فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کے کاموں میں سگھڑ ہوں تاکہ سسرال میں آرام سے رہ سکیں ہنر مند بنا نا تو دور کی بات ہے لیکن کراچی کٹی پہاڑی کے رہائشی نصیب جمال نے
معاشرے کی اس فرسودہ سوج کو بدلنے کا نہ صرف ارادہ کیا بلکہ اس کو عملی جامہ بھی پہنادیا ۔
قصبہ کالونی میں ایک چھوٹی سی الیکٹریشن کی دکان کے مالک نصیب جمال کے شاگرد کوئی اور نہیں ان کی آٹھ بیٹیاں ہیں جن کو انہوں نے اپنا ہنر منتقل کیا
اور خاندانی روایتوں کے بر خلاف ان کو اپنے ساتھ دکان پر ہی رکھا۔
میں نے نصیب جمال اور ان کی بیٹیوں سے ملاقات کی اور جانا کہ اپنی بیٹیوں کو ہنر مند بنانے کے پیچھے کیا مقصد کار فرما ہے۔
چھوٹی سے اس دکان پر دو کم عمر بچیاں جویریہ اور ثمعیہ جن کی عمریں نو اور گیارہ سال کے درمیان ہیں اپنے نازک ہاتھوں سے مشاقی سے برقی آلات کی
مرمت کررہی تھیں ہمارے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ انہیں تقریباً اب سب کام آتا ہے اور وہ برقی آلات کی مرمت کا کام آسانی سے کرلیتی ہیں۔
گیارہ سالہ جویریہ نے بتایا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ پچھلے چار سال سے کام کررہی ہیں اور اس کو اپنی بڑی بہنوں کو دیکھ کر یہ شوق ہوا تھا۔
جبکہ چھوٹی سمعیہ ابھی ایک سال سے کام سیکھ رہی ہیں اور ان کو بھی اس کام میں مزہ بہت آتا ہے ۔ ہمارے پوچھنے پر اس کام سے کرنٹ لگنے کا ڈر نہیں
لگتا تو جویریہ نے مسکرا کر بتایا مجھے بڑے ہوکر فوج میں جاکر انجینیر بننا ہے تو فوجی تو کسی سے نہیں ڈرتے ہیں ۔
نصیب جمال سےجب ہم نے سوال پوچھا کہ یہ خیال ان کو کیسے آیا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اپنا ہنر سکھادیں اور ساتھ ان کو دکان پر بھی لیکر جائیں؟
اس پر نصیب جمال کا کہنا تھا کہ جب میری چار بیٹیاں تھیں تو سب لوگ مجھے کہتے تھے کہ تمہاری بیٹیاں ہیں بیٹا نہیں ہے بڑھاپے کا سہارا کون ہوگا تو میں
نے سوچا کہ میں اپنی بیٹیوں کو ہی اعتماد دوں ان کو بھروسہ دوں ان کو طاقتور بنادوں ان کو ہنرمند بنادوں۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کسی ضرورت کے تحت اپنی بیٹیوں کو ہنرمند نہیں بنایا بلکہ میری خواہش تھی کہ میں اپنی بیٹیوں کو ہر
میدان میں آگے لیکر آؤں ، میں چاہتا ہوں کہ ماں باپ اپینی بیٹیوں کو بوجھ نہ سمجھیں ان کو ہنر دیں اور معاشرے کے لیے ایک قابل انسان بنادیں۔
آگے لیکر آئیں اور اسی مقصد کے لیے میں بھی اپنی بچیوں کو اپنی شاپ تک لیکر آگیا اور ان کو ٹرینینگ دینا شروع کی اور میری چار بیٹیاں فل کاریگر بن
گئیں ہیں۔ شادیوں کے بعد وہ اپنے گھر میں پڑوسیوں رشتہ داروں اور اپنے گھر کا کام کرتی ہیں جبکہ میری یہ دوںوں چھوٹی بیٹیاں جویریہ اور سمعیہ ان
دونوں کو بھی کام آگیا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کیا آپ پر گھر والوں اور محلے والوں کا پریشر تھا اور تنقید کیسے برداشت کی اس پر نصیب کا کہنا تھا کہ ہاں پریشر تھا مجھ پر جب
میں پہلی بار اپنی بڑی بچی کو کام پر لیکر آیا تو پہلے تو کسی نے نوٹس نہیں کیا لیکن جب نوٹس کیا تو پھر لوگوں نے اعتراض کرنا شروع کردیا محلے والوں
نے بھی بولنا شروع کردیا۔ لیکن میں کسی پریشر میں نہیں آیا میں نے انہی سے سوال پوچھا کہ اس میں کیا بری بات ہے یہ میری بچیاں ہیں اور میں اپنے ساتھ
ان کو رکھ کر ہنر سکھا رہا ہوں اور ان کی کمزوری کو میں ختم کررہا ہوں کل کو معاشرے کے لیے یہ ایک ہنرمند باصلاحیت پاکستانی ہونگی میرا اور آپ
سب کا فخر ہونگی تو آہستہ آہستہ سب نے قبول کرنا شروع کردیا اور آج میری دکان پر آنے والے میری بیٹیوں کا کام دیکھ کر مطمٔن ہوتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میری سوچ اور میرا مقصد ہے کہ اپنی بیٹیوں کو اعتماد دیں ان کو طاقت دیں ان کو اپنے اوپر بھروسہ کرنا سکھا دیں تاکہ کل کو یہ اپنا
بوجھ اٹھانے کے قابل ہوں کسی کی محتاج نہ ہوں آگے بڑھیں اور معاشرے کو بھی پیغام ملے کہ اگر کسی کی بچیاں ہو تو ان کو کمزوری مت سمجھیں ان کو
تعلیم دیں ہنر دیں ان کو ہر میدان میں ہر شعبے میں آگے لیکر آئیں۔
جب ہم نے وہاں موجود آس پڑوس کے لوگوں سے بھی نصیب جمال اور ان کی بیٹیوں کے بارے میں پوچھا تو ان کا بھی یہ کہنا تھا کہ ان کو ان ہنرمند بچیوں پر
فخر ہے اور نصیب جمال جیسے باپ ہمارے معاشرے کا اثاثہ ہیں۔ نصیب اپنی بیٹیوں کے مستقبل کی طرف سے فکر مند ہیں اور ان کی حکومت سے صرف
اتنی اپیل ہے کہ وہ ان کی بیٹیوں کی پڑھائی کے لیے بندوبست کردیں تاکہ ان معصوم آنکھوں کہ خواب ادھورے نہ رہ جائیں۔
نصیب جمال جیسے باپ ہمارے والدین کے لیے ایک مثال ہیں جو اپنی بیٹیوں کو اہنا فخر اپنا مان مانتے ہیں ا ور معاشرے کی کسے فرسودہ سوچ کے آگے سر
نہیں جھکاتے۔ ارباب ااختیار سے بھی گزارش ہے ان ننھے ننھے ہنرمند ہاتھوں کے لیے کتابوں کابندوبست کردیں تاکہ کل یہ پاکستان کا نام روشن کرسکیں۔
چاہتا ہوں میری بیٹیاں انجینیر بنیں
نصیب جمال#Karachi 💚💚@BBhuttoZardari @SindhCMHouse @OfficialDGISPR @DGPR_PAF pic.twitter.com/ghyaqWcuXT— Fahmidah Yousfi (@fahmidahyousfi) October 6, 2020
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ