فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پانچواں بڑا ملک ہے جہاں پانی کا مسلہ دن بدن سنگین ہوتا جارہا ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ سال 2025 تک پاکستان کو پانی کی شدید ترین قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے .
جبکہ صورتحال کی سنگینی کا اس حقیقت سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اندازے کے مطابق سال 2040 تک پاکستان کا شمار جنوبی ایشیا کے اس ملک میں ہوگا جس کے پاس شاید پانی نہ ہو۔
یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان میں فی کس باشندے کے پاس پانی 2172 مکعب میٹر سے گھٹ کر صرف 1306 مکعب میٹر ہے۔
جبکہ 27.227 اس وقت تک صاف پانی سے محروم ہیں ۔صاف پانی سے محرومی اور آلودگی کے باعث پاکستان میں ہر سال اندازے کے مطابق 39000 بچے اسہال کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔
پاکستان میں صاف پانی کے لیے انفرا اسٹرچکر کی ناقص صورتحال کی حالت زار کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان سے ہر سال ایک کثیر تعداد میں میٹھا پانی نکلتا ہے لیکن حیران کن طور پر اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے گنجائش 120 دن سے گھٹ کر تیس دن پر ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں صرف تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم ہی پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے دو بڑے ڈیم رہے ہیں.
پاکستان کے پالیسی سازوں اور دوسرت تمام اسٹیک پولڈرز نے پانی کی ذخیرہ اندوزی اور وسائل پر بہت ہی کام کیا ہے جس کی وجہ سے آبادی کی بڑھتی تعداد کو صاف پانی تک کی رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے.
ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پانی کی ناقص منصوبہ بندی پر پاکستان کو کو سالانہ بارہ بلین امریکی ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں جو اس کی جی ڈی پی کا چار فیصد ہیں .
دوسری جانب گھریلو صارفین کو صاف اور آلودگی سے پاک پانی پہنچانا اور پانی کی صافاءی بہت بڑا چیلینج ہے ۔
پاکستان کیونکہ ایک زرعی ملک ہے اور اس کا دارومدار زراعت پر ہے معاشی طور پر پنجاب کا آبپاشی میں باءیس ارب ڈالر کا حصہ ہے .
تاہم چار بڑی فصلیں کپاس گندم چاول اور گندم اسی فیصد سے زیادہ پانی کھیتوں میں آبپاشی کے لیے استعمال کرتے ہیں.
جبکہ یہ صرف ملک کے جی ڈی پی میں پانچ فیصد کے حصے دار ہیں اس لیے آبپاشی کے نظام کو موثر اور بہترکرنے کی ضرورت ہے تاکہ پانی کو بچایا جاسکے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ پانی کی پیداواری صلاحیت پر پاکستان میں کام نہیں ہوا حالانکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کی وجہ سے آبپاشی کے نظام پر انحصار کرتا ہے.
جبکہ بجلی پیدا کرنے کے لیے بھی پاکستان کا انحصار پانی پر ہے۔وقت کا تقاضہ ہے کہ پاکستان میں واٹرمینیجمنٹ کو بہتر کیا جائے کیونکہ پاکستان میں اس وقت ساٹھ ملین افراد کو جو پینے کا پانی ملتا ہے اس میں آرسینک کی خطرناک حد تک موجودگی کی نشاندہی ہے جس کی وجہ سے کینسر دل کی بیماریاں ذیابیطس اور ذہنی جسمانی بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
آلودہ پانی پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے جسکا تدارک ضروری ہے پاکستان کو فوری طور پر واٹر مینجمنٹ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ صاف پانی کو شہری اور دیہی علاقوں کے لیے مہیا کیا جاسکے . جبکہ بڑھتی پانی کی آلودگی پر قابو پانے کے لیے پالیسی سازوں کو بھی اپنی پالیسی واضح طور پر بنانا ہوگی تاکہ پانی کے وسائل کو بھی محفوط کیا جاسکے
واٹر مینجمنٹ کے لیے قومی سطح پر اور صوبائی سطح پر ایمرجنسی پروگرام نافذ کرنے کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور انڈس ریور اتھارٹی کو فعال کرنے کی ضرورت ہے.
ایک مربوط فریم ورک کی ضرورت ہے جو نہ صرف پانی کی تقسیم پر نظر رکھے بلکہ صاف پانی کی ترسیل بھی ممکن بناسکے .
جبکہ دوسری جانب جنگلات کے مناسب اور وسیع منصبوں سے بھی آبی آلودگی پر قابو پایا جاسکتا ہے
جنگلات کی کمی کی وجہ سے پاکستان کو بار بار سیلاب کی صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو پانی کو ذخیرہ کرنا بھی مسلہ ہوتا ہے جبکہ پانی کی ذخیرہ اندوزی کے لیے ڈیمز بھی بہت ضروری ہیں . بڑے ڈیمز بنانے سے بہتر چھوٹے ڈیمز ہیں جن پر سب کا اتفاق ہو چھوٹے ڈیمز کی وجہ سے ویسے بھی ماحولیاتی خطرات کم ہوتے ہیں۔
جبکہ ان ڈیمز کے پانی کو گھریلو استعمال آبپاشی اور کھیتی باڑی کے لیے آرام سے استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ آبی وسایل کے موثر انتظام میں بھی یہ ڈیمز قابل قدر کرادر ادا کرسکتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان ماحولیا ت کو لیکر بہت سنجیدہ ہیں امید کرتے ہیں کہ وہ پانی کے سنگین مسلے پر بھی اب سنجیدگی سے غور کرکے ایک متناسب فریم ورک بنانے میں کامیاب ہونگے تاکہ آلوہ پانی کے باعث ضائع ہونے والی جانیں بچ سکیں ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ