گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان پرانے زمانے سے کئی قبیلوں کا مسکن تھا اور ہر قبیلے کی اپنی دلچسپ رنگ برنگی روایات تھیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان شھر کی بنیاد تو 1469ء میں رکھی گئی لیکن کبھی یہ شھر تخت کابل کے ماتحت چلا جاتا کبھی ملتان کے حکمرانوں کے ۔کابل سے تعلق کی وجہ سے یہ افغان ۔ سنٹرل ایشین ملکوں اور ایران کے تاجروں کا مرکز بنا رہا اور یہاں کی پاوندہ سراۓ کنگ سرائے مشہور تھی۔
ڈیرہ کو گومل تجارتی راستے ڈرائی پورٹ کی حیثیت حاصل ہو گئی اور یہاں امریکا ۔برطانیہ۔سنگاپور ۔کلکتہ۔مدراس ۔کراچی۔دہلی سے کروڑوں کا تجارتی سامان پہنچنے لگا جو درہ گومل کے راستے کابل۔تاجکستان۔ازبکستان۔ایران چلا جاتا۔ تجارت اور روزگار کی گہماگہمی سے ڈیرہ کے میدانی اور پہاڑی علاقوں میں کئی قبائیل آباد ہو گیے اور رنگارنگ تہزیبیں اور کلچر پنپنے لگے۔ پرانے زمانے کے قبائیل اپنی تہزیب و ثقافت کو ہمیشہ سینے سے لگاۓ رکھتے اور اپنی شادی خوشی کے مواقع پر اس کا اظہار ہوتا۔ پچھلے دنوں میرے ہاتھ تقریبا” ڈیڑہ سو سال پرانی ایک کتاب لگی جس کے صفحات بہت ضعیف ہو چکے ہیں۔
جس کا نام ہے۔۔ تواریخ ڈیرہ اسماعیل خان مصنف راۓ بہادر چرنجیت لعل مطبع سنٹرل جیل لاھور 1878ء ۔۔۔خیر میں نے بڑی احتیاط سے اس کے صفحات جوڑے اور اس کو پڑھنا شروع کیا۔اب ڈیڑھ سو سال پہلے ڈیرہ اور اس کے گردو نواح کیا ہو رہا تھا وہ بڑے دلچسپ حقائق سامنے آے۔
اگرچہ اس کتاب کے کئی صفحات ضائع ہو چکے ہیں پھر بھی تین چار سو بچ گیے ۔ اس میں پرانے زمانے کے رسم و رواج شادیوں کے معاملات درج ہیں۔ڈیرہ کے مضافات میں کسی ایک قبیلے کی شادی کی رسومات کا قصہ بڑا مزے کا ہے۔ لکھا ہے دلھن لے آنے کی اس قبیلے کی روایت یہ تھی کہ اونٹوں کے کچاوں پر بیٹھ کے عورتیں اپنے مردوں کے ساتھ دلھن کے گاٶں جاتے تو وہاں کی عورتیں چھوٹے پتھر اینٹ کے ٹکڑے اور بارود سے بنی شمشوریاں جیسے آجکل آتش بازی میں استعمال ہوتی ہیں لے کے بیٹھی انتظار کر رہی ہوتیں۔
جونہی بارات دلھن کے گاٶں داخل ہوتی اس پر ہر طرف سے سنگباری شروع ہو جاتی۔اور بارود کی شمشوریاں بھی پھینکتیں۔بارات کے مرد عورتیں اس وجہ سے پرانے میلے کچیلے کپڑے پہن کے آتے کیونکہ ان کو پتہ تھا انکی کی سنگباری سے تواضع ہونی ہے۔دلھا ساتھ نہیں ہوتا تھا ورنہ اس کا کباڑہ ہو جاتا بے چارے گاوں کے لوگ پتھر کھاتے۔
پھر جب بارات والے وٹے کھا کھا کےکچھ زخمی اور کچھ لاچار ہو جاتے تو دونوں گاوں کے سفید ریش بزرگ بیچ میں پڑ کر سنگباری رکواتے اور بارات گاٶں کے اندر جاتی اور دنبے کے گوشت کا مزیدار کھانا کھاتی۔یہ کھانا بھی دلھا والوں کی جانب سے تھا پتہ نہیں زخمی بے چارے کیسے کھانا کھاتے ہونگے۔۔
دلھن لے کر واپس آتے تو دلھن کا نکاح دلھا کے گھر پڑھایا جاتا۔بہرحال یہ رسم ڈیرہ شھر میں تو کہیں نہیں تھی دور پہاڑی علاقوں کے ایک قبیلے کی تھی اگر ہمارے زمانے ہوتی تو کم از کم میں تو شادی سے انکار کر دیتا اور لاھور سے دلھن لاتا۔ خیر پاکستان کے ایک بہت بڑے مورخ ۔فلاسفر پروفیسر علی عباس جلالپوری نے بھی قدیم رسومات پر ایک شاہکار کتاب لکھی ہے جو میں نے کئی سال پہلے پڑھی تھی کچھ ایسی رسومات کا اس میں بھی ذکر تھا۔
خود ہمارے زمانے میں شادیوں کے موقع پر ہم نے عجیب عجیب رسمیں دیکھیں جن میں تواہمات کا اثر زیادہ تھا۔دلھا کے ہاتھ میں لوہے کی stick تو ہمارے ہاتھ بھی دی گئی تھی کہ بھوت پریت دور رہیں۔
ایک جگہ گنڈھیں باندھنے کی رسم کے بعد چاۓ پلائی گئی اور کہا گیا تمام پیالیاں توڑ دی جائیں۔اور ٹھا پھا لگ گئی اور سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوۓ پیمانوں کا۔۔ صورت حال بن گئی۔گھڑی گھڑولا تو اب بھی ڈیرہ کے دیہاتوں میں جاری ہے۔دلھا کے سر پر ریشمی چادر ہوتی ہے۔
اس کی بہنیں چھوٹے گھڑے میں پانی بھر کے سر پر اٹھاے اپنے دوپٹے کے پلو کو باندھ کے گلیوں میں گھومتی ہیں اور آخر میں پلو کھلوانے کی رقم وصول کرتی ہیں ۔خیر یہ تو شغل سا بن جاتا ہے اصل میں ہماری ڈیرہ کی شادیاں ہیں ہی شغل کا نام۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ