے“ یہ کہہ کر کیا وزیراعظم کرپشن کے نام پر اپوزیشن کے خلاف چلائی گئی مہم کا بوجھ ISI پر نہیں ڈال رہے؟
اور کیا وزیراعظم یہ کہہ کر کہ ”استعفیٰ مانگنے پر نواز شریف خاموش بیٹھ گئے کیونکہ جنرل ظہیر السلام (DGISI) کو ان کی چوری کا پتہ تھا“ ، نواز شریف ہی کے بیانیہ کی تصدیق نہیں کر رہے کہ ان کے خلاف عمران خان کے دھرنے میں ان کا ہاتھ تھا۔ یہ بہت بڑا الزام ہے کہ ISI کا چیف وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے کی جسارت کرے۔ اور اگر کسی نے ایسی جرات عمران خان کے بقول ان کے ساتھ کی ہوتی تو وہ اسے نوکری سے برخاست کر دیتے۔ اپوزیشن بھی تو یہی کہہ رہی ہے کہ ادارے اپنے آئینی اور ادارہ جاتی دائرے میں رہیں۔
ISI دنیا کی کمال کی خفیہ ایجنسیوں میں ٹاپ پر نظر آتی ہے کہ یہ پاک افواج کے دشمن کے عقب میں ففتھ کالم کے طور پر برسر عمل رہ کر ملکی دفاع کے لیے گوناگوں خدمات انجام دے رہی ہے۔ اب ہمیں یہ وزیراعظم سے معلوم پڑ رہا ہے کہ اس کے فرائض کا دائرہ کتنا کشادہ ہے۔ یقیناً پھر تو اسے یہ بھی معلوم ہوگا جیسا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ ”وہ جانتی ہے، میں کیسی زندگی گزار رہا ہوں“ ۔ لوگوں کی ذاتی زندگیوں پہ نظر رکھنا بھی تو کہیں سلامتی کے تقاضوں کی ضرورت نہ ہو، اس پر کوئی کیا کہے۔
اب تو دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے بل پر ڈیجیٹل مطلق انسانیت قائم کی جا رہی ہے۔ کووڈ کی عالمی وبا نے اس کی راہ تیزی سے ہموار کی ہے۔ اب ترقی یافتہ ملکوں میں ہر شہری بارے تمام تر معلومات ریاست کے پاس ہیں اور عالمی سطح پر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز گوگل، فیس بک، ٹویٹر و دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعہ دنیا بھر کے لوگوں کا ڈیٹا جمع ہوتا جا رہا ہے جس سے کوئی بھی انٹیلی جنس ایجنسی پورا پورا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ آج کل چین کی پیروی کرتے ہوئے ہماری ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی و دیگر ادارے شہریوں کی نقول و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہائبرڈ وار فیئر کے اس دور میں دنیا بھر کی ایجنسیاں ایک دوسرے کو مات دینے میں سرگرم ہیں اور جس سے امریکی انتخابات بھی محفوظ نہیں۔
ہمارے وزیراعظم کی جمہوریت کے کیا معنی ہیں، ان کے بیان کے اس حصے سے صاف ظاہر ہے۔ ”قانون توڑا تو عام لوگوں والی جیل جائیں گے“ اور کرپشن کے خلاف ہمارے مجاہد اول نے لیگی کارکنوں کو ترغیب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”لیگی کارکن ان سے پیسے لیں، قیمے والے نان کھائیں اور گھر بیٹھیں“ ۔ سیاسی رشوت کی یہ تھوک تجویز سیاسی کارکنوں کو کرپشن میں حصہ مانگنے پر اکساتی ہے۔ جانے وزیراعظم کیوں اتنے سٹپٹا گئے ہیں۔ اپوزیشن اور وزیراعظم کے مابین اس محاذ آرائی میں ہر طرح کا ایندھن اور گولے استعمال ہو رہے ہیں۔ دونوں اطراف کے بیانات تیسری نظر نہ آنے والی پارٹی کو اپنے یدھ میں گھسیٹتے جا رہے ہیں۔
اس کھلی جنگ میں ہر حربہ استعمال ہو رہا ہے، قانونی بھی اور غیر قانونی بھی۔ جو موضوع ممنوع تھے اور ہونٹوں کی ہچکچاہٹ میں گلے میں پھنس کر رہ جاتے تھے۔ آج کوچہ و بازار میں زیر بحث ہیں۔ بات جہاں سے شروع ہوئی ہے، جانے کس انجام کی جانب رواں ہو جائے اور تمام پارٹیاں اور ادارے ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ سیاست کی یہ لڑائی جانے کس انجام کو پہنچے۔ اپوزیشن نے تو طبل جنگ بجایا ہی ہے، وزیراعظم اور ان کے وزرا روز اسے مزید اکسانے پہ لگے ہیں۔ یوں وہ اپوزیشن ہی کے مقصد کو پورا کر رہے ہیں۔ آگ ہے کہ دونوں جانب برابر لگی ہوئی اور تیسری تگڑی پارٹی تماشا دیکھا کیے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ