رضوان ظفر گورمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی وسیب کی محرومی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں گو وسیب کے سرائیکی سیاستدان پاکستان کے وزیراعظم وزیراعلیٰ گورنر وزیر خارجہ و دیگر اہم عہدوں پہ فائز رہے مگر وسیب کی حالت زار نہ بدلی۔نامساعد حالات میں بھی وسیب نے ایسے ایسے قابل فخر دھرتی زادوں کو جنم دیا جو ملک پاکستان میں فخر کا باعث بنے کھیل کے میدان سے جنگ کے میدان تک اداکاری سے لے کر گلوکاری تک ایسے سرائیکی سپوتوں کی اک لمبی فہرست ہے جنہوں نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پہ پاکستان کا نام روشن کیا۔
تحریک انصاف نے الیکشن میں کامیاب ہونے کی صورت میں پہلے سو دنوں میں سرائیکی خطے کی محرومی و مجبوریوں کا ادراک کرتے ہوئے الگ صوبے کے قیام کا وعدہ کیا تھا۔پہلے سو دنوں میں الگ صوبہ تو نہ بنا لیکن تونسہ جیسے پسماندہ علاقے سے سردار عثمان کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا کر وزیر اعظم عمران خان نے سرائیکیوں کو راضی کرنے کی کوشش ضرور کی تھی۔اب حکومت نے اس وعدے کی تکمیل کی طرف اک اور قدم بڑھاتے ہوئے سرائیکی وسیب پہ مشتمل جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کا اعلان کیا۔مذکورہ سیکرٹریٹ کے لیے پنجاب گورنمنٹ کے رولز آف بزنس میں ترمیم کی گئی اور اب تک 16 سے زائد سیکرٹریز کو جنوبی پنجاب میں تعینات کیا جا چکا ہے۔صحت، تعلیم، پولیس، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، لوکل گورنمنٹ، فنانس، اور زرعی محکموں کو جنوبی پنجاب منتقل کیا جا چکا ہے۔علاوہ ازیں آئندہ سال بجٹ کے حوالے سے جنوبی پنجاب کے لئے علیحدہ سالانہ ترقیاتی پروگرام اور پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحت ملازمتوں اور دیگر نوکریوں کے حوالے سے جنوبی پنجاب کے عوام کےلئے کوٹے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
اس وقت تخت لاہور ہو یا سرائیکی وسیب عوام کی جان و مال کی حفاظت کا ذمہ دو سرائیکی سپوتوں نے اٹھایا ہوا ہے۔لاہور میں سی سی پی او عمر شیخ صاحب رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے اک سرائیکی افسر ہیں۔پچھلے دنوں ان کی تعیناتی اور بیانات خوب متنازعہ ہوئے۔تنازعات میں پڑے بغیر میں عمر شیخ صاحب کے پروفیشنلزم کے متعلق بتانا چاہوں گا۔سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو سی آئی اے ایف بی آئی کے علاوہ بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتاناموبے میں بھی کام کرنے کا تجربہ ہے۔امریکہ میں فرانزک سائنس اور کرائم منیجمنٹ پڑھ کر آنے والے عمر شیخ شاندار پولیس افسر ہیں۔انہوں نے سو دنوں میں لاہور میں لا اینڈ آرڈر کی صورت حال تبدیل کرنے کا دعویٰ کر رکھا ہے اور ان کی چند ہفتوں کی کارکردگی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ اک غیر روایتی افسر ہیں۔شہری بن کر ون فائیو پہ کال کر کے پولیس کی کارکردگی جانچنا ہو یا پھر سر راہ چلتے شہری کی شکایت پہ کاروائی کرنا۔پولیس کے لیے یہ کئی سخت مثالیں قائم کر چکے ہیں جن میں نجی ٹارچر سیل کے جرم میں انسپکٹر اور ڈی ایس پی کو حوالات میں بند کرنا سرخیوں میں ہے۔اہل علم امید کر رہے ہیں کہ جلد ہی لاہور پولیس بدلی ہوئی نظر آئے گی۔
ادھر سرائیکی وسیب کی پولیس کی سربراہی کے لیے چنے جانے والے ایڈیشنل آئی جی آپریشنز حافظ عبدالغفار قیصرانی یونان صغیر کہے جانے والے تونسہ شریف کے زمین زادے ہیں۔عمر شیخ کی طرح انہوں نے بھی سرکاری ٹاٹ سکول سے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جو لاہور سے ہوتا ہوا بیرون ملک تک پہنچا۔عبد الغفار قیصرانی نے آسٹریلیا سے کورسز کر رکھے ہیں۔عبدالغفار قیصرانی اس سے پہلے لاہور ،ننکانہ،جھنگ ،سیالکوٹ اور جہلم سمیت کئی اضلاع میں اہم عہدوں پر تعینات رہ چکے ہیں۔ علم ادب سے گہرا شغف رکھنے والے عبد الغفار قیصرانی پولیس ڈیپارٹمنٹ میں اپنی ایمانداری اور بہترین پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر شہرت رکھتے ہیں جبکہ وہ اہم ایشوز پر کئی قومی اخبارات میں تسلسل کے ساتھ کالم بھی لکھتے رہے ہیں۔
عبدالغفار قیصرانی پولیس کا مثبت چہرہ ہیں انہوں نے ڈیرہ اسمعیل خان میں طالبانائزیشن کا خاتمہ کیا تو موٹروے پولیس میں نوجوان طلبا کے لیے یونیورسٹیز کے ساتھ شاندار آگاہی مہم چلائی۔
اپنی جڑوں سے جڑے انسان دوست پولیس افسر عبدالغفار قیصرانی نے پولیس کے رویوں میں مثبت تبدیلی کے لیے معروف موٹیویشنل سپیکر قاسم علی شاہ کے ساتھ مل کر پولیس اہلکاروں کو لیکچرز دیے۔
راقم سے حالیہ ملاقات میں انہوں نے جنوبی پنجاب پولیس میں انقلابی اصلاحات کے حوالے سے اپنے منصوبے شئیر کیے جن میں سوشل میڈیا پہ عوام کے ساتھ لائیو سیشن رکھنا،عوامی مقامات پہ کھلی کچہریوں کا انعقاد،پرتشدد مظاہروں کے دوران سفارتخانوں کی سیکیورٹی کا تجربہ رکھنے والے عبدالغفار قیصرانی اینی ریٹس فورس کے قیام کا بھی ارادہ رکھتے ہیں جو احتجاج کے دوران ناخوشگوار صورت حال کے پیش نظر بنائی جائے گی۔پولیس کو ان کا جائز مقام دلانے اور عوام کی آسان رسائی کے لیے ٹوئیٹر و فیس بک اکاونٹس پہ موجودگی،پولیس کے عوام کے ساتھ رویے کو بہتر کرنا،شہید اہلکاروں کی قربانیوں کے اعتراف کے علاوہ وسیب بھر میں پولیس کی کارکردگی جانچنے کے لیے میکنزم بنانے کے لیے وہ ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب کیپٹن ر ظفر اقبال کے ساتھی ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس بیک وقت ظالم و مظلوم دونوں طبقات میں شامل ہے۔مدعیان ایف آئی آر کے اندراج سے ہی غلط بیانی کا جو سلسلہ شروع کرتے ہیں وہ انصاف کے حصول میں بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آتا ہے۔ملزمان کی تعداد بڑھانا خاندانی دشمنیوں کے لیے مقدمات کا سہارہ لینا سیاسی اثر و رسوخ کی دھاک بٹھانا جیسے کئی اقدامات پولیس کے لیے مسائیل کا سبب بنتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس افسر بننا ان کا خواب تھا اس لیے نہیں کہ انہیں کسی ٹھاٹ باٹ ہٹو بچو کی صدائیں ہوٹرز یا پروٹوکول کی ضرورت تھی بلکہ پولیس وہ واحد محکمہ ہے جو باقی سب سے پہلے یعنی انتہائی ابتدائی سطح پہ مظلوم کی داد رسی کرتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ وہ گھر سے یہی سوچ کر نکلتے ہیں کہ آج کتنے لوگوں کو انصاف فراہم کر پائیں گے۔مظلوم کی داد رسی کے بعد ملنے والی دعا سے بڑا کوئی انعام نہیں اور اد انعام اس سکون کے لیے اٹھارہ سال بعد بھی ان سے پوچھا جائے کہ کون سا محکمہ جوائن کرنا ہے تو ان کی پہلی ترجیح پولیس ہو گی۔دعا ہے کہ یہ دونوں وسیب زادے پولیس کے روایتی امیج کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوں۔آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی