مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"سوز خوانی کا فن ایک مطالعہ "۔۔۔۔روما رضوی

یعنی غناء کی مناہی ہے تو سوز خوانی اپنے کلام کے رفعت اور ترنم کی سادگی کےباعث تلاوت جیسی پاکیزگی کا عنوان ہوجاتی ہے۔

روما رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"سوز خوانی کا فن ایک مطالعہ "
(مصنف و مُرَتِّب عقیل عباس جعفری)
کسی بھی معاشرے کے حساس افراد کا ظلم و جور کے مقابل رد عمل ظاہر کرنے کا اپنا الگ ہی انداز ہوتا ہے ۔ کہیں ظلم کے بدلے ظلم نمایاں ہوتا ہے تو کہیں احتجاج بَرنگِ علم و عمل ظلم کی نشاندہی کرتا ہے اور نا واقف لوگوں کے اذہان میں بھی ظلم کے خلاف بیداری اور تحرک کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔نامور مفکرین کابھی یہی ماننا ہے کہ انسان کے اندر جو علم و معارف کی دنیا آباد ہوتی ہے وہی مشکل وقت پڑنے کی صورت میں خارجی عوامل پرمثبت انداز میں اثر انداز ہوتی ہے ۔معاشرے میں ہونے والی زیادتیوں پر احتجاج کی کوئی بھی صورت ہو صاحبانِ علم اپنے اپنے طریق کے مطابق اظہار کرتے ہیں ۔جس کا جتنا علم ہوتا ہے اسکی گفتگو اتنی ہی مدلل اور موثر ہو کر قائل و معقول تک مطلوبہ نتائج کی ترسیل کرتی ہے۔
1400 چودہ سو سال قبل رونما ہونے والا واقعہ کربلا ، اگرچہ عرب کےایک غیر معروف ریگ زار اور خطۂ دور افتاد میں وقوع پذیر ہوا مگر اس خونِ ناحق کی بلند و بانگ صدا آج بھی بہت شدت کیساتھ ہر زبان ہر قوم و نسل کو متاثر کر رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ آل محمد علیہ السلام کے علوم و معرفت کے جاننے والے ان سے قربت اور اُن کے علم کو آگے بڑھانے کی لگن رکھنے والے محبانِ محمد وآل محمد کے در سے متمسک وہ علماء ، خطباء ، شعراء ذاکرین اور سوز و مرثیہ خوان ہیں جن کے دلوں میں مودت اھلِ بیت خون کی حرارت کی طرح موجزن ہے ۔
کربلا کے اس واقعۂ ہائلہ کو دنیا کے سامنے لانے کے لئے ابتداء سے ہی اشعار کا سہارا لیا گیا تھا جو آسانی سے عوام الناس کے ذہنوں میں نفوذ کر سکیں۔ اصحاب ِ امام سجاد اور آل محمد میں سے بھی کئی افراد کے نوحے بصورت اشعار تاریخ میں موجود ہیں کچھ صدی قبل اشعار کو طرز سے بینیہ انداز میں پڑھا جانے لگا۔۔ تب لحن یا ترنم کی نرمی نے پہلے سے مائل سماعتوں کو مزید اپنی طرف متوجہ کرلیا ۔سوز و ترنم کاعلم رکھنے والوں نے صوتی آھنگ کی شمولیت سے شاعری کے بیان کو مزید موثر بنا دیا اور دنیا بھرمیں داستانِ کربلا مزید غور اور تفکر سے سماعت کی جانے لگی۔خطابت کے بیان کیساتھ نوحہ ، مرثیہ و سوز خوانی نے منبر ِ حسینی کو نئے نئے ذاکرین عطا کردیئے ۔اگرچہ سوز خوانی پر عرصہ دراز تک غنائیت غالب رہی ،جیسا اسی کتاب میں ایک جگہ مصنف لکھتے ہیں ۔
” گوّیا ہو یا سوز خوان دونوں کی اساس موسیقی ہے ۔ سُر اور تال دونوں ساتھ ساتھ ایک ہی ڈگر پر گامزن رہتے ہیں لیکن آگے چل کر ان کے راستے الگ الگ ہوجاتے ہیں ۔اس کے لئے سوز خوان اپنے اوپر کچھ قیود عائد کر کے گوئیے کے زمرے سے الگ ہوجاتے ہیں ۔
اسلام نے موسیقی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا ہے۔ اس کے نزدیک یہ لہو و لعب ہے جو اسلام میں منع ہے تاہم اسلام کے اندر ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو محدود غناء کو مستحسن سمجھتا ہے ۔ موسیقی کی تانیں لگانے والا اور راگ سے راگ پیدا کرنے والا گویا ہے ۔ یہ غزل بھی گاتا ہے اور عشق مجازی میں فراق و وصال کے گیت بھی ۔
جبکہ سوز خوان مرثیہ ، نعت ، اور منقبت کے ذریعے اپنی خدا پرستی اور مذہب پرستی کے ترانے الاپتا ہے”
(سوز خوانی ایک فن)
یعنی غناء کی مناہی ہے تو سوز خوانی اپنے کلام کے رفعت اور ترنم کی سادگی کےباعث تلاوت جیسی پاکیزگی کا عنوان ہوجاتی ہے۔
یماری بد قسمتی ہے کہ ان موضوعات پر بہت کم لکھا گیا ہے اور سوز خوانی جیسی معتبر صنف کی طرف اس طرح توجہ نہیں دی گئی جیسی دی جانی چاہیئے تھی۔۔
زیرِ مطالعہ کتاب "سوز خوانی کا فن ” جسے عقیل عباس جعفری صاحب نے ترتیب دیا ہے اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے ۔۔ تحقیق سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے عقیل عباس جعفری صاحب کا نام نیا نہیں ہے ۔۔پاکستان کرونیکل جیسی مشہور تصنیف اور تحقیق کی بیشمار کتابیں انکے مرہون منت ہم جیسے طلبہ کے لئے رہنمائی کا باعث ہیں ۔ کتاب میں زیرِ گفتگو موضوع، یعنی سوز خوانی ایسا فن ہے جو خالصتا” برصغیر پاک و ہند میں آغاز ہوا اور اب تک مکمل آب و تاب کے ساتھ فی الزمانہ بھی رائج ہے ۔۔اس کی اساس یقینا” سنگیت پر ہے مگر محض ابلاغ کے ایک ذریعے کی صورت میں کہ جو سامعین تک پہنچنے کے لئے اشعار کو خوشگوار شکل میں پیشکش کے ذریعے قابلِ سماعت بنادے ۔اس عمل میں راگوں کا وقت کے مطابق اور برمحل استعمال شاعری کی اثرپذیری کو کئی گنابڑھا دیتا ہے۔ ابتداء میں اس کی صورت مرثیہ خوانی ہی رہی مگر مرثیہ کی طوالت کے پیش نظر ایک ہی طرز میں چار مصرع اور دو مصروں کو الگ انداز سے ادا کیا جاتا رہا، پھر مرثیہ کا صرف ایک بند یا رباعی کی صورت اشعار کو پڑھا جانے لگا اور وہ سوز کہلایا ۔سوز خوانی کے باقاعدہ اصول و ضوابط ہیں جو سیکھنے والے علم رکھتے ہیں۔پاک و ہند میں ہر علاقے اور زبان و لہجے میں سوز خوانی کا انداز الگ ہے ۔۔ مگر ذکرِامام عالی مقام کسی بھی زبان میں ہو نامِ حسین میں وہ تاثیر ہے کہ آنکھیں خود بخود چھلک پڑتی ہیں ۔
یعنی سوز خوان کی نظر میں یہ عوامل اولیت رکھتے ہیں
"سوز خوان کے پیش نظر بندش یا طرز کے بجائے کلام و پیغام اور مجلس و سامعین کی ضرورت اور ماحول اور سامعین ہوتا ہے یعنی یہاں پیغام کا موثر اور واضح ابلاغ اہم ہے "
(کتاب اقتباس سوز خوانی کا فن )
اب تک یہ فنِ سوز خوانی جن مراحل سے گزرا ، جن گھرانوں نے اپنے بچوں کی تربیت میں اس فن کو اب تک شامل کر رکھا ہے ، سوز خوان خواتین و حضرات میں سے وہ نام جنہوں نے بیشمار شاگرد بھی تیار کئے ، اس کتاب میں تقریبا” تمام تفصیل درج کی گئی ہے۔ وہ شعرا جو محض ایک سلام یا نوحے سے کئی صدیوں کے بعد بھی عوام میں چاہے جاتے ہیں انکا بھی تذکرہ اس کتاب میں کیا گیا ہے ۔سوز خوانی کے آداب ،لوازمات ، سوز خوان ساتھیوں کی تربیت اور اپنے سربراہ سے معاونت کس قدر ضروری ہے ،اسکی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ اب تک سوز خوانی پر جو کتب شائع کی گئیں ہیں انکی تفصیل بھی کتاب میں موجود ہے۔۔۔ مختلف شہروں میں مقبول سوز خوانوں کا مختصر تعارف اور نام بھی لکھ دیئے گئے ہیں۔
سوز خوان پڑھنے کے لئے کس طرح کلام کا انتخاب کرتے ہیں۔۔ کون سے شعرا کا کلام زیادہ پڑھا گیا ہے اور کون سے مرثئیے اور سوز و سلام بار بار پڑھے جاتے ہیں ۔ان کا بھی تفصیلی تذکرہ موجود ہے ۔ایسے سوز خوان اساتذہ جو اپنا کلام خود کہتے اور خود ہی طرزیں بنایا کرتے تھے ،انکے نام جو اب تک سوز خوانی کے لئے حوالہ سمجھے جاتے ہیں ،انہی کے بستے عوام میں مقبول بھی ہیں، سب کا تذکرہ مصنف نے شایانِ شان انداز میں کر دیا ہے۔
دیکھا جائے تو اب تک سوز خوانی پر وہی طرزیں وہی انداز غالب ہے جو اس فن کے آغاز میں متعارف کروایا گیا یا یوں کہیئے کہ وہ اس قدر عمدہ اور مکمل تھا کہ کوئی اسکی جگہ نہ لے پایا ۔امید قوی ہے کہ اسی موضوع پر مزید کام کیا جائے گا اور یہ بھی قوی امید ہے کہ ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی اس فن کو کمال تک لے جانے کے عمل کو جاری و ساری رکھے گا ۔
عقیل بھائی سے بھی امید ہے کہ اب جو انہوں نے اس سلسلے کا آغاز کیا ہے تو اسے مزید آگے بڑھائیں گے۔یہ سچ ہے کہ جو درِ محمد و آل محمد سے وابستہ ہوگیا وہ ان ہستیوں کی زیر سرپرستی معرکے سر کرتا ہے ۔۔
شاعر ِ اہل بیت مرزا دبیر علیہ الرحمتہ نے یونہی تو نہیں کہا تھا :-
جو کہ مصروفِ سلام ِ شہداء رہتا ہے۔۔
وہ نہیں رہتا مگر نام سدا رہتا ہے۔۔

%d bloggers like this: