عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

،تصویر کا ذریعہ@MARYAMNSHARIF
ہاتھ سے پھسلتی ریت اور انگلیوں سے کھسکتی ریشم کی ڈور محض خواہشوں سے نہیں رکتیں۔ وقت اور حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اُسی تیزی سے روک لینے کی خواہش بھی جنم لے رہی ہے۔
ڈور جس ہاتھ میں ہے وہ بھی بے یقینی کا شکار اور جس ہاتھ جا رہی ہے وہ بھی پر اعتماد نہیں۔ حاصل حصول کی اس جنگ میں ڈور حالات کے رحم و کرم پر ہے۔ کیا اب کی بار سرکتی ڈور کا سرا بچ پائے گا؟
سرگوشیوں میں ہونے والی سب باتیں کھلے عام ہو رہی ہیں۔ صرف دو تقریروں نے کئی بند ہونٹوں پر لگی مہر کو کھول دیا ہے۔ بند کمروں میں ہونے والی گفتگو چوک چوراہوں کی زینت بن چکی ہے۔ ’قومی سلامتی‘ سے منسوب تمام امور پر دل و جان سے بحث سمیٹی جا رہی ہے۔
کبھی فاطمہ جناح کے حوالے اور کبھی شیخ مجیب کی باتیں۔ ابھی ایک تقریر ہے کل کو جگہ جگہ جلسے ہوں گے۔ چھوٹی بڑی مگر کروڑوں ووٹوں کی حامل جماعتیں کیا کیا نہ کہیں گی۔ کس کس کو گرفتار کیا جائے گا، غداری کے اور کتنے تمغے بانٹے جائیں گے؟

،تصویر کا ذریعہRADIO PAKISTAN
ماضی میں گھومنے والی ٹائم مشین کو کس جگہ لا کر روک دیا جائے گا؟ ساٹھ کی دہائی میں جب قائداعظم کی بہن آئین شکن ایوب خان کے دور میں غداری کا تمغہ وصول کر رہی تھیں یا ستر کی دہائی میں شیخ مجیب الرحمن پر جن کے انتقال اقتدار کے مسئلے کو غداری کا نام دے دیا گیا تھا۔
کبھی اسی کی دہائی میں منتخب خاتون وزیراعظم سلامتی کے لیے خطرہ اور کبھی نواز شریف انڈیا کا ایجنٹ۔۔ اب ایک بار پھر غداری کے سرٹیفیکٹ، اخباروں کے کالے ہوتے صفحوں اور ٹی وی کی جگمگ جگمگ سکرینوں کو روشن نہیں بلکہ سیاہ کرنے کو تیار ہیں۔
تاریخ کے ساتھ مکالمے میں فتح آئینے کی ہے۔ جو کل ایک تقریر ہوئی اب جگہ جگہ بات ہو گی۔ یہ کیوں ہوا؟ نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر ہو گیا؟ اب کیا ہو گا؟ ان سوالوں کی بازگشت ہے۔
نواز شریف اور اُن کے چالیس ساتھیوں پر غداری کے مقدمے دائر ہو گئے۔ پنجاب سے طویل عرصے کے بعد جاگ پنجابی جاگ کے نعرے لگ رہے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے جزیروں کو آرڈیننس کے ذریعے وفاق اپنے کنٹرول میں لا رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں انتخابات سے متعلق بے چینی ہے، یوں لگتا ہے کہ کس نے سالوں ڈھکے جھگڑے ٹوکرے کے نیچے سے ایک ایک کر کے کھول دیے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
مسائل کو ہوا دینے اور حل سے درگزر کی پالیسی ناقابل فہم بھی ہے اور ناقابل قبول بھی۔ نتائج سے بے پرواہ اقدامات ایک ہاتھ اور خوف سے بے خبر فیصلے دوسرے ہاتھ میں ہیں۔ تصادم کی پالیسی سے حاصل حصول کیا؟ سب کو سب معلوم مگر ڈائیلاگ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
آخر کسی نے تو غداری کے مقدمے کا آئیڈیا دیا ہو گا جس سے ملک کے وزیراعظم نے بھی خود کو فاصلے پر کر لیا ہے۔ جس ملک کا چیف ایگزیکٹو معاملات سے لاتعلق ہو جائے وہاں مسائل کون حل کرے گا؟
اُدھر نواز شریف نے دو جمع دو پالیسی اختیار کی ہے، اب نہیں تو کبھی نہیں فارمولا۔۔۔ جیتے تو جیتے ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔ حزب اختلاف حکومت کو نہ ہی حریف سمجھتی ہیں اور نہ ہی مد مقابل۔۔۔ پھر کس سے بات ہو گی اور کیسے بات ہو گی؟
اپوزیشن اور حکومت کے سٹیک پہ کچھ ہو یا نہ ہو طاقت کے اصل مراکز کے سٹیک پر بہت کچھ ہے۔ سرکتی ڈور کے ایک حصے کو ہاتھ میں رکھنے کے لیے جگہ تو دینا ہو گی۔
اے وی پڑھو
ریاض ہاشمی دی یاد اچ کٹھ: استاد محمود نظامی دے سرائیکی موومنٹ بارے وچار
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو
راجدھانی دی کہانی:پی ٹی آئی دے کتنے دھڑےتے کیڑھا عمران خان کو جیل توں باہر نی آون ڈیندا؟