سیاسی جماعتوں کے پاس سلوگن تو ہیں بیانیہ نہیں۔جس کو سیاسی جماعتیں بیانیہ کہتی ہیں ،وہ سلوگن ہیںاور سلوگن بدلتے رہتے ہیں،جیسے سلوگن نوازشریف کے پاس ہیں۔مئی2013ء کے عام انتخابات میں منتخب ہونے والے پاکستان کے وزیرِاعظم نواز شریف نے 2017ء کے ماہِ مارچ میں دواہم تقاریر کی تھیں ۔
پہلی تقریر اُنہوں نے11 مارچ جامعہ نعیمیہ لاہورمیں کی تھی ۔جس میں مذہبی علما ء پر زور دیتے ہوئے کہا تھا ’’ وہ قوم کے سامنے دین کا اصل بیانیہ رکھیں ،علماء تعاون کریں گے تو اُن عناصر کا خاتمہ ممکن بنایا جاسکے گا،جو شرپسند ہیں‘‘اُنہوں نے واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھاکہ دین کے نام پر انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی حکومت اور علمائے دین انتشارپھیلانے والے عناصر کی کوششوں کو مل کر ناکام بنائیں ،مل کر ملک کو مستحکم کریں اور ملک کو اَمن کا گہوارہ بنائیں ۔میاں نواز شریف کی مذکورہ بالا تقریر میں کچھ پہلو بہت اہمیت کے حامل تھے ۔
اُن کی تقریر سے یہ مترشح ہوا کہ انتہا پسندی کا معاملہ غلط مذہبی توجیہات کی بدولت ہے،نیز فرقہ واریت انتہائی قبیح عمل ہے ۔ سب سے اہم یہ کہ علماء کی بدولت انتہا پسندی کو بھی روکا جاسکتا ہے اور فرقہ واریت کے عفریت پربھی قابو پایا جاسکتا ہے ۔اُن کی دوسری تقریرچودہ مارچ2017ء کی ہے ،جس میں ہولی کی تقریب سے خطاب کیا اور مذہب کی زبردستی کی تبدیلی کو جرم قرار دیا تھا ۔ان کا کہنا تھا ’’ جنت دوزخ کا فیصلہ ہمارا کام نہیں ہے ،کچھ عناصر مذہبی اختلاف کو ریاست کی کمزوری بنانا چاہتے ہیں ،نیز ہمیں مندروں ،کلیسائوں اور دوسری عبادت گاہوں کا تحفظ کرنا چاہیے ‘‘میاں نواز شریف کی دونوں تقاریر واضح طور پر لبرل بیانیہ کی حامل تھیں ۔
اہم ترین سوال یہ تھا کہ مذکورہ تقاریر نئے بیانیہ کی تشکیل کی بنیاد ٹھہر ائی جاسکتی تھیں ؟اس کے جواب کے لیے اُن کے اقتدار کے عرصہ کی مختصر تاریخ پر نظر دوڑانا ضروری تھا۔یہ بہ خوبی دیکھا جاسکتا تھا کہ اُن کی حکومت نئے بیانیہ کی تشکیل کے لیے کتنی سنجیدہ ہے؟حقائق یہ تھے کہ اُن کی تقاریر اور اُن کے طرزِ حکومت میں بُعد تھا۔ہر سیاسی جماعت کے سربراہ کی طرح اُن کی تقاریر بھی قول وفعل کے تضادات کی حامل تھیں ۔
نیا بیانیہ کوئی کھیل نہیں ۔اگر مسلم لیگ ن کی حکومت اس کے لیے سنجید ہ ہوتی تو اس پر اُ ن کے عہد میں کام ہوتا دکھائی دیتا۔ لیکن یہاں تو معاملہ اُلٹ تھا۔مسلم لیگ ن کی حکومت کی طرف سے ایک آدھ اقدام بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا ،جس سے واضح ہو تا کہ وہ متبادل بیانیے کی تلاش میں تھے۔میاں نواز شریف اور اُن کے مشیران کو یہ ادراک تھا کہ متبادل بیانیہ کی تشکیل کیسے ہوگی اور اِن میں کون سے طبقات اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے؟
وہ اس بات کا ادراک تو رکھتے تھے جن کا ثبوت اُنہوں نے اپنی تقاریر میں بھی دیا کہ پاکستانی سماج میں نفرت پھیلائی گئی ہے،لوگوں کو زبردستی اپنے عقیدے کا حامل بنانے کے جتن کیے گئے ،انتہاپسندی معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر چکی،مگر اُنہوں نے اس بات کا بھی تو ثبوت نہیں دیا کہ اُن کی حکومت نے ایسی پالیسیاں ترتیب دیں ہیںکہ جس میں انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہو سکے،دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جا سکے۔ پُراَمن معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔رواداری کا چلن عام ہوسکے اور فرقہ واریت کا مکمل سدِ باب کیا جاسکے۔
البتہ میاں نوازشریف تقاریر سے قبل بھی پاکستان کو لبرل ریاست بنانے کی باتیںکرتے رہے۔اُنہوں نے جامعہ نعیمیہ میں علماء سے تو یہ کہا تھا کہ وہ ایسے بیانیے کی تشکیل کریں جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے بیانیے کو ختم کر دے مگر خود حکومت نے مدرسہ اصلاحات میں کس حد تک سنجیدگی دکھائی اور اس ضمن میں 2018ء کے انتخابات تک کس حد تک کام ہوا؟اس ضمن میں کچھ بھی تسلی بخش نہ ہوا ۔اگر اُن کی تقاریر سے یہ اخذ کیا جائے کہ وہ بنیاد پرستی ،انتہاپسندی کے بیانیہ کی جگہ روشن خیال اور ترقی پسند بیانیہ کی تشکیل چاہتے تھے تو یہ مکمل طور پر دُرست نہیں ۔البتہ تقاریر سے یہ تاثر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ ایک روشن خیال اور ترقی پسند معاشرے کی تشکیل کے لیے کوشاں رہے اور اسی کو نیا بیانیہ سمجھتے رہے ۔
جون2014ء متبادل بیانیہ کی تشکیل کے لیے دُرست وقت تھا ،جب آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا گیاتھا۔دہشت گردی کی جنگ کے خلاف آپریشن ضربِ عضب ایک غیر معمولی اقدام تھا ۔جس وقت پاک فوج دہشت گردوں کے لیے پوری منصوبہ بندی کے تحت نکلی، اُسی وقت حکمرانوں کو سماجی سطح پر تبدیلی کا لائحہ عمل مرتب کر لینا چاہیے تھا، اگر ایسا ہو جاتا تو شاید بعدازاں 2017ء میں رَد الفساد آپریشن کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ حکومت مفکروں ، دانشوروں، ادیبوں، لکھاریوں کو اکٹھا کرتی،ماہرینِ تعلیم اور سوشل سائنٹسٹوں کی خدمات لیتی اور انتہا پسندی و دہشت گردی کے خلاف متبادل بیانیہ تشکیل دے ڈالتی۔
مگر اُس وقت ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔اس کے بعد متبادل بیانیہ کی تشکیل کا درست وقت آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کاوقت تھا۔اگر چہ حملہ کے فوری بعد غیر معمولی اقدامات اُٹھائے گئے ،نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا ،آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کا قیام ممکن بنایا گیامگر نیشنل ایکشن پلان میںمتبادل بیانیہ کی کوئی جھلک محسوس نہیں کی جاسکی۔ جب قومی بیانیہ کی بات ہو گی ،تو یقینی طور پر اس کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر عائد ہو گی۔سیاسی جماعتیں ملکر قومی بیانیہ کی تشکیل کریں گی۔
لیکن نائین الیون کے بعد کی پاکستانی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مختلف ملکی ایشوز پر بارہا اے پی سی کا انعقاد تو کیا جاتار ہا ،مگر قومی بیانیہ کے لیے کوئی ایک اے پی سی کا اہتمام نہیں کیا گیا۔یہ دُرست ہے کہ بعض سیاسی رہنمائوں کی بصیرت اور ذہنی بالیدگی اعلیٰ درجے کی ہے لیکن کسی ایک بھی سیاسی جماعت کا مجموعی تاثر علمی نوعیت کا نہیں رہا ۔ریاستِ پاکستان نائین الیون کے بعد جس پیچیدہ نوعیت کے متنوع مسائل میں گھِری ،اُن مسائل کا سارا بوجھ سیاسی جماعتیں کیسے برداشت کر سکتی تھیں ؟وہ سیاسی جماعتیں جو علم کو زیادہ اہمیت نہ دیتی ہوں اور جن کا تعلیم کیلئے بجٹ انتہائی قلیل ہو۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ