نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سِول بالادستی کی جنگ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

اپوزیشن تحریک کا ابھی باقاعدہ آغاز بھی نہیں ہوا لیکن حکومت کی صفوں میں گھبراہٹ کے آثار نمایاں ہونے شروع بھی ہو گئے ہیں۔

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے تہتر برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ تہتر برس کِسی بھی ملک اور قوم کی سِمت متعین کرنے کے لیے بہت ہوتے ہیں۔ اتنا لمبا عرصہ قوموں کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے بھی بہت ہوتا ہے لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم آج تک یہ ہی نہیں سمجھ سکے کہ ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سِول بالادستی اور سِول حکومت کا قیام کتنا ضروری ہے۔ ان تہتر سالوں میں ہم چار مارشل لا بھگت چُکے ہیں جبکہ جمہوری ادوار میں بھی یا تو کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے آمرانہ نظام ہی مسلط رہا اور اگر کبھی عوام کے بھرپور دباو پر جمہوری حکومتیں برسراقتدار آ بھی گئیں تو اِن کو چلنے نہیں دیا گیا اور اکثر و بیشتر ان حکومتوں کو آئینی مُدت پورا ہونے سے پہلے ہی رُخصت کر دیا گیا۔ اتنا عرصہ گزر جانے بعد بھی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ کیا پاکستان میں بھی کبھی حقیقی جمہوریت کا قیام ممکن ہو سکے گا؟ کیا ہم بھی کبھی سِول بالادستی پر مبنی حکومت دیکھ سکیں گے؟ کیا پاکستان میں بھی کبھی منصفانہ انتخابات ہو سکیں گے اور عوام کے حقیقی نمائیندے ایک حقیقی جمہوری حکومت تشکیل دے سکیں گے؟
بانیِ پاکستان کے ارشادات اور ویژن کی مطابق پاکستان کا نظامِ حکومت تشکیل دینے کی بجائے پاکستان میں غیر جمہوری اندازِ حکومت مسلط کر دینے سے سِول بالادستی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۰ طاقتور اداروں کو حکومت کرنے کا ایسا چسکہ لگ چکا ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا تصور بھی ناممکن ہو چکا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس اور اس میں کیے جانے والے فیصلوں کے مطابق بننے والے اپوزیشن کے اتحاد اور حکومت مخالف تحریک چلائے جانے کے فیصلے سے اُمید پیدا ہوئی ہے کہ شائد جمہوری اور آمرانہ قوتوں کے درمیان ہونے والی یہ جنگ فیصلہ کُن ثابت ہو اور پاکستان میں ہمیشہ کے لیے سِول بالادستی قائم ہو جائے۔ اِس اُمید کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پہلی دفعہ پنجاب سے بھی آمریت کے خلاف آواز اُٹھی ہے اور اس جنگ کا مرکز بھی پنجاب ہی ہو گا۔
سِول بالادستی کے مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے اپوزیشن ایک نمائیندہ اتحاد پیپلز ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سائے تلے متحد ہو چکی ہے، تحریک کا اعلان ہو چکا ہے، دسمبر تک جلسوں کا شیڈول دیا جا چُکا ہے، جنوری میں فیصلہ کُن لانگ مارچ کا اعلان ہو چُکا ہے، اجتماعی استعفوں کے بارے بھی کہا جا رہا ہے لیکن ابھی چائے کی پیالی اور ہونٹوں کے درمیان بہت سا فاصلہ موجود ہے۔ سب سے پہلے تمام اتحادی جماعتوں کا تحریک کے مشترکہ مقصد پر متفق ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ حکومت کو گِرانے سے بھی زیادہ ضروری کام آمرانہ نظام کا مکمل خاتمہ ہے۔ حقیقی جمہوریت صرف ایک ہی صورت میں بحال ہو سکتی ہے جب نظام میں موجود ان چور دروازوں کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے جہاں سے آمرانہ طاقتیں جمہوریت پر حملہ آور ہوتی ہیں۔
اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کی صفِ اوّل کی قیادت کے مابین ہم آہنگی اور باہمی اعتماد نظر آ رہا ہے لیکن دوسرے درجے کی قیادت اور کارکنوں کے درمیان اعتماد کا فقدان بھی واضح طور پر موجود ہے۔ اس کی مثال پہلے خواجہ آصف کا سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف غیر ضروری بیان اور اب ن لیگ سے ہمدردی رکھنے والے صحافیوں اور اینکرز جن میں نجم سیٹھی، طلعت حسین، جاوید چوہدری، مطیع اللہ جان، عمار مسعود اور کئی دوسرے صحافیوں کا مسلسل پروپیگنڈہ ہے جِس میں وہ میاں نواز شریف کو چی گویرا اور مریم نواز کو بینظیر بھٹو ثابت کرتے ہوئے مجوزہ تحریک کے سُرخیل اور آمریت کے خلاف واحد آواز قرار دیتے ہوئے ایسے ظاہر کر رہے ہیں کہ جیسے صرف ن لیگ اور اس کی قیادت ہی اپوزیشن تحریک کی روحِ رواں ہے جبکہ دوسری اتحادی جماعتوں خاص طور پر پیپلزپارٹی کو مسلسل نظرانداز کرنے کی پالیسی اختیار کی جا رہی ہے۔ خواجہ آصف اور ن لیگی مکتبہ فکر کے صحافیوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس آمریت کے خلاف جنگ اور سِول بالادستی کی بات ن لیگ آج کررہی ہے، پیپلزپارٹی کی بنیاد ہی اس نکتہ پر رکھی گئی ہے، اور اِس مقصد کے حصول کے لیے دی جانے والی قربانیوں میں لیڈرشپ اور کارکنان کی شہادتوں سے لیکر کارکنان اور ہمدردوں کو درپیش آنے والی بے شمار مشکلات شامل ہیں جبکہ ن لیگ کو آج کئی دہائیوں کے بعد یہ بات سمجھ آرہی ہے۔ ووٹ کو عزت دینے کی بات کرنے والے ن لیگی خود ایک لمبا عرصہ ووٹ کو بے عزت کرنے والے نظام کا حصہ رہے ہیں۔ اگر اپوزیشن جماعتیں ایک مشترکہ قومی مقصد کے حصول لیے اکٹھی ہو ہی گئی ہیں تو اتحاد اور اتحادیوں کا احترام ملحوظ خاطر رہنا چاہیے۔
ابھی تک تو حُسنِ ظن یہی ہے کہ ن لیگ کی اِس یکطرفہ پالیسی سے میاں نواز شریف اور مریم نواز ہرگز متفق نہیں ہونگے اور یہ عناصر ن لیگ میں موجود کسی دوسرے گروپ سے ہدایات کے تحت اس حرکت کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ان کا ایجنڈا اپوزیشن اتحاد میں دراڑیں ڈالنا اور خفیہ طاقتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ وجہ جو بھی ہو ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی جانب سے اِن شرپسند عناصر کو فوری طور پر شٹ اپ کال دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے اپوزیشن اتحاد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔

اپوزیشن تحریک کا ابھی باقاعدہ آغاز بھی نہیں ہوا لیکن حکومت کی صفوں میں گھبراہٹ کے آثار نمایاں ہونے شروع بھی ہو گئے ہیں۔ غداری کے مقدمے، نیب کے نوٹسسز اور اپوزیشن کی سرگرمیوں پر پابندیاں یہ سب اقدامات حکومت کی گھبراہٹ کو ظاہر کرتے ہیں۔ اپوزیشن تحریک سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر سیاسی شعور کی بھی نمایاں کمی نظر آتی ہے۔ غداری کے مقدموں جیسے انتہائی اقدامات سے اپوزیشن کا نقصان کم اور حکومت کا نقصان زیادہ ہو گا جبکہ فائدہ صرف اور صرف اپوزیشن کو ہو گا۔ درجن بھر حکومتی ترجمان جو ہر روز باری باری بلاناغہ پریس کانفرنس کرتے ہیں اور ہر روز ایک ہی جیسی باتیں اور وہی گھسے پٹے الزامات دہراتے ہیں اس سے بھی حکومت کی مخالفت میں ہی اضافہ ہی ہوتا ہے حمایت میں نہیں۰ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن تحریک کو کچلنے کے لیے غیر جمہوری اور غیر سیاسی ہتھکنڈوں کا استعمال ایک ایسی حکومت کی طرف سے کیا جا رہا ہے جو کہ خود اپنے اپوزیشن کے دور میں احتجاجی سیاست کی ایک تاریخ رکھتی ہے۔
اپوزیشن کے جلسوں میں عوام کی بہت بڑی تعداد کی شرکت متوقع ہے جس کی ایک جھلک پیپلزپارٹی کی کراچی یکجہتی ریلی اور ن لیگ کے لاہور میں ہونے والے مظاہرے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی جانب سے کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے ورکرز کنونشنز اور تنظیمی اجلاسوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اپوزیشن تحریک کی تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے تفصیلی دورہ پر لاہور آ رہے ہیں۔ چیرمین بلاول بھٹو زرداری کی لاہور آمد کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں مزید تیزی آ جائے گی۔
گوجرانوالہ میں ہونے والا پی ڈی ایم کا پہلا جلسہ عام نہ صرف تحریک کا نقطعہ آغاز ہو گا بلکہ جلسے میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت تحریک کا رُخ بھی متعین کر دے گی۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ اپنے اپنے طور پر جلسہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف پنجاب حکومت اپوزیشن کارکنوں کو نیب اور پولیس کے ذریعے الجھانے میں مصروف نظر آتی ہے۔ اپوزیشن کے بینرز اور فلیکسسز کو کارپوریشن کے ذریعے اتروایا جا رہا ہے جبکہ دو سال سے نظرانداز تحریک انصاف کے ایم پی ایز پر وزیراعلی ہاؤس اور ترقیاتی فنڈز کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں۔ حکومت کے ان ہتھکنڈوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب حکومت کے گھبرانے کا وقت ہوچکا ہے، حکومت مخالف تحریک کے سلسلے میں جو صورتحال بنتی نظر آ رہی ہے اس کے پیشِ نظر یہ کہنا بالکل درُست ہو گا کہ پہلی دفعہ اپوزیشن اتحاد کی بدولت مقتدرہ بھی دفاعی پوزیشن پر جاتی نظر آ رہی ہے۔ حکومت کی بوکھلاہٹ سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ پہلے دن سے کمزور بنیادوں پر قائم حکومت اب گھبرا چُکی ہے اور کِسی کو این آر او نہ دینے کا دعوی کرنے والی حکومت بہت جلد اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششیں شروع کر دے گی لیکن شائد اِس کے لیے بہت دیر ہو چُکی ہے اور اب فیصلہ سڑکوں پر ہی ہو گا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی سیاسی بصیرت سے مختلف الخیال اپوزیشن جماعتوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے جِس تحریک کی بنیاد رکھی ہے اس کے نتیجے میں نہ صرف نااہل حکومت سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ آمرانہ قوتوں سے بھی ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ پا کر ملک کو حقیقی جمہوریت کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہے۔ اگر اتحادی جماعتیں اپنے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مشترکہ قومی مقصد کے لیے یکسُو رہیں تو جمہوری انقلاب برپا ہو سکتا ہے لیکن اگر کِسی ایک جماعت کو سولو فلائیٹ یا تحریک کا کریڈٹ اکیلے اکیلے سمیٹنے کا شوق چرایا تو سِول بالادستی کی طرف پیشرفت کا یہ نادر موقعہ بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اگر کسی اتحادی جماعت کے رویہ کی وجہ سے تحریک کو نقصان پہنچتا ہے تو اس سے ملکی سلامتی، قومی یکجہتی اور بقا کو جو نقصان ہو گا نہ تو اس کا مداوہ ممکن ہو سکے گا اور نہ تاریخ ہی سِول بالادستی کی اِس اہم ترین جنگ میں ناکامی پر معاف کرے گی۔

About The Author